دن کے تین بجے تھے، روٹین کے کام کاج جاری تھے جب اچانک شدید فائرنگ کی آواز نے سکون کی فضا کو خوف و خدشات سے بھردیا، گھر میں ہر فرد پریشان ہوگیا کہ کہیں قریب کوئی بڑا سانحہ ہو گیا ہے، شاید دو مخالف گروپوں میں لڑائی ہو گئی ہے، پردہ سرکا کر دیکھا تو دائیں طرف چوک پر شہریوں کی رُکتی اور واپس مڑتی گاڑیاں دیکھ کر صورتحال مزید خراب ہوتی محسوس ہوئی، فائرنگ کی آواز بڑھتی جا رہی تھی بیک وقت سینکڑوں گولیاں ہوا کا سینہ چھلنی کرتی سماعتوں پر بجلی بن کر گر رہی تھیں، لگتا تھاابھی یہ بارش ہمارے شیشوں پر بھی آگرے گی، فائرنگ کی آواز تھم گئی تھی، ہم شیشوں کے قریب دیوار سے لگے کانپ رہے تھے کہ نہ جانے کیا خبر سننے اور منظر دیکھنے کو ملے کہ اچانک چوک پر بہت سی گاڑیاں نمودار ہوئیں، ہمارے گھر کے سامنے سروس روڈ پر سے بھی یہ گاڑیاں گزر رہی تھیں ، یہ سترہ اٹھارہ سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں تھے، چھوٹی بڑی روف ٹاپ مہنگی گاڑیوں کا قافلہ چوک سے چاروں سڑکوں اور سروس روڈز کی طرف پھیل گیا ، بعد میں پتہ چلا ان کے مہنگے اور جدید تعلیمی ادارے میں آج کوئی بڑی تقریب تھی جس میں شہر کی مختلف برانچوں کے طلبا شریک تھے ۔تقریب کے بعد یہ ریلی نکالی گئی اور ریلی نکالنا روٹین کا کام ہے، دوستانہ ریلی تھی، برانچوں میں فائرنگ کا مقابلہ تھا، نہ اسکول والے منع کرتے نہ والدین اور قانون نافذ کرنے والوں کی کیا مجال ، ڈیفنس میں اس طرح کی سرگرمیاں کرنے والے زیادہ تر بچوں کا تعلق حاضر سیاستدانوں اور ریٹائرڈ اعلیٰ عہدے داران سے ہے۔
حیران ہوں لطف اندوز ہونے، کھیلنے اورایڈونچر کے لئے اپنے بچوں کو اسلحہ دینے والے والدین کس قسم کا معاشرہ ترتیب دیتے جارہے ہیں، ان گاڑیوں میں چھوٹی جماعتوں کے بہن بھائی اور دوست بھی ہوتے ہیں جو یہ سرگرمی دیکھتے ہیں، لاہور کے واحد بڑے کالج کے طلبا نے ٹرپ پر آئی لڑکیوں کی گاڑی روک کر زبردستی ساتھ چائے پینے کی آفر رکھ دی یہ کہتے ہوئے کہ وہ ایک بڑے ادارے اور کلاس کے افراد ہیں اور ان کی بات مانی جائے۔
ایک نہیں دو پاکستان والی باتیں سنتے تھے، ہر معاشرے میں طبقات ہوتے ہیں، دولت اور ذہانت کی بنیاد پر مگر ان میں اتنی گہری خلیج نہیں ہوتی، نہ وہ اپنے سے کمتر کو اتنا حقیر اور بے وقعت سمجھتے ہیں انسانیت کی قدر کو مسلم رکھا جاتا ہے، لیکن ہم جو نسل تیار کر رہے ہیں وہ دوسروں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے ہیں، ظاہر ہے وہ یہ جذبہ لے کر پیدا نہیں ہوئے، ان کے گھر کی چاردیواری میں ہونے والی سرگرمیوں اور رویوں نے انھیں یہ بے رحمی اور بے باکی عطا کی ہے ،یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے آگے چل کر اس ملک کے اہم سیاسی و سرکاری عہدوں پر فائز ہو کر ملک کی قسمت سنوارنی ہے۔
بچپن سے لا قانونیت کا سبق پڑھنے والے بڑے ہو کر کیسے اچھے رہنما بن سکتے ہیں، گھروں کی تربیت تو گھر والے جانیں مگر اس وقت ریاست کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ،قانون کے ضابطوں کے ذریعے معاملات کو سنوارنا ہے ،اسکول اور معاشرہ بھی والدین جیسا ہو جائے تو قومیں تہذیب یافتہ کہلاتی ہیں۔ہم سب مجبوراً قانون کی پاسداری کرتے ہیں اور جب موقع ملے لاقانونیت کی حد کر دیتے ہیں کیونکہ ہمیں یہی سکھایا گیا کہ طاقتور وہی ہے جو قانون کو بھی اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دے۔ تعلیم کے حوالے سے پاکستان میں دوانتہائیں موجود ہیں جو باقی اکثریت کے ساتھ کوئی جڑت نہیں رکھتیں، ایک اشرافیہ کے اعلیٰ اداروں اور دوسرے سفید پوشوں کے دینی مدارس میں پڑھنے والے بچے، ان کے درمیان سوجھ بوجھ اور فہم کی صدیوں کا فاصلہ ہے ، اکثریتی تعداد جو سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہے وہ شاید اخلاقی ضابطوں میں کہیں بہتر ہے۔ضروری ہے کہ بچوں کی شخصیت میں اخلاقی، جمالیاتی اور انسانی قدروں کی ترویج کے لئے نصاب کا از سر نو جائزہ لیا جائے ، انسان دوستی، خدمت خلق اور قانون کی بالادستی کو پورے ایمان اور اخلاص کے ساتھ اُن کی سوچ اور احساس کا حصہ بنایا جائے کہ اس کی بجاآوری اُن کی عادت بن جائے، وہ عملی زندگی میں قبضہ گروپ بننے کی بجائے بانٹنے اور دوسروں کے لئے سُکھ کے مواقع تلاشنے والے بن جائیں ، دلائل کے ساتھ بات کرنا سیکھیں، نہتے اور بے گناہ لوگوں کو بسوں سے اتار کر موت کے گھاٹ نہ اتاریں، دولت اور رتبے کو عزت کا معیار نہ بنائیں بلکہ ہر انسان کی قدر کریں۔
اس کے لئے اس دھرتی کے اصل ہیرو یعنی صوفیا کی تعلیمات کی طرف لوٹنا ہوگا، جنہوں نے دین کی قدروں کا عملی شکل میں مظاہرہ کرکے دکھایا،انھیں نصاب میں جگہ دینا ہوگی، رواداری، برداشت اور حسن سلوک کے علمبرداروں کو اپنانا ہوگا۔یقین کیجئے ہم ظلم اور بے انصافی کی اندھیر نگری میں بھٹکتے ہوئے خوفزدہ لوگ اسی صورت ایک اُجلے معاشرے کی تصویردیکھ سکیںگے،ہمیں معاشرے میں لاگو جنگل کے روئیے بدلنے ہیں جو کسی کے لئے بہتر نہیں ، یاد رہے جبلت پر نظر ثانی نہیں ہو سکتی مگر نصاب پر تو ہو سکتی ہے ، سزا کے خوف، نفسیاتی راہنمائی، اخلاقی تربیت اور مہربان رویوں سے شر کو محدود کیا جا سکتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ