عید سے پہلے اور عید کے بعد بھی پورے ملک میں ڈاکو ہر گلی، کوچے میں موجود، بچوں، برقع پوش عورتوں اور نوجوانوں کو بے نام گولیوں کا شکار کرتے رہے ہیں۔ یہ ذکر تو شہری ڈاکوؤں کا ہے۔ پورے ملک کے اندرونی علاقوں میں جو ڈاکو ہیں ان کی الگ شان ہے۔ انکے پاس تو اینٹی ایئر کرافٹ گنز اور ایسا ایسا اسلحہ ہے جو ہماری حکومت کے پاس بھی نہیں۔ ان حالات کے باوجود تحسین ہے، پاکستان کے علاوہ فلسطین کے ان بچوں پر جنہوں نے مسجد اقصیٰ میں تراویح پڑھیں، اس وقت بھی صہیونی بھیڑیے نماز میں خلل ڈالنے کو آگے بڑھے تو نمازیوں کی قوت ایمانی نے ان کا حملہ پسپا کردیا۔ پاکستان میں شمالی علاقوں میں اب بھی شہادت کی خبر کسی نہ کسی گھر میں پہنچ رہی ہے۔
اسی موقع پر فلسطینیوں کی حمایت میں خود اسرائیل کے مرد و زن مسلسل احتجاج کررہے ہیں۔ ہر چند سلامتی کونسل نے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کی ہے مگر ابھی بہت منزلیں ہیں کہ فی الحال تو سیز فائر ہوجائے اور تیل کے ذخائر والے مسلمان ملک، وہ آبادیاں جو نابود ہوئی ہیں اور مغرب کے امیر ترین لوگ مل کر ادھورے خاندانوں کو اطمینان کا سانس لینے کا ماحول پیدا کریں، دنیا بھر کے گانے والے، مزاحیہ اداکار اور نوبیل انعام یافتہ لوگ ان ستم زدوں کی آنکھوں کے آنسو خشک کریں اور دلداری کریں۔ جس طرح ویتنام اور جاپان کے لوگوں نے خود بھی ہمت کی، دیکھیں بنگلہ دیش دال بھات کھانے کے علاوہ اپنی حکومت کے ساتھ مل کر ریزہ ریزہ ملک کی دھول کو آئینہ بنا دیا۔ خود ہمتی کی بنیادی ضرورت ہے کہ پاکستان میں صرف رمضان میں مہنگائی81فیصد بڑھی ہے، ہر روز کی افطار پارٹیوں اور چسکے کیلئے سحری اور افطارکیلئے ہوٹل جانے والوں میں اکثروہی لوگ ہوسکتے ہیں۔ جنہوں نے کرپشن ناںناں کرتے ہوئے بھی بہت کی ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمرے پر اگر ایک مرد اور ایک غریب عورت کو بھی لے جاتے تو شایدقوم کو ان کا یہ عمل پسند آتا۔ ویسے سرگوشیوں اور غصے میں بڑبڑاتے ہوئے لوگ پوچھ رہے ہیں کہ حکومت میں بیٹھے ہوئے بلا کسی تخصیص کے ان کو ہم رہنما بنائے ہوئے ہیں، ان کے پاس اندھی دولت ہماری آنکھوں کے سامنے کیسے آئی۔ اس کے باوجود نفرتوں کے ڈھول کی آواز اونچی سے اونچی ہوتی جارہی ہے۔
اسی دوران امریکی سفارت کارنے نور مقدم کے قاتل اور پھانسی چڑھائے جانے والے ملزم سے ملاقات جیل میں کی ہے۔خود امریکیوں کا کہنا ہے کہ ہمارے آئین میں اپنے امریکیوں کے حالات سے خاص کر جو مصیبت میں گرفتار ہوں ان کا حال ہر چار ماہ بعد پوچھنا لازمی ہے۔ چونکہ نور مقدم کے قاتل کے والدین بھی سونے میں کھیلتے ہیں۔ کہیں وہ ریمنڈ ڈیوس والا واقعہ پھر نہ ہوجائے۔ ہر چند نور مقدم کے والدین سنجیدہ اور پڑھے لکھے خاندان سے ہیں۔ ہماری مذہبی تقاریب کے زمانے ہی میں ہندوؤں نے ہولی منائی، سربراہوں نے مبارکباد دی۔ اب بیساکھی منانے کیلئے ہماری سکھ برادری کے جتھے پاکستان آرہے ہیں۔ یہ حوالے اس لیے کہ ہماری اپنی تہذیب میں2005ء تک ایسی بسنت منائی جاتی رہی ہے کہ معاشی اور معاشرتی طور پر پر ہم لوگوں میں ہنسنے، میزبانی کرنے کی ہڑک جاگ اٹھی تھی۔ ہر گھر اور ہر چھت پر بو کاٹا اور بھنگڑا ہوتا تھا، جب کسی کی پتنگ کاٹ دی جاتی تھی۔پتنگ کی ڈور کوٹ لکھپت اور شہر کے کنارے باغوں اور میدانوں میں تیار کی جاتی تھی۔
ہر چند اس میں بھی پسا ہوا شیشہ شامل ہوتا کہ کسی کسی دن میرے بچے بھی مجھے ہاتھ دکھاتے کہ کئی جگہ ’چیرا ‘لگ گیا ہے۔ اب ڈاکوؤں کی طرح ہمیں ڈور بنانے والوں کا علم ہی نہیں۔ اتنی ساری ایجنسیاں کیا کام کرتی ہیں کہ بسنت کے تہوار نے ساری دنیا کے ممالک کو اپنی جانب کھینچ لیا تھا۔ ہر ملک کے کیلنڈر پر نشان لگے ہوتے تھے اور ہماری معیشت اور تہذیب کو چار چاند لگ جاتے تھے۔ بی بی مریم تم اور تمہارے بچے بھی اس زمانے میں خوب پتنگ اڑاتے ہوں گے۔ آج ہم سیاپا کرتے ہیں کہ فلاں کی گردن کٹ گئی۔ فلاں زخمی ہوگیا۔ پہلے تو پتنگ لوٹتے ہوئے بچے کبھی چھت سے گر کر اور کبھی سڑک پر دوڑتے ہوئے زخمی ہوجاتے تھے۔ اس زمانے میں بسنت صرف لاہور میں نہیں، ملک کے کونے کونےمیں بسنتی کپڑے اور اڑتی پتنگ کیساتھ دوپٹے اور بھی خوب صورت لگتے، جب لالٹینوں اور چراغوں کے ساتھ رات کو پتنگ بازی ہوتی تھی تو کیا خوب صورت منظر ہوتا تھا۔
ایرانی اور افغانی تو بہار کی آمد پر نو روز مناتے ہیں۔ ہم صرف ایک کام شدومد کے ساتھ کرتے ہیں کہ شادیوں پر ڈھولکی، جس میں لڑکے لڑکیاں اور بزرگ بھی جذباتی ہوکر لڈی ڈالنے کو ہنستی گاتی شام بناتے ہیں۔ نوجوان انڈیا کے گانے سن کر الٹا سیدھا ڈانس کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں وہ قبول ہے۔ البتہ باقاعدہ ڈانس، میوزک اور دیگر فنون لطیفہ منظور نہیں۔ روشن آرا بیگم اور بیگم اختر کے علاوہ تمام مرد اور خواتین نے بچپن سے سیکھا تھا۔ ناہید صدیقی کو مہاراج تین تین گھنٹے پریکٹس کرواتے تھے۔ تب دنیا نے جرنیلوں کو نہیں فنکاروں کو پاکستان کی شناخت سمجھا تھا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ