نوشکی سانحہ اور ہمارا دہرا معیار : تحریر انصار عباسی


بلوچستان کی کوئٹہ نوشکی ہائی وے پر ایک بس کو رکاوٹیں کھڑی کر کے روکا جاتا ہے۔ بس میں اسلحہ بردار نقاب پوش داخل ہوتے ہیں۔ بس میں سوار تمام افراد کا شناختی کارڈ چیک کرتے ہیں اور نو ایسے مسافروں کو جن کے شناختی کارڈ پر پنجاب کے ایڈریس درج ہوتے ہیں اُنہیں گن پوائنٹ پر بس سے اتارلیاجاتا ہے اورباقی مسافروں کو بس سمیت آگے جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس واقعہ کے بارے میں معلومات دی جاتی ہے تو وہ مغویوں کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن بعد میں کسی ذرائع سے اُنہیں اطلاع دی جاتی ہے کہ نوشکی کے علاقہ میں ایک پل کے نیچے گولیوں سے چھلنی نو افراد کی لاشیں موجود ہیں۔ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے وہاں پہنچتے ہیں تو بس سے اغوا کیے گئے نو افراد کی لاشیں اُنہیں وہاں ملتی ہیں۔ قتل کیے گئے افرادمیں اکثریت نوجوانوں کی تھی جن کی عمریں بیس پچیس سال کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ ان نو افراد کا تعلق پنجاب کے علاقوں وزیر آباد، گجرانوالہ اور منڈی بہاؤالدین سے تھا۔ان سب افراد کا قصور صرف یہ تھا کہ اُن کا تعلق پنجاب سے تھا۔بلوچ دہشتگرد تنظیم بی ایل اے نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کی۔ بلوچستان کی شاہراہوں پر رونما ہونے والایہ واقعہ کوئی پہلا نہیں۔ ایسے کئی واقعات ماضی میں ہو چکے اور اب تک پنجاب کی شناخت کی بنیاد پر سینکڑوں مسافروں کو بلوچ دہشتگرد تنظیم بسوں اور کوچوں سے اتار اتار کر قتل کر چکی۔ قتل ہونے والے افراد کی بڑی تعداد اُن غریب محنت کشوں اورمزدوروں کی ہے جو بلوچستان میں محنت مزدوری کے لیے جاتے ہیں۔دکھ اس بات کاہے کہ ایسے معصوم افراد کے قتل اور اس ظلم پر اُس انداز میں آواز نہیں اُٹھائی جاتی جس کی ایسے مظالم اور دہشتگردی کو روکنے کے لیے ضرورت ہے۔ میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کی تنظیمیں اگرچہ بلوچستان میں گمشدہ افراد کے مسئلہ پر بہت بات کرتی ہیں، اس پر دھرنے، لانگ مارچ اور مظاہرے بھی کیے جاتے ہیںجس پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن بلوچستان میں بسوں سے اتار اتار کر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کی بہیمانہ قتل و غارت پر کیوں ایسے ہی بات نہیں کی جاتی۔ بلوچستان میں گمشدہ افراد کو بلوچ دہشتگرد تنظیموں سے جوڑا جاتا ہے اور یہی وہ تنظیمیں ہیں جو پنجاب سے تعلق رکھنے والے معصوم افراد کو بسوں سے اتار اتار کر قتل کرتی ہیں۔ گمشدہ افراد کے معاملہ پر یہ بات کی جاتی ہے کہ ریاست کو حق نہیں کہ وہ کسی کو گمشدہ کرے ۔ یہ مطالبہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر کسی بلوچ کے خلاف دہشت گردی کے حوالے سے یا بی ایل اے جیسی دہشتگرد تنظیم سے تعلق کا کوئی ثبوت موجود ہے تو اُس سے قانون کے مطابق ڈیل کیا جانا چاہیے جو درست مطالبہ ہے۔ لیکن جب بی ایل اے اور دوسری بلوچ دہشتگرد تنظیمیں بلوچستان میں معصوم افراد کو محض پنجاب سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر بے دردی سے قتل کرتی ہیں تو اس ظلم پر کیوں کوئی دھرنا نہیں ہوتا ہے ،نہ کوئی احتجاج۔ جس طرح گمشدہ افراد کا معاملہ میڈیا اور سیاست کی توجہ کا مرکز ہے اُسی انداز میں بلوچستان میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والوں کے حق میں بات ہونی چاہیے۔ اس بارے میں سابق نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اپنی حکومت کے دوران درست انداز میں سوال اُٹھاتے رہے اور اُن ڈبل اسٹینڈرڈزیعنی دہرے معیارکا ذکر کرتے رہے جن کا ہمارا میڈیا، سیاستدان، انسانی حقوق کے علمبردار عمومی طور پر اظہار کرتے ہیں۔ بلوچستان کی محرومیوں اور وہاں کے رہنے والوں کے مسائل کو حل کرنا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔ یہ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ قانون کے مطابق کسی بھی غیر قانونی عمل یا دہشتگردی میں شریک افراد سے نمٹاجائے لیکن سوال یہ بھی پوچھا جانا چاہیے کہ حقوق کے نام پر کتنے بے قصور ڈاکٹروں، پروفیسروں، اساتذہ، کاروباری افراد، محنت کشوں کو محض اُن کی کسی مخصوص علاقہ سے شناخت کی بنیاد پر قتل کیا گیا۔ یہ ظلم رکنا چاہیے اور اس ظلم کو ظلم کہتے ہوئے کسی کو ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کرنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ