محاورہ تو یہ ہےکہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے مگر صدیوں کے انسانی شعور نے طے کیا ہے کہ جنگ کے بھی اصول ہوتے ہیں،اس کی حدود وقیود بھی متعین ہیں، اسی طرح محبت کے بھی پیمانے ہیں جن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ یار لوگوں نے اس محاورے کا فائدہ اٹھا کر کہنا شروع کردیا ہے کہ جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہے، اس محاورے کا غلط استعمال ہی دنیا بھر میں جنگوں کا موجب بن رہا ہے اور ہماری سیاست میں اسی کی وجہ سے نفرت اور تقسیم میں اضافہ ہوا ہے۔ آج ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ کا آغاز ہو چکا ہے ہم جغرافیائی طور پر ایران کے ہمسائے ہیں اور ہم میں بہت سے مشترکات بھی ہیں ،اس لئے یہ جنگ ہمیں ضرور متاثر کرے گی۔ پاکستان ایک راہداری کے طور پر استعمال ہوتا تو ہم اپنے جغرافیے کا فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر پہلے بھارت سے ہماری جنگیں، افغانستان میں دو عالمی جنگیں اور اب ایران اسرائیل جنگ سے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جغرافیہ ہمارا گلا گھونٹ رہا ہے، آگ کے شعلوں کے درمیان زندہ رہنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ اسرائیل ایران جنگ کی شکل میں ہمیں اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا بھی ہوگا اور بہت سے خطرات بھی درپیش ہوں گے ،ہم مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں فریق ہونے کے باوجود عملی شرکت سے بچتے رہے ہیں، توقع یہی کرنی چاہیے کہ ہم اپنی پرانی پالیسی پر ہی گامزن رہیں گے۔
جنگ کے چھائے بادلوں میں ہمیں تقسیم زدہ ملک کو متحد بنانے کی طرف توجہ دینا ہوگی وگرنہ معاشی استحکام کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ 8 فروری کے انتخابات کا جو بھی نتیجہ نکلا ایک بات ضرور طے ہوگئی کہ سیاست کو جیلوں، گرفتاریوں، عدالتی سزاؤں اور انتظامی ہتھکنڈوں سے شکست نہیں دی جاسکتی، سیاست کو صرف اور صرف سیاست سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔ سیاست کو سیاست کے ذریعے ڈیل کرنے کےفارمولے کے تحت مثبت تبدیلیوں کی توقع کی جاسکتی ہے ۔الیکشن میں دھاندلی کی شکایات کے حوالے سے پارلیمانی یا عدالتی کمیشن پراتفاق رائے کی طرف بات بڑھ سکتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ ان اقدامات میں کتنا وقت لگے گا؟
دوسری طرف شہباز حکومت، سیاست کی طرف بالکل توجہ نہیں دے رہی جو وفاقی کابینہ تشکیل دی گئی ہے وہ سیاسی کی بجائے ٹیکنو کریٹ ہے، ملک کو معاملہ سیاسی درپیش ہے اور کابینہ میں اکثریت براہ راست منتخب نہ ہونے والوں کی ہے، اس پر کف افسوس ہی ملا جاسکتا ہے، کابینہ میں ایک وزیراعظم کے بھائی کا سمدھی ، ایک ماموں اور اس کی بھانجی، دو سگے کزن اور دو ہم زلف شامل ہیں۔ منتخب قومی اسمبلی سے لئے جانے والوں میں صرف خواجہ آصف، اویس لغاری، ریاض پیرزادہ اور رانا تنویر حسین شامل ہیں باقی سب ٹیکنوکریٹ ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ وفاقی کابینہ ابھی تک کوئی بڑا سیاسی فیصلہ نہیں کرسکی، یوں لگ رہا ہے کہ حکومت کسی موقعےکے انتظار میں ہے جب وہ اپنے بندھے ہاتھ کھولے گی۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ شہباز شریف صاحب نے پچھلے 16ماہ کی حکومت میں ایک بھی جلسہ، ایک بھی سیاسی میٹنگ نہیں کی تھی، اب بھی ان کی سیاست سے لاتعلقی کا یہی عمل جاری رہا تو حکومتی اتحاد بالخصوص ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچے گا،شہباز شریف کے حامی یہ کہتے ہیں کہ فی الحال ان کی توجہ بگڑے معاشی اور انتظامی معاملات کی طرف ہے ان سے نکلیں گے تو سیاست کی طرف توجہ دے سکیں گے مگر انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہنی مون پیریڈ میں ہی حکومت کی سمت طے ہو جاتی ہے، معیشت کے ساتھ ساتھ سیاست پربھی توجہ دیں، ان کے ذہن میں ہر وقت یہ رہنا چاہیے کہ آج اگر وہ وزیراعظم ہیں تو اس کی وجہ سیاست ہے اگر سیاست نہ کی تو پھر کہیں کے بھی نہ رہیں گے۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی ملاقات اور بعد ازاں کور کمانڈر ہاؤس میں صوبائی کابینہ کی افطاری ایسے واقعات ہیں جن سے مستقبل کی سیاست میں بہتری آ سکتی ہے، میرے خیال میں مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور مصالحت کے دلدادہ آصف زرداری کو پہل کرنی چاہیے اور ایسا فارمولا پیش کرنا چاہیے جس سے سیاست میں اعتدال آئے اور ملک میں جمہوریت پھل پھول سکے۔ عمران خان کوبھی سیاسی جماعتوں سے بات نہ کرنے کا رویہ بدلنا چاہیے اگر انہیں خیبر پختونخوا میں اکثریت ملی ہے تو اسی طرح پیپلز پارٹی کو سندھ میں اکثریت ملی ہے۔ پیپلز پارٹی سے مذاکرات سے انکار سراسر غیر سیاسی رویہ ہے، اسی طرح مقتدرہ سے لڑ کر اقتدار لینا محال ہے۔ آج تک مقتدرہ سے جس نے بھی اقتدار لیا ہے مذاکرات اور مصالحت سے ہی لیا ہے۔ میں عرصہ دراز سے عرض کر رہا ہوں کہ تضادستان میں آئیڈیل جمہوریت نہیں ہے کہ صرف مقبولیت سے اقتدار مل جائے ہمارے ملک میں ہائبرڈ ماڈل ہے جس میں مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے۔
پاکستان کے سارے سٹیک ہولڈرز، چاہے وہ جرنیل ہوں یا سیاستدان، ٹیکنوکریٹ ہوں یا عام پروفیشنلز، کو علم ہونا چاہیے کہ آج کل کے زمانے میں ملک ختم نہیں ہوتےوہاں کی معیشت انہیں ڈبو دیتی ہے، افریقی ممالک میں حکومتیں قائم دائم ہیں جغرافیائی سرحدیں بھی مضبوط ہیں مگر معیشت اس قدر خراب ہے کہ ان ملکوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہمارے ہاں یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کئی برسوں سے ایک ہی سطح پر منجمد ہے تین چار سال تک سرکاری یونیورسٹیاںبند ہونے کی طرف چل پڑیں گی، پنشن کا بل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا علاج نہ کیا گیا تو سرکاری ملازموں کو ماہانہ تنخواہ دینا مشکل ہو جائے گا۔ سرمایہ کار اور ان کے بچے ملک چھوڑ رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کی صورت حال میں نئے الیکشن کے بعد ہر روز پارلیمان، ایس آئی ایف سی اور وفاقی کابینہ کے ہنگامی اجلاس ہوتے، ملک کے تمام بگڑے ہوئے معاملات پر قانون سازی کی جاتی، دن رات فیصلے کئے جاتے اور ایسا لگتا کہ جنگی بنیادوں پر ملک کی تعمیر و ترقی کاسفر شروع ہو چکا ہے، ابھی تک یہ تاثر پیدا نہیں ہو سکا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری آنا شروع ہوگئی ہے، معیشت کے کچھ مثبت اشارے ضرور آ رہے ہیں مگر یہ ناکافی ہیں ہمیں انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جو بقول شہباز شریف ’’شبانہ‘‘ روز محنت کے بغیر ممکن نہیں۔
شہباز شریف حکومت کاہنی مون پیریڈ جاری ہے وہ تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر ہیں مقتدرہ کے ساتھ کام کرنے کی صلاحیت کے حامل ہیں لیکن ابھی تک ان کی تقریروں اور لب و لہجہ تک سے ان کے اہداف اور مستقبل کی امید تواتر سے سننے میں نہیں آ رہی، امید ہی ملکوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے، اشرافیہ کو امید کی کرن جگانے کیلئے زور لگانا چاہیے، امید تبھی پیدا ہوگی جب سیاسی جنگ میں سب کچھ جائز نہیں سمجھا جائے گا، قانون اور دستور کو واحد معیار بنایا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ