آج کےمسلمان یہ کہتےپھرتے ہیں کےحماس نےاسرئیل پر حملہ کر کے غلط کیا کیونکہ حماس کے پاس اتنی طاقت اور اصلحہ نہیں کہ وہ اسرائیل کا مقابلا کر سکتےاورہم آم انسان ہیں ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں، ہم اتنے مجبو ہیں کہ فلسطین کیلیے کچھ نہیں کرسکتے۔
”کرتےہیں غلاموں کو غلامی پے رضامند،
تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ“
جب یہود مسجد اقصہ کو شہید کر کے اپنا تھرڈ تمپل بنانے کی تیاریوں میں مصروف ہوچکےہیں تو ایسے میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا- ایسے میں صلالدین ایوبی کا ایک قول یاد آتا ہے کہ ”جب جنگ لازم ہو تو لشکر نہیں دیکھے جاتے۔
”ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا“
ان مسلمانوں کیلیے کچھ قیمتی مثالیں زیرغور ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جب ارادہ پختہ ہو، سچی لگن، محنت، اور اللهﷻ پر ایماں کامل ہو تو کچھ بھی نا ممکن نہیں ہوتا۔
١۔حضرت محمد ﷺ تن تنہا نکل پڑتے ہیں اللهﷻ کے دین کا پیغام لیکر اور لوگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ آخرت کا سودہ کرو اور اللهﷻ کے دین میں شامل ہو جاؤ۔ کیا یہ نا ممکن نہ تھا کہ دو جہانوں کہ سردار کا دشمن کے پاس چل کر جانا اورعیاشی میں گِھری ہوئی قوم کو یہ دعوت دینا کہ شراب، زناء اور دنیا کی تمام لذتیں چھوڑکر میرےقافلے کا حصہ بن جاؤ۔ حضورؐ نے وہ کام کر دکھایا جو ہر کسی کی نظر میں نا ممکن تھا اور ہمیں یہ پیغام دیا کہ محنت سے کچھ بھی نا ممکن نہیں۔
٢۔کیا یہ ناممکن نہ تھا کہ حضرت عمرؓ پورے شہر کے سامنے تلوار لہرا کر کہتے ہیں کہ ہم نماز بیت اللہ کے سامنے ادا کریں گے۔ کیا پورا شہر مل کر حضرت عمرؓ عنہ کو روک نہیں سکتا تھا؟ مگر انہوں نے کر دکھایااور صرف دو صفوں میں ٹھہرے ہوئے گنتی کےمسلمانوں نے ہزاروں کفار کے درمیان نماز پڑھی۔
”آج بھی ہو جو ابراہیم علیہ السلام کا ایماں پیدا،
آگ کر سکتی ہے اندازِ گُلستاں پیدا“
٣۔کیا رمضان میں 313 صحابہ کا ضروری جنگی ساز و سامان کی کمی کے باوجود بدر کے مقام پر 700 اونٹوں اور 100 گھوڑوں پر سوار ہزار کفار کا مقابلہ کرنا ناممکن نہ تھا مگر پھر بھی صحابہ کرامؓ اللہ اور اس کے رسول پر یقین رکھتے ہوئے میدان میں اتر پڑے۔
”تھے تو وہ آبا تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے مُنتظر فردا ہو“
٤۔کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا عمر بن حدود جیسے دیو ہیکل انسان کو قتل کرنے کے لیے میدان میں اترنا ناممکن نہ تھا مگر پختہ ایمان ہونے کی وجہ سے انہوں نے کر دکھایا۔
تاریخ میں ایسے واقعات کی ایک بہت لمبی فہرست ہے، ہمارے بزرگوں نے وہ کر دکھایا جو شاید ہماری سوچ میں ناممکن ہے مگر اللہ کی قدرت ہمیں بار بار یہ سکھاتی اور سمجھاتی ہے کہ اگر کوئی بھی کام سچی لگن اور محنت سے کیا جائے تو اس کا صلہ ملتا ہے۔
فرض کریں امت مسلمہ میں صرف پاکستان کی 22 کروڑ عوام، ہرر گھر سے ہر شخص کے نام پر 100 روپے فلسطین کےلیے ادا کریں تو یہ 22 ارب بنتا ہے اورامت مسلمہ کے اس ایک ملک سے اکٹھی کی گئی رقم سے فلسطین کی بے پناہ مدد کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح ہم اپنے دائرہ کار میں رہ کر اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ اور سوشل میڈیا پر اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں پوسٹس شیئر کر کے فلسطین کی جنگ کا حصہ بن سکتے ہیں۔ صرف ضرورت ہے تو پختہ ارادہ کی۔
آپ کے حکمراں اور آس پاس کے لوگ کچھ کر رہے ہیں یا نہیں آپ اس بات کی فکر کیے بغیر اقبال کے اس شعر پر عمل کریں۔
”اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں،
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ“۔