آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں،بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پربیٹھنے اور ماضی حال مستقبل پر باتیں کرنے کا دن۔ حالات جو رُخ اختیار کررہے ہیں۔ نوجوانوں میں ملک چھوڑنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ اس لیے بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان مکالمہ ناگزیر ہوگیا ہے۔ پاکستان 60 فی صد نوجوان آبادی والا ملک ہے۔ امور مملکت اب بھی نوجوانوں کو سنبھالنے ہیں۔ مستقبل قریب میں بھی اس لیے ان دونوں نسلوں کے درمیان مسلسل رابطہ میں ملکی مفاد میں ہے۔ ملکی معیشت، شرح نمو،مہنگائی ، بے روزگاری، افراطِ زر جس سطح پر پہنچے ہوئے ہیں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک جو تجزیاتی رپورٹیں دے رہے ہیں۔ اس سے نوجوان متاثر ہورہے ہیں اور وہ اپنا مستقبل اپنے وطن میں اس لیے محفوظ نہیں سمجھ رہے کہ یہاں وہ کسی متعلقہ ادارے کو ان انتہائی سنگین معاملات پر بھی سنجیدگی سے متوجہ نہیں پاتے۔ حکمرانوں کی طرف سے، قومی سیاسی جماعتوں کی جانب سے، اپوزیشن سے، یونیورسٹیوں، تحقیقی اداروں ، علمائے دین، مذہبی مدارس، رفاہی اداروں کہیں سے بھی 25کروڑ جیتے جاگتے انسانوں کو نہیں بتایا جارہا کہ انہیں دن کیسے گزارنے چاہئیں۔ شرح نمو مطلوبہ عدد تک پہنچانے کیلئے کس طبقے کو کیا کرنا چاہئے۔ حکمران صوبائی ہوں یا وفاقی یا ضلعی۔ کہیں بھی سادگی اور کفایت شعاری نظر نہیں آئی۔ رمضان المبارک میں بھی وہی اللے تللے رہے۔ پولیس کے ذریعے عیدی اکٹھے کرنے کی مہم ملک بھر میں اسی انداز سے چلائی گئی ۔ کیونکہ اوپر منتخب اور غیر منتخب تک کے منہ کھلے ہوئے تھے۔ آپ اندازہ کرلیں اگر ایک چپراسی سے لے کر ملکی سربراہوں تک نے عید آپ کے پیسے سے ہی منانی ہے تو ہر ناکے پر،ہر تھانے میں، ہر دفتر میں عیدی اینٹھنے کی شرح کیا رہی ہوگی۔
آپ بھی آنکھیں رکھتے ہیں، کان کھڑے رہتے ہیں، کتنی کہانیاں سن رہے ہوں گے۔ فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ، یو ٹیوب اور بہت سے طلسم کدے جو اسمارٹ فون کی جادو کی ڈبیا میں موجزن ہیں۔ وہ آپ کو منٹ منٹ بلکہ سیکنڈ سیکنڈ تک کی رفتار عالم۔ تصویروں اور وڈیوز کے ساتھ دکھارہے ہیں۔ اب پہلے کی طرح مجھ جیسے ’’اخباری بوڑھے‘‘ یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ میں اپنے قارئین سے زیادہ جانتا ہوں بلکہ اب آپ زیادہ باخبر ہیں۔ اسمارٹ فون پر آنے والی اذیت ناک خبریں اور تصویریں ایک دوسرے کو دکھائی جاتی ہیں۔ اس میں سبقت ظاہر کی جاتی ہے کہ میرے پاس یہ اطلاع اور وڈیو پہلے آگئی۔ ہم نے اپنے آپ کو مختلف سمتوں میں بانٹ لیا ہے۔ جیالے ، یوتھیے، پٹواری۔ ہم اس میں خوش ہوجاتے ہیں کہ اس وڈیو لیک سے فلاں کی قلعی کھل گئی ہے۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ایسا جو کچھ ہورہا ہے ،نہیں ہونا چاہئے۔ جو ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہوتا کیونکہ وہاں ایک سسٹم ہے۔ ہم یہ سب دیکھ کر پریشان کیوں نہیں ہوتے کہ ایسی انہونیاں ہماری مملکت کو مزید زخمی کررہی ہیں۔ ہم پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ ایسی حیران کن پیش قدمی چاہے عدلیہ سے ہو، کسی سیکورٹی ادارے سے ہو، مسندوں پر بٹھائے گئے حکمرانوں سے ہو۔ یہ ملک کو مزید پیچھے لے جاتی ہے۔ یہ پسپائی کسی ایک کیلئے نہیں پوری مملکت کو پیچھے لے جاتی ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے موجود دس کروڑ سے زیادہ پاکستانیوں میں مزید کئی لاکھ کا اضافہ کردیتی ہے۔ کیا عید کے دن آپ نے غور کیا کہ ان مسلمہ غریبوں ناداروں نے عید کیسے منائی ہوگی۔ کیا زکوٰۃ صحیح مستحقین کو ملی ہوگی۔ ایک طرف تو ریاست بینکوں کے کھاتوں سے زکوٰۃ کاٹ رہی ہے۔ پھر بتاتی نہیں کہ یہ کئی ارب کی زکوٰۃ کس مستحق کو دی گئی۔ زکوٰۃ مستحق فرد کیلئے ہوتی ہے۔ اداروں کیلئے نہیں۔ ایک طرف ریاست اربوں روپے کی زکوٰۃ وصول کرکے کہیں نہ کہیں خرچ کررہی ہے۔ دوسری طرف بڑے بڑے رفاہی ادارے بھی اربوں روپے کے عطیات اور زکوٰۃ وصول کرکے تعلیم صحت، راشن، روزگارکیلئے مستحقین کو دے رہے ہیں۔ اس کے باوجود غربت کی لکیر سے نیچے پاکستانیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ اربوں روپے کی زکوٰۃ کی وصولی اور تقسیم سے کچھ لاکھ پاکستانی تو غربت کی لکیر کے نیچے سے واپس اوپر آنے چاہئیں۔ کسی سرکاری یا رفاہی ادارے کو تو یہ تجزیہ کرنا چاہئے ۔ قومی اسمبلی یاسینیٹ کے کسی معزز رکن کو تو ایوان میں یہ سوال کرنا چاہئے۔ جو سرکاری وفاقی یا صوبائی محکمے زکوٰۃ اور عشر کا دائرہ اختیار رکھتے ہیں۔ ان کو چاہئے کہ شوال، ذیقعد کے مہینوں میں صحیح اعداد و شُمار قوم کے سامنے لائیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکوں سے کاٹی جانے والی زکوٰۃ کا حساب جاری کرے۔ یہ زکوٰۃ کس محکمے کے پاس جاتی ہے۔ کن مستحقین کی زندگی اس سے بدلتی ہے۔
ہمارے ہاں سسٹم بہتر ہونے کی بجائے مزید کمزور ہورہا ہے۔ بہت سے معمولات بغیر وجہ بتائے ختم کیے جارہے ہیں۔ پہلے ہر حادثے، واقعے، مظاہرے کے بعد سرکار کی طرف سے پریس نوٹ جاری کیا جاتا تھا۔ جس میں وہ سرکاری نقطۂ نظر سے اعداد و شُمار قطعیت کے ساتھ بتاتے تھے۔ وزراء، بیورو کریٹ اس پریس نوٹ کو اپنا موقف قرار دیتے تھے۔ الگ الگ بیان دینے سے گریز کرتے تھے۔ اب شہروں میں بڑے بڑے ہنگامے ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لہر در لہر چلتے ہیں۔ لیکن اس شہر یا ضلع کے حکام کی طرف سے کوئی ذمہ دارانہ بیان نہیں آتا۔ کئی دن تک جب وہ معاملہ بہت زیادہ نہیں بگڑ جاتا اور پاکستانیوں کے ذہن کو بری طرح متزلزل نہیں کردیتا۔ اسکے بعد کوئی ایک وزیر یا مشیر آکر اس کی تردید کرتا ہے۔ جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ بہاولنگر پولیس اسٹیشن میں ہونے والے واقعات بھی انہونی ہیں۔ معمول کی کارروائی نہیں ہیں۔ اس پر بھی حکومت پنجاب یا آئی ایس پی آر کی طرف سے کوئی جامع اور واضح رپورٹ نہیں دی گئی۔
وردی ایک ریاست کی نمائندگی ہوتی ہے۔ امریکی فلمیں بار بار دکھاتی ہیں کہ وردی میں پولیس والا کسی بڑے سے بڑے کو بھی پکڑے تو وہ مزاحمت نہیں کرتا۔ ملٹری وردی تو اور زیادہ دبدبہ رکھتی ہے دیگر وردیاں بھی جہاں قانونی طور پر پہنی جاتی ہیں تو وہ ہر شہری سے یہ توقع کرتی ہیں کہ وہ اس وردی کا احترام کرے اور امور مملکت چلانے میں تعاون کرے۔ ہم سب وردی والوں اور بغیر وردی والوں کو انتہائی درد مندی سے غور کرنا چاہئے کہ اب وردی کا وہ احترام کیوں نہیں رہا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ