رحمن اینڈ رحمن: دھوپ کا ٹکڑا اور بادل کی چھاؤں … تحریر : وجاہت مسعود


شہر تو سب پیارے ہوتے ہیں، زمین کو آسمان سے ملاتی ہوئی لکیر پر اونچی نیچی مانوس عمارتیں، کہیں برسوں سے خاموش کھڑے پیڑ جن کے نیچے کسی تیز رفتار فلم کے منظر کی طرح بے نیازی سے گزرتے چہرے۔ کہیں ٹھنڈے پانی کے شفاف دھارے، کہیں وسیع شاہراہیں، کہیں بل کھاتی گلیاں، آوازوں سے گونجتے گلیارے، بازاروں میں لین دین کی فکر میں غرق دکاندار۔ مٹی سے پیالے صراحیاں، لکڑی سے سامان راحت اور لوہے سے کارآمد اوزار تراشتے اہل حرفہ، چھوٹی چھوٹی اینٹوں والے رازدار مکان، کھلکھلاتے معصوم بچے اور دروازوں کے پار خواب اور کاہش کے درمیان ادھ کھلی آنکھیں۔ مگر شہر کیا خشت و سنگ کے ان ٹکڑوں ہی سے ترتیب پاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہر شہر ان چند صاحبان دانش، شہرت سے بے نیاز، فکر فردا میں محو، مشق ہنر سے تراشیدہ، خاک نشین کے دکھوں کا بار اٹھانے والے، خواب فردا کی صورت گری کرنے والے اور آمدہ خوشیوں کے خد و خال کی فکر کرنے والے زمین کے ان بیٹے بیٹیوں سے پہچان پاتے ہیں جن کی مہلت عمر سانس کے تاوان کی ادائی میں گزر جاتی ہے۔ دوہزار برس پہلے اہل زمین کے لئے جان دینے والے مرد مجرد نے پہاڑی کے وعظ میں ان گہر و جواہر کو زمین کے نمک سے تعبیر کیا تھا اس کے لئے شرط یہ رکھی تھی کہ اس مقام ارفع پر پہنچنے کے لئے اہل اختیار سے کنی کاٹ کے گزرنا ہو گا نیز ہجوم کم شعور کا دشنام سہنا ہو گا۔

آج 12 اپریل ہے۔ تین برس پہلے 2021 میں آج کے دن آئی اے رحمن ہم سے رخصت ہو گئے تھے۔ اور ٹھیک نوے برس پہلے آج ہی کے دن محمد سلیم الرحمن نے سہارن پور کے قصبے میں آنکھ کھولی تھی۔ سو آج کچھ ذکر آئی اے رحمن کا ہو گا اور عقیدت کے کچھ پھول محمد سلیم الرحمن کے قدموں پر دان کیے جائیں گے۔ آئی اے رحمن کا کیا پوچھتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں بڑے بڑے سوجھوان گزرے ہیں لیکن علم، سیاسی شعور، معاملہ فہمی، توازن فکر، استقامت عمل، فکری دیانت اور خود نمائی سے گریز کرتے ہوئے ریاستی بیانیے سے مدلل اختلاف کا ایسا نمونہ کم از کم ہم نے نہیں دیکھا۔ آئی اے رحمن بیک وقت دانشور، صحافی، تنظیمی مہارت اور عوامی رہنما ہوتے ہوئے بلند آہنگ ہوئے بغیر احتیاط سے تراشی ہوئی دلیل کی مدد سے میدان جیت لیا کرتے تھے۔ پیرانہ سالی میں ان کی قابل رشک جسمانی توانائی کا سرچشمہ ان کا کمزوروں، عورتوں، اقلیتوں، محنت کشوں کے لئے فراواں جذبہ تھا۔ بظاہر ان کی وارفتہ طبع سے اس آگ کا اندازہ کرنا مشکل تھا جو ان کے دل میں فروزاں تھی۔ پاکستان میں جمہوریت، آزادی اظہار، امن اور انسانی حقوق کا بیانیہ مرتب کرنے میں آئی اے رحمن کو صف اول کا مجاہد کہنا ان کے مقام سے فروتر ہو گا۔ وہ قافلہ درد کے سالار تھے اور تلقین کی بجائے اپنے عمل سے پیش قدمی کا درس دیتے تھے۔ 11 فروری 2018 کو عاصمہ جہانگیر کی اچانک رحلت ہمارے دیس میں انسانی حقوق کا ناقابل تلافی نقصان تھا مگر تین برس بعد آئی اے رحمن کے رخصت ہونے سے اس ملک میں متبادل آوازوں کا رزق اٹھ گیا۔ معروف کینیڈین مصنف Malcolm Gladwell نے کہیں لکھا ہے کہ معاشرہ اس شہری کو بھلا مانس قرار دیتا ہے جو اقتدار، انصاف اور اختیار کے سرچشموں پر تنقید سے گریز کرے۔ اس اجتماعی دبائو کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ انحرافی آواز کے جائز احتجاج کو کند کر دیا جائے۔ آئی اے رحمن کا کمال یہ تھا کہ وہ شرافت نفسی کے اعلی ترین درجے پر فائز ہوتے ہوئے بھی اپنے جائز غصے اور حق انحراف سے کبھی دستبردار نہیں ہوئے۔

محمد سلیم الرحمن 12 اپریل 1934 کو سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ میں تعلیم پائی لیکن کسی رسمی سند کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ کبھی باقاعدہ ملازمت بھی اختیار نہیں کی۔ ازدواج کا جھنجھٹ بھی نہیں پالا۔ 1952 میں پاکستان آنے کے بعد خود کو علم و ادب کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ہومر کی Iliad کو جہاں گرد کی واپسی کے عنوان سے ترجمہ کیا تھا۔ 1956 میں شائع ہونے والی اس کتاب نے اردو میں ترجمے کے فن کو نئی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ جدید اردو شاعری میں نئی حسیت کی تشکیل میں محمد سلیم الرحمن کا بڑا حصہ ہے۔ عالمی ادب کے درجن بھر سے زیادہ شاہکار ترجمہ کر چکے ہیں۔ ان کے اپنے افسانوں کی تعداد درجن بھر سے زیادہ نہیں لیکن انہوں نے نعرے کی بجائے عصر حاضر میں انسان کے مقدر کو اپنے شعور کی گہرائیوں میں جذب کر کے اردو فکشن کو Dystopia کا موضوع بخشا ہے۔ برسوں انگریزی اخبارات میں ادبی تنقید لکھی۔ اردو کے معتبر ترین جریدے سویرا کے نصف صدی سے مدیر چلے آرہے ہیں۔ ڈرامہ بھی لکھا۔ محمد سلیم الرحمن کے ڈرامے کی امتیازی پہچان یہ ہے کہ اسے پاکستان ٹیلی ویژن پر نشر نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ڈرامے میں گلے سڑے گارے کی مدد سے کافوری اقدار کی اینٹوں کا ردے پر ردا نہیں جماتے۔ محمد سلیم الرحمن اوسط درجے کے شاعروں اور ادیبوں کی طرح ذہنی تشنج کا شکار نہیں ہوتے۔ انہیں نہ صرف اپنی ذات پر اعتماد ہے، اپنے لکھے پر اعتبار ہے بلکہ وہ وجود کی کائناتی تحدیدات کو سمجھتے ہوئے آنے والے زمانوں پر بھی آنکھ رکھتے ہیں۔ شخصی وضع داری کا نشان محمد سلیم الرحمن حلقہ احباب کے انتخاب میں بے حد محتاط ہیں۔ ادبی گروہ بندیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ ادبی تقریبات میں نظر نہیں آتے۔ پاکستان میں 72 برس لاہور کی ایک نواحی بستی داروغہ والا میں گزار دیے۔ محمد سلیم الرحمن کا اہم ترین کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی ذات کو پس پردہ رکھتے ہوئے سات دہائیوں تک ایک پوری زبان، تہذیب اور تمدن کی آبیاری کی ہے۔ مشرقی اور مغربی علوم پر یکساں عبور رکھتے ہیں۔ اپنی ذات سے ہم آہنگ رہتے ہوئے اپنے عہد کے ابتذال سے دامن بچائے رکھنا محمد سلیم الرحمن کا ایسا کارنامہ ہے جس سے انہیں دنیا کے کونے کونے میں اردو ادب سے تعلق رکھنے والوں کے بے پناہ احترام اور تکریم نصیب ہوئی ہے۔ محمد سلیم الرحمن کو بڑھتی عمروں کی خوشخبری مبارک ہو۔ آج پاکستان میں اسد محمد خان کے استثنا کے ساتھ کون ایسا ہے جس کے بارے میں کہا جا سکے کہ کوئی ایسا بھگت سدائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ