پاکستانی معاشرے کے وجود کو لاحق امراض … تحریر : سلیم صافی


(گزشتہ سے پیوستہ)

مسلک پرستی:اللہ اور رسول کی بات سو فی صد درست ہے لیکن کسی مذہبی لیڈر کے منہ سے نکلی ہوئی بات ٹھیک بھی ہوسکتی ہے اور غلط بھی ہوسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں اپنے مسلکی لیڈر کی بات کو حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔

اخلاقی گراوٹ:نیکی اور بدی کے معاملے میں اخلاقی گراوٹ اپنے عروج پر ہے ۔ہم نے دو کام کرنے تھے لیکن ایک بھی نہیں کیا۔ ایک دین محمدی ۖ اپنانا تھا اور دوسرا اخلاق محمدی ۖ اپنانا تھا۔ ہم نے ایک بھی نہیں اپنایا ۔ دین محمدی کی بجائے ہم نے مسلکی لیڈر کے دین کو اپنایا ہوا ہے اور اخلاق ہم نے گرے ہوئے معاشرے کے لوگوں جیسے اپنا لئے ۔ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر دین بیچ دیتے ہیں ۔ مسجد تک میں ہم حق تلفی کرتے ہیں ۔ ہم کسی میدان میں بھی عدل پر قائم نہیں۔

انتہاپسندی:ہمارے ہاں آدمی یا فرشتہ ہوتا ہے یا شیطان ۔ درمیان میں ہم کہیں کھڑے نہیں ہوتے ۔حالانکہ ہم یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اسے گناہگار مسلمان سمجھیں۔ ہم دو انتہاؤں پر رہتے ہیں ۔ ایک بندہ ایک معاملے میں خراب لیکن دوسرے میں بہتر ہوسکتا ہے ۔

محدود دینی تصور: مغل دور سے قبل نیک بننے کا اعلی معیار تھا۔ اب صرف نماز روزہ زکوۃ کو نیکی کا معیار بنا دیا گیا ہے ۔ یہ رسوم اداکرکے بھی ہم ہر گناہ کرتے ہیں ۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ صرف یہ عبادات کرکے جو بھی گناہ کریں تو ہم جنت میں جائیں گے حالانکہ مسلمان کیلئے ضروری ہے کہ اس کے معاملات بھی دینی تعلیمات کے مطابق ہوں۔

زندگی کے آداب سے دوری: ایک قانون ہوتا ہے اور ایک آداب۔ ہم قانون کو تھوڑی بہت اہمیت دیتے ہیں لیکن آداب کو نہیں۔ مثلا قطار میں جوآدمی پہلے کھڑا ہو ہم نے اسے پہلے موقع دینا ہے ۔ یہ شاید قانون کی خلاف ورزی نہ ہو لیکن آداب کا تقاضا ہے کہ پہلے آنے والے کو پہلے موقع دیا جائے لیکن یہ آداب ہماری زندگی سے مفقود ہوگئے۔ہم قانون میں بھی حیلہ بازی سے کام لیتے ہیں اور آداب کا بھی خیال نہیں رکھتے ۔

اپنی تہذیب کو پسماندگی کی علامت سمجھنا: ہم شلوار قمیص اور دیگرمشرقی چیزوں پر شرمانے لگے ۔ گوروں کی ترقی کی وجہ سے ہم ان کی تہذیب کو بھی برتر سمجھنے لگے ۔ اس رجحان نے ہمارے اندر کے ایک قومی فخر کو ہم سے چھین لیا۔

مفاد پرستی: مفاد پرستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے فائدے کیلئے دوسرے فرد یا ملک کا نقصان کرے ۔ ہم چوبیس گھنٹے اپنے مفاد کا سوچتے ہیں ۔ دوسروں کے فائدے یا قوم کے فائدے کیلئے ہمارے پاس کوئی وقت نہیں۔ہم یہاں تک آگئے کہ اپنے سو روپے کے فائدے کیلئے دوسرے کے کروڑوں کے نقصان پر بھی تیار ہوجاتے ہیں۔

بے حیائی:بے حیائی کا یہ عالم ہے کہ ہمارے ہاں لباس کا سائز کم ہوتا جارہا ہے ۔ فحاشی اور آزادانہ جنسی تعلقات آخری حدود کو چھو رہے ہیں ۔کم لباسی اب بے حیائی کی طرف جارہی ہے ۔ خاندان کانظام کمزور ہورہا ہے اور جنسی اختلاط عام ہورہاہے۔

دوسروں پر انحصار: اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اپنے بل بوتے پر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے۔شہری دوسروں کی طرف سے روزگار فراہم کرنے یا قرضہ دینے کے منتظر ہیں جبکہ حکومت کچھ کرنے کی بجائے قرضے لینے کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے ۔

چورراستے نکالنا: ہم جائز طریقے سے کچھ کرنے کی بجائے اپنے ہر کام کیلئے چورراستے نکال لیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ سرکار کے کاموں سے ٹریفک کے سگنل تک دراز ہے اور ٹریفک سگنل پر بھی ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ پولیس کی آنکھوں سے بچ کر چور راستے سے نکلے ۔ اسی طرح انحطاط اس لیول تک آگیا ہے کہ امام مسجد بھی اپنا کام نکلوانے کیلئے رشوت دینے سے گریز نہیں کرتے۔

شارٹ کٹ:ہمارے لوگ شارٹ کٹ کے مرض کا بھی شکار ہیں ۔ نوجوان راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں ۔ سیاستدان صحیح راستوں کی بجائے شارٹ کٹ راستوں سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں وغیرہ۔ نتیجہ یہ ہے کہ کوئی بھی میدان ہو کوئی لانگ ٹرم منصوبہ شروع نہیں کرنا چاہتا اور ہر کوئی شارٹ کٹ کی تلاش میں ہے ۔

تعلیم کا بخار:اس وقت ہمارے ملک میں جو تعلیم دی جارہی ہے اس کا ہدف یہ ہے کہ ہر بچے نے ایم اے کرنا ہے یا پھر ڈاکٹر و انجینئر بننا ہے ۔حالانکہ سب لوگ پڑھنے کیلئے پیدا نہیں کئے گئے ۔ کچھ لوگ کھلاڑی بننے کیلئے اور کوئی کسی اور فنی کام کیلئے پیدا ہوئے ہیں ۔

توہم پرستی:علمی رویے کے الٹ رویے کو توہم پرستی کہتے ہیں ۔توہم پرست لوگ عقل اور دلیل کو اہمیت نہیں دیتے اور ہمارے ہاں ننانوے فی صد دینی مسالک توہم پرستی پر کھڑے ہیں۔

فقر پر فخر تقوی کا معیار: فقر اور امارت دونوں اللہ کی طرف سے آزمائشیں ہیں۔لیکن ہمارے ہاں کچھ لوگوں نے اسے فیشن کے طور پر اپنا لیا ہے اور کام کاج کی بجائے اپنے فقر پر فخر کررہے ہیں ۔

تبصرہ پسندی: ایک ذہنی امن ہوتا ہے اور ایک جسمانی امن ہوتا ہے ۔ ذہنی امن وہ قومیں اپنے ہاں پیدا نہیں کرسکتیں جو دن رات تبصرے کرتی رہتی ہیں ۔جب قوم کے اندر ذہنی امن نہیں ہوتا تو پھر وہ ڈیپریشن اور ذہنی اشتعال کا شکار ہوجاتی ہے۔اس میں زیادہ کردار میڈیا کا ہے۔ذہنی انتشار کے ساتھ ہم اچھی قوم کبھی نہیں بن سکتے ۔

اسلام کو صرف باعث فخر سمجھنا: اسلام پر فخر ہر مسلمان کو ہونا چاہئے لیکن اسلام بغرض اصلاح ،تاہم ہم نے اسے صرف فخر کا ذریعہ بنا دیاکہ میں مسلمان ہوں حالانکہ ایک کام بھی مسلمانوں والا نہیں ہے۔اسلام ہمارا امتیاز بن گیا لیکن دلوں میں نہیں اترا۔

انسانی احترام کا فقدان: ہمیں دوسروں کی پسند اور دوسروں کی رائے کا احترام کرنا چاہئے ۔ ہم احترام بھی بعض خاص لوگوں کا کرتے ہیں حالانکہ ہمیں سب کا احترام کرنا چاہئے ۔اگر کسی میں ہمیں کوئی غلطی نظر آئے تو شائستہ طریقہ سے اس کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ ہم اس کا مذاق اڑائیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ