مقبوضہ جموں وکشمیر سے لیکر سرزمین فلسطین تک معصوم اور بے بس وبے کس مسلمانوں کے خون سے سیراب ہوچکی ہیں۔گو کہ عیدالفطر 30 دنوں تک مسلسل روزوں کی حالت میں بھوک وپیاس برداشت کرکے بار گاہ ایزدی میں خوشی و مسرت کا نام ہے۔البتہ اہل کشمیر و اہل فلسطین صدیوں سے بڑی تو بڑی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے بھی محروم ہیں۔پوری دنیا میں مسلمانوں کے بچے عید کے دنوں میں کھلونوں کیساتھ کھیل کر دل بہلاتے ہیں مگر اہل کشمیر اور اہل فلسطین کے بچوں کے نصیب میں کھلونوں کے بجائے بارود اور بم ہیں۔دونوں مقبوضہ خطوں کے رہنے والے بچے پورا دن اپنے والدین کی قبروں پر گزار کر پوری انسانیت سے یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ انہیں کس جرم کی پاداش میں یتیمی سے دوچار کیا گیا اور ان کے والدین کو کیونکر تاریک راہوں میں قتل کیا گیا؟
سرزمین کشمیر جو صوفیوں اور رشیوں کے نام سے جانی جاتی تھی ۔ اپنے قدرتی حسن وجمال سے دنیا میں ہی جنت کہلائی جبکہ شاعروں سے لیکر اس پر حکمرانی کرنے والو ں نے اس کے خوب گن گائے۔یہاں کے بلند وبالا آبشار،چشمے اور جیلیں ،سرسبزو شاداب کھیت اور پورے مقبوضہ جموں وکشمیر کو اپنے بہنوں میں لینے والے پہاڑاور ان پہاڑوں میں موجود جنگلات میں دیو قیامت قسم قسم کے درخت ۔ان درختوں پر چہچہاتے پرندے، پھر کشمیری عوام کی حد سے زیادہ سادگی بھی اپنی مثال آپ تھی ۔البتہ اب سے ایک گھن لگ چکی ہے ،جس نے اندر ہی اندر ہی اس سے دیمک کی مانند چھاٹ لیا ہے۔یہاں فوجی بوٹوں کی چاپ ہر وقت سنائی دیتی ہے۔27اکتوبر 1947ء میں ایک ایسے ملک جو خود کو پوری دنیا میں جمہوریت کا راگ آلاپ رہا ہے اور پھر طرہ یہ کہ جمہوریت کی اس نیلم پری کو اس کے بدبودار لبادے میں پیش کرنے کیلئے سیکولر ازم کا ڈھنڈورہ بھی پیٹتا ہے۔کیا سفاکانہ مذاق ہے؟
بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو تقسیم برصغیر کے اصولوں اور عالمی قوانین کے علی الرغم فوجی طاقت کی بنیاد پر اپنا زیر نگین علاقہ بنایا ہے۔اہل کشمیر کے سینوں پر مونگ دل رہا ہے اور جب اہل کشمیر کے پرامن جمہوری اصولوں کے عین مطابق حق خود ارادیت کے مطالبے کو بے رحمی سے کچلا گیا تو پھر اہل کشمیر کو اپنی صدا کو دنیا تک پہنچانے کیلئے صدائے بندوق کا سہارا لینا پڑا۔اس صدا نے مسئلہ کشمیر کو سرد خانے سے نکال کر ایک عالمی بلکہ ایٹمی فلیش پوائنٹ بنادیا۔1989سے لیکر آج کے دن تک ایک لاکھ کے قریب کشمیری اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں جبکہ 1947 سے اب تک سوا پانچ لاکھ کشمیریوں کو اپنی جانوں سے گزرنا پڑا۔کبھی غلام محمد بلہ اس تحریک کا سرخیل ٹھرا،تو کبھی اعجاز ڈار نے اپنے خون سے اس تحریک کی آبیاری کی۔جناب مقبول الہی،محمد اشرف ڈار،عبد الماجد ڈار،شمس الحق،غلام رسول ڈار،علی محمد ڈار،انعام اللہ خان،میر احمد حسن ،امتیاز پرے ،جمال افغانی جہاں برہمن سامراج کیساتھ پنجہ آزمائی میں اپنے جانوں سے گزرے،وہیں 2016 میں ایک معصوم برہان وانی بھی شہادت کے مرتبے پر فائز ہوکر چشم فلک نے ایسا نظارہ بہت کم ہی دیکھا ہوگا کہ ایک 17 سالہ نوجوان کی نماز جنازہ میں پانچ لاکھ سے زائد لوگ شریک تھے اور عید گاہ ترال اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود کم پڑگیا۔بہت قلیل لوگوں کی نصیب میں ایسی شہرت آئی ہو جو برہان وانی کے حصے میں آئی۔اس سے قبل 1984 میں محمد مقبول بٹ دہلی کی تہاڑ جیل میں تختہ دار پر چڑھے اورپھر سرخرو ہوئے۔جبکہ 09فروری 2013میں افضل گورو نے بھی اسی تہاڑ جیل میں تختہ دار کو چوم کر اپنے خون سے تحریک آزادی کے خاکوں میں رنگ بھرا۔قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
05اگست2019 میں مقبوضہ جموں وکشمیر کی آئینی شناخت پر حملہ کرکے اس سے دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں ضم کیا گیا۔مودی حکومت نے05 اگست 2019 میں تمام بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا ۔بات صرف ان دونوں دفعات کی منسوخی تک ہی محدود نہیں رہی،بلکہ بیالیس لاکھ غیر کشمیریوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کا ڈومیسائل فراہم کیا گیا۔حلقہ بندیوں کے نام پر مقبوضہ وادی کشمیر کے مقابلے میں جموں کو زیادہ سیٹیں دی گئیں،تاکہ بی جے پی کو انتخابات میں فائدہ پہنچاکر مقبوضہ جموں وکشمیر پر ہندو وزیر اعلی مسلط کرنے کی راہ ہموار کی جاسکے۔صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا بلکہ ہزاروں نوجوانوں اور تحریک آزادی کے کارکنوں کو گرفتار کرکے مقبوضہ جموں وکشمیر اور بھارت کی دور درا ز جیلوں میں قید کیا گیا۔جن میں تمام آزادی پسند رہنما بھی شامل ہیں۔حتی کہ خواتین بھی گرفتار کرکے جیلوں میں بند کی گئیں۔آزادی کی حامل جماعتوں کو پابندیوں میں جکڑا گیا۔سانسوں پر بھی پہرے بٹھائے گئے۔بطل حریت سید علی گیلانی بارہ برسوں تک اپنے ہی گھر میں قید رکھے گئے،اور پھر یکم ستمبر 2021 میں وہ دوران قید ہی اپنے خالق سے اپنا وعدہ پورا کرگئے۔ان کی میت کیساتھ بھی بیحرمتی کرنااور پھر فوجی پہرے میں دفنانا بھارتی جمہوریت کیلئے تریاق سمجھا گیا۔جناب محمد اشرف صحرائی،غلام محمد بٹ اور الطاف احمد شاہ بھی جیلوں کے اندر ہی تحرک آزادی کشمیر کیساتھ ایسی وفا نبھاگئے کہ اپنے تو اپنے پرائے بھی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔05اگست2019کے بعد سینکڑوں کشمیریوں کی کروڑوں مالیت کی جائیداد و املاک جن میں دونوں زرعی اور رہائشی مکانات بھی شامل ہیں، ضبط کرلی گئیں۔یہ سلسلہ تھمنے کو نہیں آرہا اور آئے روز بدنام زمانہ بھارتی NIA،SIAاور SIU کے علاوہ ED بھی کشمیری عوام کے گھروں پر چھاپے مار کرانہیں ہراساں و پریشان اور ان کی جائیداد و املاک ضبط کررہی ہیں۔مقصد صرف اور صرف اہل کشمیر کو مقدس خون سے سینچی تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانا ہے۔اس کیلئے مختلف حربے اور گھناونے ہتھکنڈے بھی جاری ہے۔
آب تو آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ بھی کرڈالا گیا ہے اور مودی حکومت کے اس فیصلے کا مقصد تنازعہ کشمیر کی تاریخ مسخ کرنا ہے۔مودی حکومت کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچانے کیلئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی تاریخ مسخ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ مسئلہ کشمیر بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے اور بھارت یکطرفہ طور پر اس کی یہ حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا۔اس کے ساتھ ساتھ بھارت مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نام نہاد معمول کے حالات کی واپسی کے اپنے جھوٹے بیانیے کو آگے بڑھانے کیلئے مسلسل گمراہ کن معلومات بھی فراہم کر رہا ہے۔البتہ ایک بات طے ہے کہ عظیم اور لازوال جدوجہد میں مصروف عمل کشمیری عوام سفاک مودی اور اس کے حواریوں کو مقبوضہ جموں وکشمیر کے تعلیمی نصاب میں آرٹیکل 370 کی منسوخی شامل کرکے مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کمزور کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔بھارت طاقت کے بل پر کشمیری عوام کو ان کے عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق خودارادیت کے استعمال سے روک رہا ہے۔جس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے ۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیں عالمی قوانین اور معاہدوں کی ڈھٹائی اور بے شرمی سے خلاف ورزیوں پر بھارت کو سخت سزا ملنی چاہیے ۔جبکہ اقوام متحدہ اخلاقی طور پر پابند ہے کہ وہ اپنی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل میں مدد کرے۔
انبیا کی سرزمین فلسطین خون میںغلطان بزبان حال اپنی داستان الم سنارہی ہے مگر غیروں سے گلہ کیا اپنے کلمہ گو بھی گونگے اور بہرے بن چکے ہیں۔07اکتوبر 2023 سے اب تک 35000 بے بس ،لاچار اور بے یارو مدد گار فلسطینی صہیونی بربریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔76000 سے زائد زخموں سے چور ہیں۔شہدا میں 13000 صرف بچے اور دس ہزار خواتین ہیں ،جس سے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے کہ اسرائیل مستقبل کے معماروں اور ان معماروں کو جنم دینے والی ماوں،بہنوں اور بیٹیوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنارہا ہے تاکہ اس سے آنے والے کل میں کسی مزا حمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔البتہ اہل فلسطین اور ان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑنے والی حماس ان جان غسل حالات میں بھی اللہ کی کبریائی کا ڈنکا بجاتے ہیں۔جو پوری دنیا کیلئے سبق آموز ہے کہ بے سروسامانی کے باوجود باطل کی اطاعت اور اس کے سامنے سرنگوں نہیں ہوا جاتا،یہی اہل غزہ کا پیغام ہے ،اگر کوئی سمجھے تو