ملک میں عید کی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے۔ مہنگائی کی وجہ سے ہمیں عید کی روایتی رونقیں نظر نہیں آرہی۔ میری مراد شاپنگ کے حوالے سے ہے۔
شاید اس بار شاپنگ میں وہ جوش و خروش نظر نہیں آرہا جو اس سے پہلے عیدالفطر پر نظر آتا تھا۔ مڈل کلاس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ سفید پوش کے لیے اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ نئے کپڑے اور نئے جوتے ضرورت سے عیاشی تک پہنچ گئے ہیں۔
اس لیے عیدکا جوش و خروش بھی کم نظر آرہا ہے۔ ہم لکھنے والوں کی بھی مجبوری ہے ہمیں معاشی مسائل پر لکھنے میں وہ دلچسپی نہیں ہوتی جو سیاسی موضوعات پر لکھنے پر ہوتی ہے۔ عید میں گہما گہمی کم ہے،کے بارے میں جتنی بات لکھنی چاہیے تھی میں نے لکھ دی۔ پٹرول مہنگا ہے، بجلی مہنگی ہے ،گیس کپڑے مہنگے ہیں، جوتے مہنگے ہیں، عید کے موقع پر ملنا جلنا مہنگا ہے۔ ایسے میں کیا کیا جائے ۔
بہرحال ایک طرف عید کی کم گہما گہمی ہے تو دوسری طرف سیاست میں مفاہمت اور مزاحمت کے ابہام کا بھی عجیب شور ہے۔ ایک دن خبر آئی کہ خیبرپختونخوا کی پوری صوبائی کابینہ کور ہیڈ کواٹر پشاور میں افطاری کے لیے پہنچ گئی ہے۔ وزیر اعلی کے پی علی امین گنڈا پور اپنی پوری کابینہ کے ساتھ کور ہیڈ کواٹر پشاور میں افطاری کے لیے گئے۔
وہاں سیکیورٹی کی بریفنگ ہوئی۔ جب پوری کابینہ موجود تھی تو کابینہ کا اجلاس بھی ہوا ۔ سب نے اکٹھے نماز پڑھی۔ پاکستان میں اتحاد اور یکجہتی کے لیے دعا کی۔ اس خبر سے ہمیں تو یہی اشارہ ملا کہ تحریک انصاف اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان برف پگھل رہی ہے۔ اگر مفاہمت نہیں بھی ہوئی تو ورکنگ ریلشن شپ کا آغاز ہو گیا ہے۔ اکٹھے چلنے کی راہ نکلنا شروع ہو گئی ہے، مفاہمت کے اشارے نظر آنا شروع ہو گئے۔
یہ درست ہے کہ اس ملاقات کے بعد اسٹبلشمنٹ کی جانب سے آف دی ریکارڈ یہ بات سامنے آئی کہ اس افطار کو مفاہمت کے تناظر میں نہ دیکھا جائے۔ یہ ایک معمول کی افطارتھی۔ اس کو غیر معمولی اہمیت نہ دی جائے۔ لیکن میں اس وضاحت سے متفق نہیں تھا۔ میری نظر میں اس وضاحت میں کوئی وزن نہیں تھا۔
یہ درست ہے کہ اسٹبلشمنٹ سے اس افطار کے بعد یہ سوال ضرور پوچھے گئے کہ نو مئی پر اب اسٹبلشمنٹ کی کیا پالیسی ہے۔ کیونکہ ایک رائے یہ بھی تھی کہ جب وزیر اعلی کے پی جو نو مئی کے مقدمات میں نامزد ہیں، ان کو کور ہیڈ کواٹر میں افطار پر بلایا جا سکتا ہے تو باقی ملزمان کے لیے بھی راہ کھل سکتی ہے۔
یہ تو کوئی پالیسی نہیں ہو سکتی کہ اگر نو مئی کا کوئی ملزم وزیر اعلی بن گیا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کی اس کے لیے پالیسی اور ہوگی جب کہ اگر کوئی عام شہری ہے تو اس کے لیے پالیسی اور ہو گی؟ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ پالیسی یکساں ہونی چاہیے۔ امیر و غریب اور اہم وغیر اہم کا فرق نہیں ہونا چاہیے۔
بہر حال جہاں اس افطار پر اسٹبلشمنٹ سے سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وہاں تحریک انصاف سے بھی سوالات شروع ہو گئے کہ اب آپ کی مزاحمت کی پالیسی کہاں کھڑی ہے؟ ایک طرف آپ کے ساتھی جیلوں میں ہیں اور دوسری طرف آپ افطار میں شریک ہو رہے ہیں۔ اس لیے اس افطار کے بعد دونوں طرف ہی سوالات ہوئے اور دونوں فریقین کی پالیسی میں تبدیلی پر سوالات ہو رہے تھے۔ ایک ماحول بن گیا، مفاہمت کا ماحول بن گیا۔
مجھے لگتا ہے کہ جیل میں بانی تحریک انصاف کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اس ماحول کا انھیں بہت نقصان ہو رہا ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں، اسی لیے اڈیالہ جیل میں اگلی ہی پیشی پر بانی تحریک انصاف نے اسٹبلشمنٹ کے خلاف بند محاذ دوبارہ کھول دیا۔ حالانکہ اس سے ایک پیشی قبل وہ ایسے اشارے دے رہے تھے کہ وہ پنڈی سے ملاقات کے لیے تیارہیں۔
انھوں نے صحافیوں سے کہا کہ جب عدم اعتماد کے بعداور اقتدار سے نکلنے کے بعد وہ دو دفعہ جنرل باجوہ سے مل سکتے ہیں تو اب کیوں نہیں مل سکتے۔ لیکن یک دم انھوں نے مزاحمت کا محاذ دوبارہ کھول دیا۔ اسٹیبلشمنٹ پر تنقید دوبارہ شروع کر دی۔ اس گفتگو سے یقینا کور ہیڈ کوارٹر کی افطاری سے مفاہمت کا جو ماحول بنا تھا وہ ٹوٹ گیا اور بات دوبارہ مزاحمت کی شروع ہو گئی۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ کور ہیڈ کوارٹر کی افطاری کو پورا خفیہ رکھا گیا تھا۔ کے پی کی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی اعلامیہ اور پریس ریلیز نہیں جاری کی گئی۔ کوئی فوٹیج نہیں جاری کی گئی۔
آئی ایس پی آر نے بھی کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی۔ کوئی ٹوئٹ بھی نہیں کیا گیا۔ لیکن اے این پی کے ایک رہنما اور پھر پشاورکے ایک سینئر صحافی نے یہ خبر بریک کر دی اور پھر خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ اگر یہ خبر خفیہ رہتی تو شاید بانی تحریک انصاف بھی یہ گفتگو نہ کرتے۔ بہر حال بانی تحریک انصاف کی گفتگو کے بعد اسٹبلشمنٹ کی طرف سے بھی واضح پیغام آیا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے مطابق ریاست پاکستان کا مصمم عزم ہے کہ کسی بھی ایسے شخص یا گروہ کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی جو بیرونی طاقتوں کے آلہ کار بن کر ملک میں انتشار برپا کیے ہوئے ہیں۔میرے خیال میں اس میں سائفر کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے بیرون ملک جو تحریک انصاف کی سرگرمیاں ہیں، ان کی جانب اشارہ ہے۔ جن میں آئی ایم ایف کے باہر مظاہرہ اور دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔ پھر ایسے لوگوں کی سرپرستی بھی شامل ہے جن کو ریاست پاکستان سزائیں دے چکی ہے۔
ان میں عادل راجہ جیسے لوگ شامل ہیں۔ اسی طرح یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ نو مئی کے سانحہ کے منصوبہ سازوں، حوصلہ افزائی کرنے والوں اور اس کو عملی جامہ پہنانے والوں کے ساتھ کوئی بھی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ اب اس میں بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کے دیگر قائدین کی طرف واضح اشارہ موجود ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں گنڈا پور کی طرف بھی اشارہ موجود ہے۔
ایک دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مفاہمت کا ایک ہی راستہ ہے کہ نومئی کے ملزمان اور سہولت کار جب تک اس حملے کی کھلے عام مذمت نہ کر لیں اور ریاست پاکستان پر اس مذموم حملے کی ذمے داری نہ قبول کر لیںعوام کے سامنے آ کر اس واقعہ پر معافی مانگیں اور عہد کریں کہ وہ آیندہ کسی بھی ایسے واقعے میں شامل نہ ہوں گے۔ لیکن میر ے نزدیک یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔
یہ پالیسی بھی نو مئی کے بعد سے موجود ہے۔ جس جس نے پریس کانفرنس کی، معافی مانگی، ذمے داری قبول کی اور آگے سے نہ کرنے کا اعلان کیا۔ اس کو معافی دی گئی ہے۔ اس لیے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ایک سال سے اس پالیسی پر بھی کام ہو رہا ہے۔ یہ بھی مستقل پالیسی کے طورپر موجود ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ اپنے ذاتی مذموم مقاصد کے لیے ملک کے خلاف بیرونی سطح پر لابنگ کر کے معاشی یا سیاسی نقصان پہنچا رہے ہیں ان کے ساتھ بھی کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں کی جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ تحریک انصاف نے اب تک بیرون ملک جو لابنگ کی ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈیل رکوانے میں ناکامی ہوئی ہے۔ خط اور احتجاجی مظاہرے سب ناکام ہو گئے۔
انتخابات میں دھاندلی کا منترا بھی ناکام ہوا ہے۔ ساری دنیا نے انتخابات کے نتائج کو قبول کر لیا ہے۔ بلکہ یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ تحریک انصاف اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ بہر حال مفاہمت اور مزاحمت کا ابہام موجود ہے۔ دونوں طرف سے اپنی اپنی پوزیشن واضح کی جا رہی ہے۔ اور ہم اسی ابہام میں عید منائیں گے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس