گزشتہ ہفتے کے آخری کالم میں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ عمر کے آخری حصے میں جی مچل رہا ہے کہ اپنی مادری زبان کے بجائے اردو یا انگریزی میں لکھنے کی مشقت سے نجات پائی جائے۔ پنجابی میں کالم نہ سہی کسی اور صنف میں بھی تخلیقی اظہار کے لیے اس زبان کے کلاسیکی ادب سے رجوع ضروری ہے۔اس ضمن میں وارث شاہ کی ہیر کا بغور مطالعہ بھی درکار ہے۔گھر پہ رکھا ہیر کا مستند نسخہ ڈھونڈ کر لیکن اسے پڑھنا شروع کیا تو بے شمار الفاظ کے معنی اور تلفظ سے لاعلمی کا شدید احساس ہوا۔ نہایت شرمساری تو اس وقت محسوس ہوئی جب میں نے ہیر کو اردو ترجمہ کے ساتھ پڑھنا لازمی تصور کیا۔
اپنی شرمساری کا اعتراف اس کالم میں کیا تو بے شمار دوستوں نے میرے خلوص کو سراہا۔ مجھے چند کتابوں کے نام بھیجے جن کی بدولت ہیر کو آسان اردو یا انگریزی زبان میں سمجھا جاسکتا ہے۔ تلفظ کو درست رکھنے کے لیے چند یوٹیوب چینلوں کے لنک بھی دیے جو ہیر گانے والے چند بڑے فن کار چلارہے ہیں۔ میری کوشش ہوگی کہ دن کے چند لمحات کچھ روز کے لیے فقط ہیر پڑھنے اور سننے کے لیے وقف کردوں۔ ہیر پڑھنے اور سننے کے بعد پنجابی میں اظہار خیال کے قابل نہ ہوا تب بھی کئی معاملات کو وارث شاہ کے ذہن سے دیکھنے کی صلاحیت نصیب ہوسکتی ہے۔
سنا ہے کہ ہر زبان کا زندگی کے بارے میں ایک مخصوص زاویہ نگار ہوتا ہے۔ پنجابی زبان بھی یقینا زندگی کو ایک خاص اندازسے دیکھتی ہوگی۔ برجستگی اور مزاح میری دانست میں اس کی سرشت میں شامل ہیں۔ ساتھ ہی تاہم زندگی کی بے ثباتی کا شدید احساس بھی ہے اور ڈاہڈے (ظالم) حکمرانوں کی براہ راست مذمت اگرممکن نہ ہو تو ان سے دوری کی تمنا تو ہر صورت ظاہر ہوتی ہے۔ معاملات کو پنجابی نگاہ سے دیکھنے کے لیے مگر وقت درکار ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ اس وقت تک یہ کالم لکھا جائے یا نہیں۔ جواب اس کا یہ ہے کہ کالم لکھے بغیر رزق کے حصول میں جو دشواریاں پیش آئیں گی ان کا مداوا ممکن نہیں۔ لہذا فی الحال مچھندر کو روٹی تو کسی طور کمانا ہوگی۔
روٹی کا لفظ لکھتے ہی ذہن میں آٹے کا خیال آیا ہے اور ہمارے ہاں 2018 سے تقریبا ہر دوسرے برس آٹے کا بحران نمودار ہوجاتا ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ عمران خان کے برسراقتدار آنے کے چند ہی ہفتوں بعد جب مجھے ٹی وی سکرینوں سے فارغ کروادیا گیا تو کچھ دنوں کے لیے لاہورسے آواز لگانے کا موقع ملا۔تقریبا تین ماہ تک میں ہر ہفتے دوراتیں اور ایک دن لاہور میں قیام کرتا۔ اسلام آباد سے لاہور اور وہاں سے لوٹتے ہوئے مارچ 2019 کے دوران مجھے ڈرائیوروں اور مختلف دھابوں پر موجود کاشتکاروں سے گپ شپ لگانے کے بعد اندازہ ہونا شروع ہوا کہ ملک آٹے کے بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس کالم میں ممکنہ بحران کا اس کے نظر آنے والے اسباب سمیت ذکر شروع کیا تو ان دنوں قوم کو منفی خبروں سے محفوظ رکھنے کو بے قرار افسران اور میڈیا میں موجود ان کے صحافی نما کارندے مجھے جھٹلانا شروع ہوگئے۔میرے خاندان میں دورپرے کا کوئی رشتے دار بھی کاشت کار نہیں۔ میں نسلوں سے شہری ہوں۔ یہ حقیقت ناقدوں کے بہت کام آئی جو رعونت سے دہرانا شروع ہوگئے کہ اسلام آباد کے گھر تک محدود ہوئے میں زرعی ماہر کا روپ دھارے سنسنی خیزی کا مرتکب ہورہا ہوں ۔
رب کریم کی مہربانی سے تاہم زرعی معاملات کے بارے میں جب خلوص سے لکھنا شروع کیا تو بے شمار کاشت کاروں نے ملک بھر سے مجھے کاشت کاری کے بے شمار پہلوؤں سے آگاہ کرنا شروع کردیا۔ ان میں سے اکثر اب یہ گلہ کرتے ہیں کہ میں دوبارہ سیاسی ہوگیا ہوں۔ زرعی معاملات پر توجہ نہیں دے رہا۔
ایسے ہی ایک مہربان دوست زرعی رقبوں کے مالک خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود سرکاری افسر بھی ہیں۔ جمعہ کی سہ پہر انھوں نے مجھے طویل وقفے کے بعد فون کیا اور نہایت تشویش سے خبردار کیا کہ پاکستان میں آٹے کا بحران ایک بار پھر نمودار ہونے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ جو وجوہات انھوں نے گنوائیں وہ بہت معقول سنائی دیں۔ اس کے باوجود رپورٹر کی جبلت نے مجبور کیا کہ دیگر لوگوں سے بھی اس ضمن میں معلومات حاصل کی جائیں۔ معلومات کے حصول کے دنوں میں ہمارے دو انگریزی اخبارات میں نمایاں انداز میں یہ خبر بھی چھپی کہ وفاقی کابینہ کی اقتصادی کمیٹی کو گندم کی خریداری کے بارے میں پالیسی وضع کرنے میں دشواری محسوس ہورہی ہے۔ ایک رپورٹرنے یہ دعوی بھی کیا کہ بہت چاؤ سے وزارت خزانہ کے منصب پر بٹھائے بینکار جناب اورنگزیب یہ سمجھ نہیں پارہے کہ حکومت گندم کی امدادی قیمت طے کیوں کرتی ہے۔ اسے کسانوں سے خرید کر ذخیرہ کرنا کیوں درکار ہے۔ کسان اور بازار کو طلب ورسد کی منطق کے تحت گندم کی قیمت ازخود طے کردینا چاہیے۔
سچی بات ہے جب میں نے یہ خبر پڑھی تو اعتبار نہیں آیا۔ اورنگزیب صاحب سے میری سرسری شناسائی بھی نہیں۔ عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوچکا ہوں ورنہ ان کا فون ڈھونڈ کر رابطے کی کوشش کرتا۔ از خود اگرچہ فرض کرلیاہے کہ ارائیں خاندان کے ہونہار چشم وچراغ-جناب اورنگزیب- گندم سے جڑے چند تاریخی حقائق اور اس ضمن میں سرکار کی ذمہ داریوں سے اس قدر نآشنا نہیں ہوسکتے۔
بہرحال پاکستان کے لیے بہت ہی اچھی خبر یہ ہے کہ رواں برس گندم کی پیداوار بہت زبردست رہی ہے۔ انگریزی میں اسے بمپرکراپ کہا جاتا ہے۔ اب اگر معاملہ کو فقط طلب ورسد کی بنیاد پر دیکھا جائے تو بمپر کراپ کی وجہ سے گندم آج کی نسبت کم داموں پر بازار میں میسر ہونا چاہیے۔ ایسا مگر ہوگا نہیں۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ کسان کو بیج،کھاد اور پانی وغیرہ کے استعمال سے ایک من گندم پیدا کرنے کے لیے اوسطا 4500روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ آڑھتی مگر گندم کا ایک من خریدنے کے لیے 3100روپے سے زیادہ دینے کو آمادہ نہیں ہوتا۔ کسان کو لہذا حوصلہ دینے کے لیے سرکار کی جانب سے امدادی قیمت کا اعلان ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت نے اب کی بار یہ قیمت 3900روپے مقرر کی ہے۔ گندم کی خریداری کی مگر حد بھی مقرر کردی گئی ہے۔ مقصد اس کا بنیادی طورپر حکومت کے پاس موجود گندم کے ذخائر کو محفوظ وبرقرار رکھنا ہے تاکہ کسی بحران یا قحط سالی کی صورت میں جمع شدہ گندم آٹا بنانے والے کارخانوں کو فراہم کرتے ہوئے آٹے کو عام آدمی کے لیے وافر مقدار کے علاوہ قابل برداشت داموں پر بازار میں موجود رکھا جائے۔
اب کی بار سرکار کی جانب سے امدادی قیمت پر گندم خریدنے کا ٹارگٹ گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 69فیصد کم رکھا گیا ہے۔ مثال کے طورپر پنجاب میں اجتماعی طورپر جو گندم پیدا ہوئی اس کا تقریبا دس فیصد حکومت خرید کر اپنے گوداموں میں ذخیرہ کرلے گی۔ اس ٹارگٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے 6ایکٹر رقبہ اراضی کے مالک کو 6بوریاں جسے باردانہ کہتے ہیں فراہم ہوں گی۔ اس کے علاوہ جو گندم ہے کاشتکار اس میں سے اپنے استعمال کے لیے ذخیرہ کرنے کے بعد بچی گندم آڑھتی کو بیچنے پر مجبور ہوگا اور آڑھتی 4500روپے فی من کے حساب سے پیدا ہوئی گندم کے 3100روپے سے زیادہ دینے کو آمادہ نہیں۔ گندم پیدا کرنے کی لاگت بھی وصول نہ کرنے کے سبب کاشت کار کے دل میں پھیلی مایوسی اسے اپنی ضرورت سے زیادہ گندم پیدا کرنے سے روک سکتی ہے۔ آئندہ سیزن تک پہنچنے سے قبل ہی مگر آڑھتی حضرات بمپر کراپ کے بے شمار من سستے داموں خرید کر ذخیرہ کرنا شروع ہوجائیں گے جو بالآخر چند ماہ بعدبحران کو یقینی بنائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت