2اپریل کوایوانِ بالا ( سینیٹ) کے انتخابات مکمل ہو گئے ہیں۔ کے پی کے میں مگر بوجوہ رہ گئے ہیں۔کئی نئے افراد منتخب ہو کر سینیٹ کے رکن بن چکے ہیں ۔
عید الفطر سے پہلے ہی اِن کی عید ہو گئی ہے۔ اِن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو مبینہ طور پر چمک اور تگڑی سفارش کی طاقت سے رکنِ ایوانِ بالا منتخب ہوئے ہیں ۔ کئی ایسے بھی ہیں جو میرٹ اور خدمات کی بنیاد پر سینیٹ میں آئے ہیں ۔ سینیٹ کے لیے منتخب ہونے والے ثانی الذکر افراد ہی ہمارے سلام اور سیلوٹ کے اصل مستحق ہیں ۔
اِنہی کے ساتھ ہماری قومی توقعات وابستہ ہیں ۔ قوی امید ہے کہ یہی افراد ہمت ودلاوری کے ساتھ سینیٹ میں قومی آدرشوں کا پرچم بلند کریں گے ۔ جناب پرویز رشید بھی ایسے ہی آئیڈیل افراد کی فہرست میں شامل ہیں جو ایک بار پھر سینیٹ کے رکن منتخب ہو کر بے سفارشوں اور بے زروں کی آواز بنے ہیں ۔
آمروں اور آمریت کے کٹڑ مخالف اور نظریہ پرست جناب پرویز رشید پہلے بھی سینیٹ کے رکنِ رکین رہے ہیں ۔ انھوں نے وزیر اطلاعات کی حیثیت میں نون لیگ اور اپنے قائدین کے آدرشوں اور اہداف کو کبھی ٹھیس نہ پہنچنے دی ۔ وہ ثابت قدم رہ کر نواز شریف کے سچے خیر خواہ ثابت ہوئے ۔ بعض طاقتور عناصر ان کے بعض اقدامات، سوچ اور نظریات کو پسندیدہ نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ پرویز رشید نے مگر بطورِ وفاقی وزیر نہ اپنی خو چھوڑی اور نہ ہی اپنے متعینہ راستے سے انحراف کیا ۔
اِس وفا کی انہیں بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑی ۔ ڈان لیکس کا نزلہ ان پر گراکر طاقتوروں نے انہیں وزارت سے نکلوا تو دیا تھا مگر پرویز رشید صاحب ، سیاسی و سماجی نقصانات اٹھانے کے باوجود ، اپنے پاؤں پر کھڑے رہے ۔ ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں ان کی توقیر مزید بڑھ گئی اور بڑھتی ہی گئی ۔
کامریڈ پرویز رشید نے اِس سے قبل، جنرل پرویز مشرف کے استبدادی دور میں، آمریت کا تشدد برداشت کرنے کے باوصف اپنی محبتوں اور نظریات سے دستکش ہونے سے صاف انکار کر دیا تھا ۔ خود پرستی کے امراض میں بری طرح مبتلا شخص کو ان کی یہ ادائیں ایک آنکھ نہیں بھاتی تھیں۔ آمریت کا استبداد مگر پرویز رشید کو جھکا نہ سکا ۔
اپنی زمین اور ضمیر کے ساتھ کھڑے پرویز رشید کی اِنہی اداوں کو جناب نواز شریف پسند کرتے ہیں۔اگرچہ یہ نواز شریف ہی ہیں جن کے ہاتھوں پرویز رشید کی وزارت بھی چھینی گئی تھی ۔ پھر کسی نے کسی جگہ پرویز رشید کو آئیندہ سینیٹ کا رکن نہ بنانے کا خفیہ عہد بھی کر لیا تھا۔
نون لیگ نے 3مارچ 2021کے لیے پرویز رشید کو ایک بار پھر سینیٹ کا رکن بنانے کے لیے میدان میں اتارا تھا مگر اچانک ایک ایسا پر اسرار چکر بروئے کار آیا کہ پرویز رشید سینیٹ کی دوڑ ہی سے باہر پھینک دیے گئے ۔ نون لیگ کی دوڑ دھوپ، وکلا کی قانونی موشگافیاں اور پرویز رشید کا واویلا ، سب کا سب دھرا رہ گیا ۔انہیں بظاہر پنجاب ہاوس کا مبینہ بِل ادا نہ کرنے کی سزا دی گئی تھی ۔
کئی سال قبل مطلق فیصلہ سازوں کے ہاتھوں کامریڈ پرویز رشید کو جس جرم کی سزا دی گئی تھی، وفاقی حکومت کے ایک بڑے سرکاری افسر ، ہمارے دوست راو تحسین علی خان ، بھی اسی مبینہ جرم کے بھینٹ چڑھائے گئے تھے ۔راؤ تحسین علی خان تو اعلی سرکاری ملازمت سے جبری سبکدوش کیے جانے کے بعد خاموش ہو گئے مگر پرویز رشید خاموش رہ کر بھی خاموش نہ رہے ۔ وہ پسِ پردہ رہ کر بولتے رہے ۔ ان کی گفتگو کسی اور لباس اور اسلوب میں اپنے رنگ دکھلاتی رہی ۔ وہ پسِ پردہ رہ کر جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کی زبان بن گئے تھے ۔
جب سے محترمہ مریم نواز وزیر اعلی پنجاب منتخب ہوئی ہیں ، پرویز رشید ہر جگہ ان کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ بعض لوگ یہ منظر دیکھ کر حسد و بغض میں مبتلا ہیں ۔ حاسدین کی آگ کی پروا کیے بغیر پرویز رشید مگر اپنے قائد ، جناب نواز شریف کی محبت و مشورے میں، یہ مفید کردار اور بے ریا وفا نبھا رہے ہیں ۔ایک طویل عرصہ سیاسی تنہائی کے صحرا میں گزارنے کے بعد پرویز رشید صاحب پھر سے سینیٹ کے بِلا مقابلہ رکن منتخب ہو گئے ہیں ۔
یہ ایک مبارک و مسعود لمحہ ہے۔ جناب نواز شریف، محترمہ مریم نواز اور نون لیگ نے پرویز رشید کی محبتوں اور کمٹمنٹ کی بجا قدر کی ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ پھر سے سینیٹ کا رکن منتخب ہونے کے بعد انہیں وزیر اعظم جناب شہباز شریف کی کابینہ میں کسی اہم خدمت کا موقع ملنا چاہیے۔ یہ خواہش مستحسن و مطلوب ہے ، لیکن ہمارا خیال ہے کہ پرویز رشید کے قیمتی مشوروں اور گائیڈنس کی فی الحال میڈم سی ایم پنجاب کو زیادہ ضرورت ہے ۔
وہ نواز شریف کے جاں نثار اور نون لیگ کے جانباز سینیٹر ہیں۔ ایک بار بوجوہ ان سے وزارت تو چھینی گئی تھی مگر مزاحمتی کردار ان سے چھینا نہ جا سکا ۔ مزاحمت کے میدان میں وہ ایک ایسا کردار ہیں جو شعلہ مستعجل نہیں بن سکا۔جو اچانک بھڑک بھی اٹھے اور لمحوں میں گل بھی ہو جائے۔
انھوں نے نظرئیے کے لیے قیدو بند کی سزائیں بھی جھیلی ہیں اور غربت و تنگدستی کے عذاب بھی برداشت کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے نون لیگ تک ان کا سفرِ سیاست حصولِ زر و حصولِ اقتدار کے لیے نہیں رہا۔ ان کی جیبیں خالی تھیں اور خالی ہی رہیں۔ وہ آج بھی درویش منش سینیٹر ہیں ۔
تین چار سال قبل پرویز رشید کی راہیں مسدود کرنے کا ایک مفہوم یہ بھی تھا کہ ہم سکے کا دوسرا رخ دیکھنے کے روادار اور متحمل نہیں ہیں ۔ ہم ہر سطح پر زبانی کلامی رواداری اور ٹالرنس کی بات یقینا کرتے تو ہیں لیکن عملی سطح پر ہمیں رواداری مرغوب اور محبوب نہیں ہے۔ اگر معاشرے میں ڈائیلاگ نہیں ہوگا تو وہاں مونو لاگ کا ماحول پرورش پائے گا اور مونو لاگ کا دوسرا مفہوم آمریت کے سوا کچھ نہیں ۔ ڈائیلاگ ہی میں جمہوریہ کا حسن پنہاں ہے۔یہ ڈائیلاگ اور مکالمے ہی کا حسن ہے کہ ہم آج بھی سقراط کو جی جان سے یاد کرتے ہیں ۔
مکالمے کو سماج میں زندہ رکھنے اور مکالمے کی مسلسل ترویج ہی کے لیے سقراط نے زہر کا پیالہ نوش کیا۔قلندرسقراط کے سچے پیروکارپرویز رشید مونو لاگ کے نہیں ، ڈائیلاگ کے مبلغ تھے اور ہیں ۔خان صاحب کے دور میںپرویز رشید کو سینیٹ کے ایوان سے دور رکھ کر درحقیقت ڈائیلاگ اور تنوع کی خوبصورتی سے دوستی نہیں کی گئی تھی ۔ اچھی بات یہ ہے کہ نون لیگی قائدین کی حمائت و طاقت سے کامریڈ پرویز رشید پھر سے ایوانِ بالا کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ۔عید سے پہلے انہیں ہماری طرف سے دو مبارکیں ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس