کون سی الجھن کو سلجھاتے ہیں ہم : تحریر کشور ناہید


ن۔ م راشد صاحب الفاظ میں اتنی الجھنیں جمع ہوگئی ہیں کہ اب یہ تضادات سے بھری الجھن دماغ کو سن کررہی ہے، میں8فروری سے اب تک طویل سلسلہ تضادات کو بیان کروں گی۔ اگر پڑھنے والوں سے یہ الجھنیں حل ہوجائیں تو میں سکون کا سانس لے سکوں گی۔

الجھنیں تو8فروری کی رات سے شروع ہوگئی تھیں۔ وہ دن اور آج کا دن، اعدادو شمار میں یہ نہیں پتہ چلتا کہ کون ہارتاہارتا جیت گیا اور کب تک یہ سلسلہ جاری رہےگا ۔ پہلے تو گھر کی بات والی حکومتیں یعنی پنجاب کے پی اور سندھ کی صوبائی حکومتیں بن گئیں، ساتھ ہی پہلے سے طے شدہ قومی حکومت بن گئی۔ رہ گئی بلوچستان کی حکومت، وہ بھی بنتے بنتے رہ جاتی ہے۔ اب آتا ہے گورنروں کا معاملہ، غالب والی بات کہ معاملہ کیا ہوا اگر الجھانے کو۔ اب تک صوبوں کے گورنر تبدیل نہیں ہوئے۔ بیٹھے ہوؤں کو چھیڑا نہیں جارہا ہے کہ ’’چنگابھلا دہی پیا کھاندارے‘‘ ہر ایک کی قسمت میں تو خاص کر لاہور جیسا گورنر ہاؤس نہیں ہوتا ۔ پنجاب کے گورنر نے تو کارنامے سرانجام دیے۔

ایچی سن کالج کی وجہ سے دنیا بھر میں پہچانے گئے اور سندھ کا گورنر کیا کم توپ ہے کہ اس نے ایم کیو ایم کے سارے دھڑوں کو ایک کرکے ایک دن میں دکھایا، کے پی کے گورنر ہمارے مذہبی رہنما کے سمدھی ہیں۔ ہم سے حکومت میں آج کل ایک اور سمدھی کو سنبھالا نہیں جارہا کہ دشمنوں کو اسے خزانے کی کنجی دینے پر اعتراض ہے۔

گزشتہ دو ہفتوں سے سینیٹ کی چھیڑ پڑ گئی ہے۔ ویسے سنجرانی صاحب کی جان چھوٹ گئی کہ وہ صوبائی ممبر ہونے کے بعد چیئرمین سینیٹ بھی بنے ہوئے تھے۔ اب طول کلام اس لیے کہ زیادہ تر سینیٹرز کو بلا مقابلہ کروانے کی الجھن بل کھاتی رہی ہے۔ توقع ہے اپریل میں یہ نگ پورے ہوجائیں گے۔ البتہ جس نے ڈچ شہریت چھوڑی تو بہت سے گزشتہ خزانے کی کنجی پکڑنے والے اور بعد رسوائی واپس اپنے اپنے وطن کو لوٹ کر، پاکستان کا نام بھی نہ سنتے ہیں، نہ لیتے ہیں۔ پاکستان کے صوبائی اور قومی الیکشن کے تین دن کے بعد نتائج دیکھ کر46فیصد نوجوان نسل کہہ رہی ہے کہ اگر بلا مقابلہ ہنرمند منتخب کیے جاسکتے ہیں تو پھر الیکشن کمیشن کے گلے میں گھنٹی باندھ کر ساری صلواتیں ان پر پڑ رہی ہیں۔ پچھلے سینیٹ کے الیکشن کی ایک تصویر ٹی وی پر بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص جس کا چہرہ نظر نہیںآرہا تھا، وہ نوٹوں کی گڈیاں تقسیم کررہا تھا اور نوٹوں کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس دفعہ کی پردہ داری میں شاید نوجوان سیاست دانوں کا ہنر بول رہا ہے۔

رہا ایجنسیوں کے عمل دخل کا معاملہ یہ تو اسکندر مرزا کی مارشل لائی جمہوریت کے زمانے سے چل رہا ہے۔ عروج پہ بے شمار ایجنسیوں کے ہونے کا معاملہ ہے تو یہ ضیاء الحق کے زمانے میں خوب پھلا پھولا۔ اس زمانے میں ایک سال تک میری سرکاری گاڑی کے آگے موٹر سائیکل اور پیچھے پولیس کی جیپ ہوتی تھی۔ سب لوگوں نے مجھ سے ملنا ترک کردیا تھا کہ تمہارے پاس آنے میں گاڑی کا نمبر نوٹ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں میرے گھر سے دفتر جانے کے بعد یہی پلے ہوئے شہسوار، گھر کے کمروں کی کھڑکیاں کاٹ کر گھر میں آتے،ہر کمرے کی چیزیں نکال کر زمین پر ڈال جاتے مگر لے کر کچھ نہ جاتے۔ اس واقعہ کے بارے میں اس زمانے کے ایس پی سے پوچھا تو اس نے کہا کہ ایسے کام لکھ کر نہیں دیے جاتے۔ اس لیے ایک فقرہ بھی مارا، شاید آپ نے حکومت کے خلاف کبھی کچھ لکھا ہو۔ چلیں 40سال پہلے کے اس واقعہ کو چھوڑیں۔ نجیبہ عارف کو باقاعدہ انٹرویو و دیگر تفاصل کے بعد اکیڈمی آف لیٹرز کا چیئرپرسن لگاتے ہوئے، اس کو جس طرح ایجنسیوں نے تنگ کیا کہ وہ تو معصوم اور شریف خاتون تھی۔ چپ رہی، مگر یہ کون سی نئی بات ہے۔ ہر سیکریٹری اور سفارت کار کی رپورٹ ازبس ضروری ہے۔ جو غیر ملکی خاتون پاکستانی سے شادی کرلے، اس کے قیام کا ویزا بھی ان ہی اداروں کی رپورٹوں کی بنیاد پر ہوتا ہے، کوئی لکھ دے، نہیں معلوم یہ خاتون روز کابل کیوں جاتی ہے۔ اس کے قیام کے ویزے میں حائل ہوجاتا ہے کہ وہ تو بین الاقوامی رپورٹر رہی ہے اور ذمہ داری ادا کرنے جاتی رہی ہے۔

اب گھروں کی الجھن پہ بات کرلیں۔ کہا گیا تھا کہ اشرافیہ پر ٹیکس بڑھائیں گے۔ یعنی بانہیں پکڑتے پکڑتے ہاتھ پر آگئے ہیں۔ یہ تو کھوکھوںپر ٹیکس لگا رہے ہیں۔ اب ریڑھی والے، چھابڑی والے، سائیکلوں پر سودا بیچنے والے اور والیاں کیسے بچوں کی روٹی کمائیں گے۔

آخر میں ایک اور الجھن گوجرانوالہ میں کوئی عدالت لگی ہے، اس میں پیشی اور گواہی کی تفصیلات تو اخبار میں نہیں دیکھیں، البتہ ایک فیصلہ شائع ہوا ہے۔ 9 مئی کے 55ذمہ داروں کو 5.5سال کی سزا دی گئی۔ یہ کون سی عدالت تھی کہ زیادہ تر پکڑے ہوئے لوگ اسلام آباد اور لاہور میں ہیں، ٹھیک ہے مجرم کو سزا ملنی چاہئے،لیکن کیا یہاں مارشل لائی جمہوریت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ