اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان مسلم لیگ (ن)کے سینئر نائب صدر اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ شہزاد اکبر کو احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا، شہزاد اکبر بتا دیں انہیں عمران خان نے نکالا ہے یا انہوں نے استعفیٰ دیا ، اور جاتے ، جاتے اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروادیں۔ آج ساڑھے 3 سال بعد پتہ چلا بچہ نالائق تھا، اس کو کچھ آتا نہیں تھا،فیل ہو گیا۔پوری حکومت کا یہی حال ہے ، کوئی وزیر ایسا نہیں جو فیل نہ ہوا ہو، ایک جگہ فیل ہوتے ہیں دوسری جگہ لگ جاتے ہیں ، ملک کے سارے چور کابینہ کی میز پر بیٹھے ہیں، آج کرپشن کے انڈیکس میں پاکستان 140 ویں نمبر پر آگیا۔
ان خیالات کااظہار شاہد خاقان عباسی نے ایل این جی کیس میں اسلام آباد کی احتساب عدالت میںپیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ آج اسلام آباد کی ساری عدالتیں بند ہیں لیکن نیب کی عدالت کھلی ہے اس کی کیا وجہ ہے کسی کو معلوم نہیں لیکن ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ عدالتیں چلیں، میں نے ہمیشہ کہا ہے اورآج پھر کہتا ہوں کہ عدالتوں میں کیمرے لگائیں اورپاکستان کے عوام کودکھائیں یہاں کون سی کرپشن ہوئی ہے۔آج چیئرمین نیب کے بارے میں بات نہیں کریں گے کیونکہ سنا ہے وہ بیمار ہے اورانہیں کوروناوائرس ہو گیا، ان کے حوالے سے اگلی دفعہ بات کر لیں گے۔ شہزاد اکبر جو کہ ملک میں احتساب کے دعویدار تھے ، انہوں نے یا تو استعفیٰ دے دیا ہے یا انہیں نکال دیا گیا ہے۔ یہ اس حکومت کا خاصا ہے کہ نہ آدمی کے آنے کا پتا چلتا ہے کہ کس طرح آیا ہے اوریہ کون ہے اورنہ جاتے ہوئے پتا چلتا ہے کہ اس کو کسی نے نکالا ہے یا خود چھوڑ کر چلا گیا۔ کوئی کہتا ہے چارچ شیٹ جاری کردی ہے۔ پوری حکومت کا یہی حال ہے ، کوئی وزیر ایسا نہیں ہے جو فیل نہ ہوا ہو، ایک جگہ فیل ہوتے ہیں دوسری جگہ لگ جاتے ہیں، دوسری جگہ فیل ہوتے ہیں تیسری جگہ لگ جاتے ہیں ، خمیازہ عوم بھگت رہی ہے۔
انہوںنے کہا کہ شہزاد اکبر بہت پریس کانفرنسز کرتے تھے اورلوگوں پر الزام لگاتے تھے اور کہتے تھے میرے پاس بڑے ثبوت ہیں اور بکسے بھرے ہوئے ہیں، کبھی برطانیہ جارہے ہیں ، کبھی واپس آرہے ہیں، میں شہزاد اکبر سے گذارش کروں گا کہ عوام کو بتادیں آپ نے ساڑھے تین سال میں کیا، کیا ہے ، آپ کی کارکردگی کیا ہے، کون سا احتساب کیا ہے، کون سے سیاستدانوںکو آپ نے پکڑا اور کون سا ثبوت اکٹھا کیا ہے۔ یہ بھی بتادیں آپ کو عمران خان نے نکالا ہے یاآپ نے استعفیٰ دیا اور جاتے ، جاتے اپنے اثاثوں کی تفصیلات جمع کروادیںکیونکہ یہ آپ سے پوچھا جائے گا کہ جس دن آپ اس عہدے پر آئے تھے آپ کے اثاثے کیا تھے اورآج آپ کے اثاثے کیا ہیں، اب آپ بھی احتساب کے دائرے میں ہوں گے اورآپ کو بھی کل احتساب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان سوالوں کا جواب دینا پڑے گا جو ہم نے دیئے ہیں۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کے مطابق چھ اکتوبر2021کے بعد تو آپ کو نہیںپوچھا جاسکتا تاہم چھ اکتوبر سے پہلے آپ کو جواب دینا پڑے گا، صرف ان کو ہی نہیں بلکہ وزیر، مشیر، ایک فوج ہے جس کا کام صرف پریس کانفرنسز کرنا ہے اور عجیب اور مضحکہ خیز قسم کے دعوے کرنا اور باتیں کرنا، ملک میں تماشا لگا ہواہے، کونسی وزارت ہے جس میں سیکڑوں اربوں کا سکینڈل نہیں ۔
سابق وزیراعظم کہ وزیراعظم اتوار کے روز خود ٹی وی پر جلوہ فروز ہوئے اور انہوں نے کہا میں سڑکوں پر نکل آیا تو آپ کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی، پاکستان کے عوام تو پہلے ہی گھبرائے ہوئے تھے، اب سارے ہی گھبرا رہے ہیں کہ بنے گا کیا ہمارا، جب ملک کا وزیر اعظم ملک کے عوام کو دھمکیاں دینا شروع کردے، تم نے حکومت میں رہ کرعوام کے چھپنے کی جگہ نہیں چھوڑی ہے ، حکومت چھوڑو گے تو پتا نہیں کیا کروگے،، جوسرکس آج سے ساڑھے تین سال قبل شروع ہوئی تھی اس کو جلدی ختم کردیں تو بہتر ہو گا، ملک مزید اس سرکس کو برداشت نہیں کرسکتا، ملک کے سارے چور کابینہ کی میز پر بیٹھے ہیں،کون سی وزارت ہے جس میں سینکڑوں اربوں کا سکینڈل نہیں ، دوائیوں سے لے کر ایل این جی تک اور بجلی تک، گندم اورچینی تک، ہر معاملے میں سینکڑوں ارب کے سکینڈل ہیں،جب 2018میں (ن)لیگ کی حکومت گئی تھی توپاکستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن ریٹنگ میں117ویں نمبر پر تھا، آج کرپشن کے انڈیکس میں پاکستان180ممالک میں 140 ویں نمبر پر آگیا اورصرف40ملک رہ گئے اور جب عمران خان اقتدار سے نکلا تو ہم 180ویں نمبر پر ہوں گے۔ آج پنجاب حکومت کے افسر پیسے دے کر لگتے ہیں اور ہر مہینے بھی پیسے دیتے ہیں۔وزیر اعلیٰ کے اپنے ڈویژن ڈیرہ غازی خان کے10کمشنر بدل چکے ہیں۔ عمران خان کرپشن روکنے کے دعوے کرتے تھے اورآج پاکستان کرپشن میں140ویں نمبر پر پہنچ گیا۔ آج پریس کانفرنس کر کے پاکستان کے عوام کو بتائیں کیوں کرپشن بڑھ گئی ۔ آج پاکستان میںموجودہ حکومت کے دور میں سالانہ چھ فیصد کے حساب سے کرپشن بڑھتی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہے، جس میں سفارشات پیش کی جائیں گی، 23 مارچ کو لانگ مارچ ہوگا۔