ہمارے اسکول، کالج کے زمانے میں صبح 7بجے بناکا گیت مالا پروگرام ہوتا تھا۔ اس کو امین سیانی پیش کرتے تھے۔ معلوم نہیں کتنی عمر چلا کہ کل جب 91برس کی عمر میں ان کی موت کی خبر آئی تو ایک دم یادوں کا بھولا ہوا زمانہ فلم کی طرح چلنے لگا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد، دونوں ملکوں کے پروگراموں میں کوشش کی جاتی کہ اردو میں ہندی کے الفاظ اور ادھر ہندی میں اردو کے الفاظ کم سے کم استعمال کیے جائیں۔ یہ ترکیب بہت دن تک کارگر نہ ہوئی کہ شاعری میں اردو، ہندی کے الفاظ دکنی اردو کے علاوہ، دو سو برس سے بے شمار الفاظ جیسے ساجن پریتم، میں تو پریم دوانی جیسے مصرعے عمومی استعمال کیے جاتے تھے۔ دونوں ملکوں کی زبان بدلنے کے تیور دیکھ کرا مین سیانی نے ایسی اردو ، ہندی ملی زبان استعمال کی اور پھر گانے بھی دونوں ملکوں کے شامل ہوتے تھے۔ یہ بھی مقابلہ رہتا تھا کہ پاکستان کے گانے نمبر ایک مقبولیت میں سامعین گردانتے ہیں کہ ہندوستان کے، مجھے یاد ہے اقبال بانو کا گایا ہوا گانا’’ الفت کی نئی منزل کو چلا ‘‘ کئی ہفتے نمبر ایک رہا۔ اسی طرح نور جہاں اور مہدی حسن بھی مقبولیت میں اول رہے تھے۔
بہت سال اردو اور ہندی کو Push کرنے کی کوششوں میں جنونی شدت کم ہوئی۔ وہ بھی مشاعروں اور ڈراموں کے سبب مگر انڈیا میں ہندی کو سنسکرت کا پیراہن پہنانے کی سعی نصاب اور عمومی زبان میں اسقدر بڑھی، کہ فکر تونسوی اور بیدی صاحب جیسے بڑے لکھنے والے کہنے لگے کہ ہماری سمجھ میں جدید ہندی نہیں آتی ۔ اب تو انڈیا میں حد ہو گئی ہے کہ شہروں، عمارتوں سے لے کر ہندی کو سنسکرتی لہجہ اور الفاظ پہنا دے گئے ہیں۔ اردو بھی ریڈیو کی حد تک دس پندرہ سال تک رہی مگر عالی صاحب کے دوہے اور ناصر شہزاد اور اسد محمد خان کے گیتوں نے ہندی کے لفظوں کو امیر خسرو سے مربوط کر کےقائم رکھا۔ غالب اور میر کے زمانے کی اردو دوبارہ ہمارا مقدر نہ ہوئی اور ضیاالحق کے زمانے کے جنرل اطلاعات کے سیکریٹری نےتوکہا کہ بلوچی ہو کہ سندھی کہ پشتو کہ پنجابی ، ہر زبان کے لفظوں کو اردو میں عمومی استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہ جو ریڈیو، ٹی وی پر تلفظ درست کرنے والے اساتذہ ، صوفی صاحب اور ناصر کاظمی جیسے جید حضرات کو تلفظ درست کرنے کو رکھا جاتا تھا یہ ادب مفقود ہوا، پھر رائج ہوا جو جیسے بولے وہ قبول عام ہو گا۔ انڈیا میں بھی اردوسروس معطل کر دی گئی اور انڈیا کی خبریں، ہم لوگوں کو (جنہیں ہندی آتی تھی) کی سمجھ میں بھی نہ خبر نامہ آتا تھا نہ اناؤنسمنٹ ۔ پاکستان میں بھی قوم بے چاری نشریات میں کبھی مذکر ہوتی اور کبھی مؤنث۔ ادب میں یہ بدتہذیبی بھی در آئی ہے مگر سابقہ مرحلہ بھی لائی ہے کہ تارڑ سے لے کر طاہرہ اقبال تک اور ناطق بھی لکھتے ہوئے بہت سی مقامی بولیوں کوشامل کر لیتے ہیں۔ اسی طرح دوسری قومی زبانوں میں بھی ہو رہا ہے۔ اب انڈیا میں اردو پڑھنے والے ادیب اور دیگر قارئین شکوہ کرتے ہیں کہ آدھی عبارت کے الفاظ سمجھ میں نہیں آتے۔مگر یہ تبدیلی ہر ملک کی زبانوں میں دکھائی دیتی ہے۔ انگریزی میں شیکسپیئرکا لہجہ مفقود ہو چکا ہے۔
یہاں تک پہنچ کر مجھے عقیل عباس جعفری کی مجلد و تحقیقی معتوب کتابیں، یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ساری دنیا میں اخلاقیات بھی بدلتی رہی ہے۔ یعنی کہ بائیل کے تراجم اور قرآن پاک کے تراجم میں ہر صدی میں تبدیلیاں اور تفریق ہوتی رہی۔ مگر جعفری صاحب نے تو دنیا بھر میں 140 کتابوں کی رود اداکٹھی کی ہے۔ جو مختلف زمانوں اور مختلف علاقوں میں پابندیوں اور وہ بھی قانونی پابندیوں کا نشانہ بنیں۔ ان کتابوں کی تفریق ایسے کی گئی ہے کہ اول تو سیاسی بنیادوں پر سنسر کی نذر ہوئیں۔ بعد ازاں ان کتابوں کی فہرست ہے جو مذہبی بنیادوں پر معتوب ہوئیں۔ پھر وہ کتابیں جو جنسی بنیاد پر معتوب ہوئیں۔ پھر ان کتابوں کی فہرست ہے جو سماجی بنیادوں پر سنسر ہوئیں اور بودلیئر اور ڈورا ڈنکن جیسے لکھنے والے بھی کبھی معتوب کبھی ہر دلعزیز ٹھہرے اور آخر میں برصغیر میں خاص کر اردو میں چند سنسر شدہ کتابوں کی تفصیل ہے۔ ہر تفصیل کے ساتھ مختصر مگر جامع طور پر کتاب کے متن کا حوالہ، سنسر شپ کا زمانہ اور وجوہات بھی بڑی محنت سے مدون کی گئی ہیں۔
ویسے تو منٹو کی ہر کہانی مقدمے کے قابل سمجھی گئی۔ کبھی بمبئی میں کبھی لاہور میں ان پر مقدمے بنتے رہے۔ جیل بھی جاتے رہے۔ مگر مجھے تعجب اور حیرت ہوئی خان قیوم کی کتاب کی سنسر شپ پر کہ کتاب خان عبدالغفار خان کی تعریف مگر آل انڈیا مسلم لیگ کی مخالفت سے بھری ہوئی تھی۔ وہ جب کے پی کے وزیر اعلیٰ بنے تو اپنی ہی کتاب سنسر کرنا پڑی۔ دنیا کی شاید یہ واحد کتاب ہے جس پر خود وزیر اعلیٰ نے پابندی عائد کی۔ پریم چند کی کہانیاں بھی 1908ءمیں سنسر ہوئیں مگر 1980ءمیں پریم چند کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر علی احمد فاطمی نے ایک کہانی خارج کر کے ساری کہانیاں مرتب کیں۔ادب پڑھنے والوں کو علم ہو گا کہ مثنوی، زہر عشق 1860میں لکھی گئی مگر جب احسن لکھنوی نے اس مثنوی کی ڈرامائی تشکیل کی اور اسٹیج پر اسے دیکھ کر کمزور دل اور بزرگ بھی خود کشی کرنے لگے تو پھر حکومت نے اسے اسٹیج کرنے کی ممانعت کر دی۔
قائد اعظم کی سوانح پر امریکی مصنف والپورٹ کی لکھی کتاب پر جناب ضیاءالحق نے ضد کی کہ وہ ایک جملہ کتاب سے نکال دیں۔ والپورٹ راضی نہ ہوئے اسی طرح اور ضیا کے زمانے میں فضل الرحمان خان ،اکرم الحق اور فخر زمان کی کتابیں بلاوجہ سنسر کی گئیں۔ میرا ایک ترجمہ لائق ضبطی ٹھہرا ۔ ضیا کے بعد اب یہ چلن کم کم ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ