کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟ : تحریر الطاف حسن قریشی


وطنِ عزیز میں گزشتہ چھ سات برسوں سے جو وَاقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں اور عام انتخابات کے بعد اسمبلیوں میں جو دھماچوکڑی مچی ہوئی ہے، اُسے دیکھ کر شاعرِ مشرق کا یہ مصرع عالمِ اضطراب میں زبان پر آ جاتا ہے۔ ’’کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں‘‘۔ اِس مصرع کا ایک وسیع تاریخی پس منظر ہے۔ جن دنوں تحریکِ پاکستان اپنے جوش پر تھی اور عام انتخابات کا غلغلہ بلند تھا، تو ہم ہائی اسکول کے چند طلبہ نے ایک گروہ تشکیل دیا جو شہر کی مسجدوں میں مسلمانوں کا خون گرماتا اور اُنہیں تحریکِ پاکستان میں فعال بنانےکیلئے شاعرِ مشرق کا ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ لحن کیساتھ پڑھتا تھا۔ اُن کی اِن طویل نظموں میں پس ماندہ مسلمان اپنے خدا سے گستاخ انداز میں شکوہ کرتے ہیں کہ ہم نےتیرا نام بلند کرنے کیلئے کیا کیا خطرات مول نہیں لیے۔ ’’بحرِ ظلمات میں دوڑا دِیے گھوڑے ہم نے‘‘ اور ہماری اطاعت کیشی کا یہ عالم رہا کہ اگر لڑائی میں آ گیا وقتِ نماز، تو ہم صفیں باندھ کر کھڑے ہو گئے جبکہ تیری بےرخی کا یہ عالم ہے کہ ہمیں مصیبتوں اور مشکلوں میں گرفتار کر رکھا ہے اور یہ بجلی ہم بےچاروں کے سروں پر گرتی ہے۔ اِس شکوے کے جواب میں شاعرِ مشرق خدائے بزرگ و برتر کا جواب نقل کرتے ہیں جس میں کہا جاتا ہے کہ ہم نے تم پر کیا کیا احسانات نہیں کیے، مگر تم فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ بات بات پر لڑنے جھگڑنے لگے۔ تمہارے ہاتھوں اخلاق کا دامن تار تار ہوا اَور ایک ملت کا شیرازہ بکھرتا گیا۔ جوابِ شکوہ کا ہی ایک مصرع یہ ہے ’’ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔‘‘

شاعرِ مشرق محمد اقبال کا شکوہ اَور جوابِ شکوہ لکھنے کا بنیادی مقصد مسلمانوں کی عظمت کی تصویرکشی کے ساتھ ساتھ اُنہیں یہ احساس دلانا تھا کہ تمہارے کرتوت تمہاری ذلت کا باعث بنے ہوئے ہیں، تمہیں اپنے رویّے بدلنا ہوں گے۔ جوابِ شکوہ کا یہ شعر ایک ابدی حقیقت کے طور پر جلوہ گر ہے ؎

کی محمدؐ سے وفا تُو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

مسلمانوں کی معراج سرورِ کونین حضرت محمد ﷺ کی وفاداری میں ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کو دِیانت داری سے یہ جائزہ لینا ہو گا کہ واقعی وہ محبوبِ خدا کے وفادار کہلانے کے مستحق ہیں۔ آپؐ رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے اور آپؐ کی زبانِ مبارک سے محبت اور شفقت کے پھول جھڑتے تھے۔ کبھی اخلاق سے گرا ہوا ایک لفظ بھی آپؐ کے ہونٹوں پہ نہیں آیا۔ آپؐ اخلاقِ عظیم کے پیکر تھے۔ آپؐ نے اپنی جان کے دشمنوں کو معاف کر دیا تھا۔ آپؐ اپنے قول کے سچے اور اَپنے وعدے کے پکے تھے۔ آپ ؐنے بگڑے اور خون میں لتھڑے معاشرے کو اَمن و آشتی کا گہوارہ بنا دیا تھا۔ وہ لوگ جو اَپنی بچیوں کی پیدائش پر اُنہیں زندہ درگور کر دیتے تھے، اُنہیں خواتین کی عزت کا نگہبان بنا دیا تھا۔ سرورِ کائناتؐ کی سیرتِ طیبہ سے ہماری کوئی نسبت ہی دکھائی نہیں دیتی۔ ہم تو آگ بھڑکانے اور خون بہانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ ہماری زبان اور ہاتھ سے کسی کی عزت محفوظ نہیں ہے۔ ہم دل میں جگہ بنانے کے بجائے چیرنے پھاڑنے کی سیاست کا تجربہ کر رہے ہیں اور نئی نسل کیلئے کانٹوں کی فصل تیار کرنے پر مُصر ہیں۔ یہ تو خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کی سراسر خلاف ورزی ہے اور اِس لیے ہماری سوسائٹی سے روح کا سکون اور دِل کا قرار رُخصت ہوتا جا رہا ہے، اِس لیے خوف اور مایوسی نے ہمارے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور ہم اپنے ہی دیس میں اجنبی ہوتے جا رہے ہیں۔ اِس عذاب کے ہم خود ذمےدار ہیں۔

بلاشبہ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کی بےبصیرتی اور کم ظرفی کے باعث ہمارے نوجوان بہت برگشتہ ہیں اور کچھ بےمہار سیاست دانوں نے اُنہیں جذبات کے الاؤ میں دھکیل دیا ہے۔ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اور تبدیلی کا نعرہ لگانے والے اُن کے ہیرو ہیں۔ انتخابات میں اُنہوں نے تحریکِ انصاف کے حق میں بڑی تعداد میں ووٹ ڈالے ہیں اور اِنتخابی نتائج جنوری میں شائع شدہ پاکستان گیلپ سروے کے قریب قریب سامنے آئے ہیں۔ وہ آزاد اُمیدوار کے طور پر منتخب ہوئے اور اُنہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تاکہ اُنہیں اُن کے حصّے کی مخصوص نشستیں مل جائیں۔ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے فہرستیں الیکشن کمیشن میں جمع نہیں کرائی تھیں، اِس لیے وہ مخصوص نشستوں سے محروم کر دی گئی اور وُہ نشستیں دوسری جماعتوں کو متناسب نمائندگی کے حساب سے الاٹ کر دی گئیں۔ یہ فیصلہ آئین کی روح اور عمومی حکمت سے ہٹا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ انتخابات کے بعد سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوںکیلئے فہرست جمع کرانے کی اجازت دے دی جاتی تاکہ تحریکِ انصاف پارلیمان میں ایک فعال اور مثبت کردار اَدا کرنے کی طرف مائل رہتی اور حقیقی عوامی اور ملکی مسائل منتخب اسمبلیوں کی توجہ کا مرکز بنتے۔ آج کے اعصاب شکن حالات کا سب سے بڑا تقاضا یہ ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سر جوڑ کر بیٹھیں اور پاکستان کو بحرانوں کے گرداب سے نکالنے کیلئے ایک لائحہ عمل ترتیب دیں اور اِس پر برق رفتاری سے عمل درآمد کریں۔ کامن سینس اِس امرکا متقاضی ہے کہ ملکی معیشت کو اَپنے قدموں پر کھڑا کرنے کیلئے ہمیں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور زراعت میں غیرمعمولی ترقی پر سرتوڑ توجہ دینا ہو گی اور حکومتوں کو سو دنوں کے ایک انقلابی ایجنڈے کا اعلان کرنا ہو گا۔ آئی ٹی کے شعبے میں جناب عمر سیف نے زبردست کارنامے سرانجام دیے ہیں۔ اُن کی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئےکار لایا جائے اور زرعی تحقیقاتی اداروں میں جان ڈالی جائے جو عدم توجہی سے ویران ہو گئے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ جس کے اخراجات قرضوں سے ادا کیے جا رہے ہیں، اِس کا ایک ایک لمحہ قومی پیداوار میں بےپایاں اضافے کیلئے تدابیر کو عملی جامہ پہنانے پر صَرف ہونا چاہئے۔ ہمارا بےڈھنگاپن ہمیں تباہی کے دہانے پر لے آیا ہے اور اَسمبلیوں میں شورشرابے اور اور اُن کے نام پر نہ ختم ہونے والے احتجاج پر عالمی برادری پوچھ رہی ہے کہ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں۔؟

بشکریہ روزنامہ جنگ