دوبارہ راستہ نہ کھو دینا : تحریر حسین حقانی


وزیرا عظم شہباز شریف نے جن حالات میں اپنا دور حکومت شروع کیا ہے وہ نہایت گھمبیر ہیں۔ لیکن یہ کسی حد تک ویسے ہی ہیں جن میں ان کے بڑے بھائی، نواز شریف نے چوبیس اکتوبر 1990 ء کے انتخابات کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار سنبھالا تھا۔ اس وقت ملک اقتصادی بحران کی زد میں تھا کیونکہ امریکہ نے جوہری پروگرام کی وجہ سے اس پر پریسلر ترمیم کے تحت معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں اور تمام امداد معطل کردی تھی۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا ،صدام حسین کے کویت پر قبضے کے بعد خلیجی جنگ کے منڈلاتے ہوئے سائے اورکشمیر اور خالصتان کی شورش کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ تناؤ کی وجہ سے پاکستان کے خارجہ تعلقات بھی خطرناک صورت حال سے دوچار تھے۔ داخلی محاذ پر حزب اختلاف 1990ء کے عام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دے کر علانیہ کہہ رہی تھی کہ وہ قومی اسمبلی کو نہیں چلنے دے گی۔ نئے منتخب شدہ وزیر اعظم کو ’’اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا جا رہا تھا کہ انھیں بغیر عوامی حمایت کے مسند اقتدار پر بٹھا دیا گیا ہے۔ انتخابات کے ایک سو دنوں کے بعد نواز شریف کو مقامی اور عالمی میڈیا نے سراہنا شروع کر دیا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے ستائیس فروری 1991 ء کو رپورٹ شائع کی جس کا عنوان ’’حکومت پاکستان کے پہلے ایک سو دنوں کی کامیابی‘‘ تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی ایک مسائل کے باوجود ’’سیاسی تجزیہ کار وںاور سفارت کاروں نے شریف حکومت کے پہلے ایک سو دنوں کو اچھے نمبر دیے ہیں‘‘۔ تینتیس سال پہلے کی یہ رپورٹ پڑھتے ہوئے کچھ آگاہی ملتی ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت کس طرح اچھی شروعات کر سکتی ہے۔ اُن ایک سو کامیاب دنوں کے بعد پیش آنے والے واقعات شہباز شریف کو ان گڑھوں سے خبردار کرسکتے ہیں جن کی وجہ سے حکومت اپنا راستہ کھو سکتی ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتی ہے:’’وزیر اعظم نواز شریف کا ہنی مون شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو چکا۔ جب نواز شریف نومبر 1990 میں جمہوری طریقے سے منتخب ہوئے تو انھیں خلیجی بحران کے اثرات کی وجہ سے تباہ حال معیشت ملی، جرائم کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا تھا اور پاکستان کے دیرینہ اتحادی، امریکہ کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار تھے‘‘۔

اس کے بعد رپورٹ کہتی ہے، ’’شریف کی کامیابیوں میں سے ایک نازک سی کولیشن حکومت کو باہم جوڑے رکھنا بھی شامل ہے جس میں سیکولر پارٹیوں سے لے کر اسلامی نظریاتی جماعتیں تک شامل ہیں۔ انھوںنے دیرینہ حریف، مس بھٹو کی طرف بھی امن کا ہاتھ بڑھایا ہے جن کی حکومت بیس ماہ اقتدار میں رہنے کے بعد برطرف کر دی گئی تھی، اور پھر اکتوبر میں ہونے والے قومی انتخابات میں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں دیدہ سیاست دانوں اور تجربہ کار سرکاری افسروں پر مشتمل کابینہ کی نامزدگی، پاکستان کو آزاد مارکیٹ کی طرف لے جانے کیلئے سرخ فیتے کے خاتمے کے اقدامات ان کی کامیابی ہے۔‘‘

خارجہ پالیسی کے محاذ پر نواز شریف حکومت نے ’’بڑھتے ہوئے داخلی دباؤ کی وجہ سے عراق کے خلاف اتحادی فورس کے حصے کے طور سعودی عرب بھجوائے گئے 11,000 پاکستانی فوجی واپس بلا لیے۔‘‘ انھوں نے ’’بھارت مخالف بیان بازی میں الجھنے سے بھی انکار کر دیا۔ گزشتہ برس جارحانہ بیانات اور الزام تراشی کی وجہ سے پاکستان اور اس کا روایتی حریف چوتھی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔‘‘

ایک ذومعنی تعریف میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے کہا کہ ’’نواشریف کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ وہ زیادہ باتیں نہیں کرتے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی مس بھٹو کی طرح کھل کر بولنے والے رہنماؤں کو پسند کرتے ہیں۔ زیادہ تر سیاست دانوں کے برعکس نواز شریف شرمیلے ہیں اور عوامی سیاست کے روایتی انداز کو ناپسند کرتے ہیں۔ وہ خاموشی سے معاہدے کرنے اور الائنس بنانے کے خواہاں ہیں۔‘‘

مذکورہ رپورٹ کے مطابق، ’’نواز شریف نے نوکر شاہی کے طریق کار اور دیگر رکاوٹوں کو ختم کردیا ہے جو عشروں سے سرمایہ کاری کی راہیں مسدود کیے ہوئے تھیں۔ انھوں نے صنعت کاری کو دیہی علاقوں کی جانب راغب کرنے کیلئے کریڈٹ اینڈ ٹیکس پیکیج کا بھی اعلان کیا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی کرنسی پر عائد وہ ریگولیشنز بھی تحلیل کردیں جوغیر ملکی سرمایہ کاری کو نقصان پہنچا رہی تھیں۔ ایک پاکستانی ماہر معاشیات، غلام رسول کا کہنا ہے کہ صورت حال ناقابل یقین حد تک بہتر ہے۔‘‘رپورٹ نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا، ’’شریف انتظامیہ کو پارلیمنٹ میں ٹھوس اکثریت اور فوج کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اختلاف بہت کمزور اور بکھری ہوئی ہے۔ شریف کی حکومت کیلئے سب سے بڑا خطرہ پاکستان کے معاشی مسائل اور خلیجی جنگ کے مضمرات ہیں۔‘‘

اتنی بڑی تعریف کے چند سال کے اندر اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان نے عدالتی سازش کے ایک کلاسک کیس میں نواز شریف حکومت کو معزول کر دیا۔ تین عوامل حتمی منفی نتائج کا باعث بنے۔ سب سے پہلے، 1991میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ نے اپنی تین سالہ مدت ملازمت میں توسیع کیلئے جوڑ توڑ شروع کر دیا۔ اگرچہ سینئر شریف بیگ کی توسیع سے انکار کرنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن پھر ان کا بیگ کے جانشینوں کے ساتھ مقابلہ ہو گیا۔ دوسرا، اسٹیبلشمنٹ کے چنے گئے احتساب کے مشیر، سدا بہارسرکاری افسر، روئیداد خان نے اس وقت کی قائد حزب اختلاف، بے نظیر بھٹو اور انکے شریک حیات آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے سخت مقدمات بنائے، لیکن ان میں سے کوئی بھی عدالت میں ثابت نہ ہوا۔ ان مقدمات اور زرداری کی قید نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مفاہمت کے دروازے بند کر دیے۔ 1990کے متنازع انتخابات کے زخم مزید گہرے اور دردناک ہوتے گئے۔

تیسرا، کشمیر میں جہاد کو آگے بڑھانے اور افغانستان میں سخت گیر اسلام پسندوں کو اقتدار پر بٹھانے کے ڈیپ اسٹیٹ کے فیصلے نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں رخنہ ڈالا۔ اسکی وجہ سے جوہری پروگرام میں مشکلات مزید بڑھ گئیں۔ سرمایہ کاری کا بہاؤ جس کی توقع مثبت اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے کی گئی تھی، حب الوطنی کے بھڑکے ہوئے جذبات کی نذر ہوگئی ۔ جہادی ماحول نے وہ معاشی تصور بگاڑ دیا جس کی نمائندگی نواز شریف نے کی تھی۔اس سب میں شہباز شریف کیلئے کیا سبق ہے؟ پہلا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جھگڑے سے گریز کریں۔ دوسرا، اپوزیشن کو کچھ جگہ دیں اور تیسرا، پڑوسیوں یا دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ تنازعات کو ہوا دیے بغیر معیشت پر توجہ دیں اور جذباتیت کو ایک طرف رکھیں۔ گڈ لک!

بشکریہ روزنامہ جنگ