اب پاکستان کا مستقبل فاضل اعلیٰ عدالتوں میں طے ہونا ہے۔انتخابی فریادیں زنجیر عدل کھینچ رہی ہیں۔ 25 کروڑ انصاف کے منتظر ہیں۔
یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ احتجاج، ہلڑ بازی چھوڑ کر چپ چاپ جمہوری عمل کا حصّہ بننا چاہئے، عدالتی فیصلوں کا انتظار کرنا چاہئےلیکن یہ انکے دل سے تو پوچھیں، جو 10اپریل2022ءسے سفاکی کا مسلسل سامنا کررہے ہیں۔ جن کے پیارے اٹھائے گئے، کپڑے اتارے گئے، عقوبت خانوں میں ان کے وقار کی تذلیل کی گئی۔ وہ اپنے ان اندھیروں کی بھیانک کہانیاں بیان نہیں کررہے ہیں۔ اس پر انکا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اب اگر انہیں عوام نے اپنا نمائندہ چنا ہے۔ انہیں ایک نئی زندگی ملی ہے، کچھ کہنے سننے کی طاقت نصیب ہوئی ہے۔ کونسی نا انصافی انکے ساتھ نہیں ہوئی۔ پولیس اسٹیشن، مقامی عدالتیں، الیکشن کمیشن ، ہائی کورٹس، سپریم کورٹ کہاں کہاں کے در نہیں کھٹکھٹائے۔
مفاہمت کی بات اب بھی صرف تقریروں میں کی جارہی ہے، عملی طور پر کونسی کوشش کی گئی ہے۔
روپیہ ڈوب رہا ہے، ملک کا استحکام خطرے میں ہے، پانی سر سے اونچا ہورہا ہے،معیشت چیخ رہی ہے، کارخانے سسکیاں بھر رہے ہیں، غربت کی لکیر سے نیچے ہرروز کئی سو پاکستانی جارہے ہیں۔ نئی حکومتیں بننے سے ماضی میں کتنی سرخوشی نظر آتی تھی۔ نوجوانوں کو روزگار کی امیدیں ہوتی تھیں، بازاروں سے اُداسی رخصت ہورہی ہوتی تھی، جس پارٹی کو فتح میسر آتی تھی اس کے قائد کا قوم سے خطاب واہگہ سے گوادر تک پاکستانیوں کے دلوں میں ایک ولولۂ تازہ بھر دیتا تھا۔ جیتنے والوں کے جلوس نکلا کرتے تھے۔ اب تو سڑکوں پر ہرائے گئے زیادہ دکھائی دے رہے ہیں۔
شب تاریک و بیم موج و گردابی چنیں حائل
کجا دانند حال ما سبک سارانِ ساحل ہا
اندھیری رات، دھاڑتی موج کا خوف، ایک ہولناک بھنور،ساحل پر کھڑے فارغ لوگ ہمارے حال سے کہاں واقف ہیں۔ حافظ شیرازی نے صدیوں پہلے یہ شعر کہا تھا۔ جب ساحل پر واقعی تماشائی کھڑے ہوتے تھے۔ اب تو ہم سب بھنور میں گردش کررہے ہیں۔ ہم میں سے بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تیزی سے سفر میں ہیں۔ بعض بھنور کی ایسی سخت جکڑ میں ہیں کہ وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے بھی اہل نہیں رہے ہیں۔مارچ کے مہینے میں یونیورسٹیوں کے کانووکیشن (جلسۂ تقسیم اسناد) منعقد ہورہے ہیں۔ جامعہ ہمدرد میں ہمیں یہ سماں دیکھنے کو ملا۔ دوسری یونیورسٹیوں کے دعوت ناموں سے اندازہ ہو رہا ہے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی، دادا بھائی انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ایجوکیشن۔ بعض کے اخبارات میں ضمیمے شائع ہو رہے ہیں۔ نئی نئی جامعات بڑے کروفر سے تقریبات کا اہتمام کر رہی ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں نوجوان بیٹے بیٹیاں رنگا رنگ گاؤنوں (خلعتوں) میں بہت حسین لگ رہے ہیں۔ انہیں دیکھ کر امید بندھتی ہے کہ اب ہمارا سماج تبدیل ہو جائیگا۔ مگر سماج میں کڑوا پانی اتنا جمع ہو گیا ہے کہ جب یونیورسٹیوں سے اس میٹھے پانی کے دریا سماج کے سمندر میں اترتے ہیں تو وہ بھی کڑوے ہو جاتے ہیں۔ سماج پہلے سے بھی زیادہ تلخ ہوتا جا رہا ہے۔ بے یقینی بد زبانی بڑھ رہی ہے۔
طویل مارشل لاؤں کے بعد اسمبلیوں کے نئے ارکان بھی جب حلف اٹھاتے تھے تب بھی یہی توقع ہوتی تھی کہ اب معاشرہ تبدیل ہو جائے گا، اقتدار کے ایوانوں میں نیا خون گردش کرے گا، قرضے اتریں گے، ملک خوشحال ہو گا، رسمی کارروائیاں چل رہی ہیں، الیکشن کمیشن گریس مارک (رعایتی نمبر) بڑی فراخدلی سے دے رہا ہے۔ اس بار تو ہم نے کھلے عام شکست ماننے والوں کو اگلی صبح مجبوری سے فتح قبول کرتے دیکھا ہے۔
مسند پر بٹھائے گئے لوگوں کو اندازہ ہے کہ انہیں جلتے کوئلوں پر چلنا ہے۔ ساری منصوبہ بندی، انجینئرنگ دھونس دھاندلی کے باوجود حکمراں طبقوں کی معتوب پارٹی کے پاس دوسری ہر پارٹی سے زیادہ ارکان ہیں۔ دوسری طرف ایک دوسرے کو بد عنوان ،کرپٹ کہنے والی پارٹیوں کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ اس اتحاد کا کوئی معاہدہ، اس اشتراک کے کوئی عملی نکات سامنے نہیں آئے۔ یہ پی ڈی ایم بھی نہیں ہے۔ کیونکہ پی ڈی ایم کے سربراہ ہی اس میں نہیں ہیں۔ پی ڈی ایم کے خاتمے کا کوئی باقاعدہ اعلان بھی نہیں ہوا ہے۔ اس مخلوط حکومت کے قیام کی نظریاتی بنیاد کیا ہے۔ کیا یہ صرف نظریۂ ضرورت ہے۔
تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کیلئے وقتی طور پر اکٹھ ہوا ہے۔ کسی داخلہ پالیسی پر کوئی اتفاق، کسی خارجہ پالیسی کیلئے کوئی سوچ بچار، ان پارٹیوں کے معاشی ماہرین کا کوئی اجلاس۔ جس میں کھل کر یہ طے ہوا ہو کہ قرضے کیسے اتارنے ہیں، افراط زر کیسے ختم کرنا ہے، روپے کی قدر کو اوپر کیسے لانا ہے۔ اپنے غریب ہم وطنوں کو غربت کی لکیر سے اوپر کیسے لانا ہے۔5 سال کی کیا ترجیحات ہوں گی۔الیکشن میں دھاندلیاں ہر دَور میں ہوئی ہیں۔ اقتدار حاصل کرنے والی ہر پارٹی نے دھاندلی کا الزام لگانے والوں سے یہی کہا ہے کہ وہ الیکشن ٹریبونل میں جائیں۔ عدالتوں کے دروازے کھلے ہیں لیکن کیا ماضی میں کسی ٹریبونل، کسی عدالت کی طرف سے ایسا فیصلہ آیا ہے جس سے ووٹر مطمئن ہوئے ہوں۔
تاریخ تو اپنے فیصلے کرے گی۔ عوام کی اکثریت نے 8 فروری کو اپنا فیصلہ دے دیا۔ وفاق اور چاروں صوبوں میں حکومتیں بن گئی ہیں۔ صدر کا انتخاب بھی ہونے والا ہے۔ اب فیصلہ کن کردار الیکشن کمیشن، الیکشن ٹریبونل اور عدلیہ کا ہے۔ ذیلی کچہریوں کا بھی، ہائی کورٹوں اور سپریم کورٹ کا بھی۔ سب چاہتے ہیں سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں رہے، بازار وقت پر کھلیں، خرید و فروخت ہو، درسگاہیں اپنے معمولات پورے کریں، رمضان کے مقدس ایّام بھی آرہے ہیں۔ ان کے احترام میں تو غیر مسلم بھی اپنی جارحیت بند کردیتے ہیں۔ پوری دنیا توقع کررہی ہے کہ انسانیت کا سب سے بڑا دشمن اسرائیل بھی رمضان کے دوران فلسطینیوں کی نسل کشی بند کردے گا۔ لیکن تاریخ اور فطرت امت مسلمہ کی بے حسی، غفلت اور عاقبت نا اندیشی کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ مسلم امّہ سے جب تک بادشاہی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ مسلمان ممالک کبھی محفوظ نہیں ہوسکیں گے۔ کبھی ترقی نہیں کرسکیں گے۔وطن عزیز میں عدلیہ کی آزادی کیلئے بہت تحریکیں چلی ہیں لیکن عدلیہ آزاد نہیں ہوسکی ہے۔ یہاں بھی مداخلت بہت زیادہ ہے۔ کہا تو جاتا ہے کہ عدلیہ بھی ہوا کارُخ دیکھ کر فیصلے کرتی ہے۔ اب اکیسویں صدی ہے۔ فیصلے صرف قانون اور آئین کی بنیاد پر ہونا چاہئیں۔ عدلیہ کو کسی بھی فریق کا وکیل نہیں بننا چاہئے۔اب قوم کی سا لمیت، پاکستان کا مستقبل، 60فی صد نوجوان آبادی کا روزگار، غربت کی لکیر سے نیچے دس کروڑ کی تقدیر۔ ملک کے سر سے ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ اتارنے کے سب اقدامات کی چابی ہماری معزز عدلیہ کے پاس ہے کہ وہ عوام کے مینڈیٹ والے ارکان کی رکنیت بحال کرے۔ 25 کروڑ پاکستانی عدلیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سب انصاف کی راہ تک رہے ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ