پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ جب آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوںگے تو انھوں نے وزارت عظمی کا حلف بھی اٹھا لیا ہے اور کام بھی شروع کر دیا ہے۔ دنیا کی جانب سے انھیں وزیر اعظم قبول بھی کر لیا گیا ہے۔
عالمی قوتوں اور پاکستان کے دوست ممالک نے انھیں مبارکبادیں بھی دے دی ہیں۔ شہباز شریف کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو گیا ہے کہ وہ دوسری بار مسلسل وزیراعظم بننے والے پہلے وزیراعظم ہیں۔ ورنہ مسلسل دوسری بار وزیراعظم بننے کا اعزاز کسی کے پاس نہیں ہے۔
شہباز شریف کے لیے یہ وزارت عظمی قبول کرنا کوئی آسان نہیں تھا۔ انھیں علم ہے کہ اس بار یہ کافی مشکل کام ہے۔ پاکستان معاشی طور پر ایسی دلدل میں پھنسا ہوا ہے کہ یہاں سے اس کو نکالنا آسان نہیں ہے۔ معاشی مسائل اب اس نہج پر پہنچ گئے ہیں۔
جہاں سے ان کو ٹھیک نہ کیا گیا تو پاکستان کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو جائے گا۔ اس لیے اب غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شہباز شریف کے دوستوں کی جانب سے انھیں یہ مشورہ دیا گیا کہ پنجاب کی حکومت مل گئی ہے لہذا مرکزی حکومت سے جان چھڑا لی جائے۔
جب پیپلزپارٹی اتحاد بنانے میں مشکلات پیدا کر رہی تھی تب بھی یہی مشورہ دیا گیا کہ جان چھڑالیں۔ لیکن شہباز شریف کا موقف تھا کہ یہ پاکستان ہمارا ہے، اسے ہم ٹھیک نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ جان چھڑا نے سے کیا ہوگا، کیا مسائل حل ہو جائیں گے، اس لیے جان چھڑانا کوئی درست پالیسی نہیں ہے۔ پاکستان کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹھیک پالیسی بنانا ہو گی۔ ہمیں آگے بڑھنا چاہیے اور ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اترنا چاہیے۔ اگر ہم نے بھی حکومت نہ لینے کا آسان راستہ لیا تو پھر پاکستان کا کیا ہو گا۔
لوگ بات کر رہے ہیں کہ شہباز شریف کی پہلی تقریر کے دوران شورکی شدت دیکھیں، انھیں تقریر نہیں کرنے دی گئی۔ ایوان کے حالات دیکھیں، کیسے چلیں گے معاملات۔ میں نے انھیں کہا ہے کہ آپ کے خیال میں شہباز شریف کو علم نہیں تھا کہ شور ہوگا؟ کیا شہباز شریف کو علم نہیں تھا کہ تحریک انصاف والے کیا کریں گے۔ لیکن آپ دیکھیں شہباز شریف نے اپنی تقریر پوری کی ہے۔
انھوں نے عمران خان کی طرح اپنی تقریر آدھی نہیں چھوڑ دی ہے۔یہی فرق سمجھیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ شور کی وجہ سے عمران خان نے اپنی تقریر آدھی چھوڑ دی تھی۔ شہباز شریف نے شور کے باوجود تقریر پوری کی ہے کیونکہ شہباز شریف کام پورا کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ وہ راستے کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کام پورا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی فرق ہمیں اس بار نظر آئے گا۔
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ہم نے شہباز شریف کو سولہ ماہ بطور وزیر اعظم دیکھ لیا ہے، جب وہ سولہ ماہ میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے تو اب کیا کر لیں گے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاست کی بجائے ریاست بچانے والی بات کو عام آدمی اس طرح نہیں سمجھتا، اسے اپنے مسائل سے غرض ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے مسائل حل نہیں ہوئے ہیں۔عام آدمی کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ اس کے مسائل کیوں نہیں ہو سکے ہیں۔
وہ مسائل نہ ہونے کے حوالے سے حکومت کی کوئی توجیح ماننے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن میری دوستوں سے گزارش ہے کہ اس بار آپ کو ایک مختلف شہباز شریف بطور وزیر اعظم دیکھنے کو ملے گا۔ پچھلی دفعہ تحریک انصاف نے ہر کوشش کی کہ شہباز شریف کام نہ کرسکیں۔ لانگ مارچ، دھرنے، استعفے اورعدالتوں میں درخواست بازی سمیت وہ سب کام کیے جن سے حکومت چل نہ سکے۔
پہلے صوبائی حکومتوں کے ذریعے وفاقی حکومت کو نہ چلنے دینے کی پالیسی بنائی گئی۔ پھر صوبائی حکومتوں کو توڑ کر مرکزی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کی پالیسی بنائی گئی۔ پنجاب میں بحران قائم رکھا۔ یہ سب صرف اس لیے کیا گیا کہ وفاقی حکومت کو کام نہ کرنے دیا جائے۔ جانے سے پہلے آئی ایم ایف کی ڈیل توڑ دی گئی تا کہ آنے والی حکومت کے لیے مسائل بڑھ جائیں ۔ پھر صوبائی حکومتوں کے ذریعے آئی ایم ایف کی ڈیل کو سبوتاژ کرنے کی بھر پو رکوشش کی گئی تا کہ وفاقی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جا سکے۔
اس لیے جن سولہ ماہ کی سب بات کرتے ہیں ان سولہ ماہ میں شہباز شریف کو کام کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ایک طرف انھوں نے سیاسی محاذ پر مسائل کا سامنا کرنا تھا ، دوسری طرف معاشی محاذ پر بھی باردوی سرنگوں سے پاکستان کو بچانا تھا۔ اس لڑائی میں تحریک انصاف کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کا کتنا بڑا نقصان کر رہی ہے۔ انھیں صرف اقتدار کی ہوس تھی اور وہ اس ہوس میں اندھے ہو گئے تھے۔انھیں جب بھی انتخابات کی تاریخ کی پیشکش کی گئی انھوں نے قبول نہیں کی کیونکہ وہ شہباز شریف سکون سے ایک ماہ کی حکومت بھی نہیں دینا چاہتے تھے۔
اس بار ایسا نہیں ہے۔ عمران خان وہ فساد کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جو انھوں نے گزشتہ سولہ ماہ میں قائم رکھا۔ وہ جیل میں ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت بھی اب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ملک میں کوئی بڑی تحریک چلا سکے۔ سیاسی طو رپر ان کی جماعت کافی کمزور ہوچکی ہے۔ ایک موقع پر ان کی پاکستان میں پانچ حکومتیں تھیں۔ وہ کہتے تھے کہ اسلام آباد کی حکومت چلی بھی گئی ہے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ اسلام آباد کے چاروں طرف میری حکومتیں ہیں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اب اسلام آباد کی چاروں طرف اسلام آباد کی حامی حکومتیں ہیں۔
اس لیے اسلام آباد کی حکومت کوئی کمزور پوزیشن میں نہیں ہے۔ سب سے بڑا فرق پنجاب ہے۔ پنجاب اور اسلام آباد دونوں جگہ ن لیگ کی حکومت ہے۔ اس لیے اس بار شہباز شریف کمزور نہیں ہیں، اس لیے اس بار ہمیں ایک مختلف شہباز شریف کو دیکھنے کو ملے گا۔ جیسا شہبا زشریف ہمیں بطور وزیر اعلی دیکھنے کو ملتا تھا۔ ویسا ہی بطور وزیراعظم دیکھنے کو ملے گا۔ صورتحال اور ماحول میں فرق ہے۔
تب عہدہ سنبھالتے ہی جانے کی باتیں شروع تھیں۔ پہلے حکومت گرانے والے کافی تھے۔ اب گرانے والے خود گر چکے ہیں۔ وہ اسٹبلشمنٹ بھی چلی گئی ہے جو وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی تھی۔ ہمیں ماننا پڑے گا جنرل باجوہ کی اسٹبلشمنٹ کی خواہش نے بھی ملک میں سیاسی بحران کو بڑھایا۔ وہ بھی بحران کوقا ئم رکھنا چاہتے تھے۔ اب یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ عمران خان کے دونوں لانگ مارچز کے پیچھے وہی تھے، وہ اپنی توسیع کے لیے ماحول کو گرم رکھ رہے تھے۔
عمران خان کو شہباز شریف سے اور شہباز شریف کو عمران خان سے ڈرا کر اپنی توسیع چاہتے تھے۔ جس میں وہ ناکام ہوئے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اب ایسا کوئی بحران نہیں ہے۔ آج کی اسٹبلشمنٹ وکٹ کی دونو ں طرف نہیں کھیل رہی۔ حقیقت یہی ہے کہ شہباز شریف ہی پاکستان کو معاشی مسائل کا حل کر سکتے ہیں۔ اس لیے اب صرف معاشی مسائل کے حل پر کام ہوگا۔ سیاسی بحران پیدا کرنے والوں کو اب وہ طاقت حاصل نہیں جو انھیں ماضی میں حاصل تھی۔ مجھے امید ہے کہ اس بار ہمیں ایک مختلف وزیراعظم دیکھنے کو ملے گا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس