رعایتی نمبر….تحریر: محمد اظہر حفیظ

ہمارے تعلیمی دور میں 100 میں سے 33 نمبر لینے والا پاس ہوتا تھا۔ 30 نمبر لینے والے کو استاد تین نمبر رعایتی دے کر 33 پورے کر دیتے تھے اور نالائق طالب علم بھی پاس ہوجاتا تھا۔
نیشنل کالج آف آرٹس میں ہمارے ساتھی طالب علم افتخار احمد عباسی جو کہ آٹھ مضامین میں سے پانچ میں فیل ہوگئے تھے اور انکو کالج سے نکال دیا گیا ۔ انھوں نے پرنسپل ساجدہ حیدر ونڈل صاحبہ کو گن پوائنٹ پر انکے دفتر میں یرغمال بنا کر رعایتی نمبر لینے کی کوشش کی تو میڈیم نے اس کو بتایا کہ ایک دو سبجیکٹ میں رعایتی نمبر مل سکتے ہیں پانچ میں ممکن نہیں ہوتے وہ غصے میں میڈیم کے پرس میں موجود تیرہ سو روپے لیکر چلتے بنے۔
موجودہ الیکشن میں بھی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کو 30 نمبر لینے پر تین رعایتی نمبر دے کر وقت کے موجودہ استادوں نے پاس کردیا۔
یوں سب برابری کی سطح پر آگئے نہ کوئی فرسٹ آیا اور نہ ہی کوئی فیل ہوا۔ چار صوبوں میں سے ایک ایک صوبہ سب کے ہاتھ آگیا اور چوتھا مل بانٹ کر تقسیم کرلیا گیا۔ مرکز میں دو رعایتی نمبر والوں نے کل ملا کر 66 نمبر حاصل کئے اور حکومت بنا لی۔
اتنے لائق لوگوں کیلئے سب جگہ حکومت بنانا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے مل بانٹ کر کام چلا لیں گے لڑائی کی صورت میں پھر ایک رعایتی نمبر جو فارغ اس کے ساتھ ملکر ایک نئی حکومت بن جائے گی۔
ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ رعایتی نمبروں والے کبھی رعایت نہیں کرتے۔ چاہے وہ بجلی کے بل ہوں یا گیس کے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔
خود رعایتی نمبروں پر آنے والے ہمیشہ میرٹ کی بات کریں گے اصولوں کی بات کریں گے۔ سنا ہے کہ ڈاکوؤں کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں وہ اپنے کام میں بددیانتی نہیں کرتے بہت ایمانداری کے ساتھ ڈاکے ڈالتے ہیں۔
فلم سرفروش کا ڈائیلاگ یاد آگیا جب چور کسی کے گھر چوری کرنے جاتے ہے تو نماز کا وقت ہوتا ہے چور جائے نماز بچھا کر نماز شروع کر دیتا ہے نماز ختم کرکے سلام پھیرتا ہے تو گھر کی ایک لڑکی جو ہیروئن تھی اٹھ جاتی ہے ۔ وہ اس سے پوچھتی ہے تم کون ہو ۔ وہ کہتا ہے چور۔
لڑکی کہتی چور ہوکر نماز بھی پڑھتے ہو۔ چور کہتا ہے بی بی نماز مجھ پر فرض ہے اور چوری میرا پیشہ ہے۔
شکر الحمدللہ ہمارے سارے رعایتی نمبر والوں پر نماز بھی فرض ہے۔
لاہور میں ایک خاتون عریبک کیلیگرافی والا سوٹ زیب تن کیے ہوئے رعایتی نمبر والے عالموں کو نظر آگئی ۔ایک بہادر خاتون افسر کی دانش مندی سے اس کی جان بچ گئی۔ شکر الحمدللہ ۔ میں سکتے میں تھا نہ رو سکتا نہ بول سکتا تھا کہ چھوٹے بھائیوں جیسے دوست حسن رضا چیمہ کا ایک سٹیٹس نظر سے گزرا تو میں واپس ہوش میں اگیا۔ سٹیٹس تھا کہ ایسی قوم جو دبئی یا سعودیہ میں جب بس یا ٹرین میں سفر کرتی ہے تو عریبک زبان میں سٹاپ کا نام بتایا جاتا ہے کہ کونسا سٹاپ آیا ہے یا اگلا کونسا ہے تو یہ ہاتھ اٹھا کر با آواز بلند آمین آمین پکارتے ہیں اس کے رعایتی نمبروں کا اندازہ ہوجاتا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں الیکشن ہوچکے ہیں چاروں صوبوں اور مرکز میں حکومتیں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ ہر اجلاس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا ہے تاکہ مکمل کاروائی کو ہم جیسے رعایتی نمبر لینے والے لوگ عبادت سمجھ کر بلند آواز سے آمین آمین پکارتے رہیں ۔
کیونکہ رعایتی نمبروں والی عوام کے حکمران بھی رعایتی نمبر والے ہی ہوتے ہیں۔
مجھے نہیں پتہ پچھلے چون سال میں میری زندگی کے حکمران کون تھے ۔ بس یہ پتہ ہے سب رعایتی نمبروں سے آئے تھے۔ یقین رکھنا رعایتی نمبروں والا کبھی ایکسیل نہیں کرسکتا اس لیے ملک بھی رعایتی نمبروں پر ہی چلتا ہے۔ میرا بھائی پرنٹنگ کے شعبہ سے وابستہ ہے کہتا ہے اگر پرنٹنگ میں کوئی غلطی ہو تو آیت الکرسی پڑھ کر کلائینٹ کو دے دو تو اس کو غلطی کا پتہ نہیں چلتا ۔ میں یہ بات سن کر مسکرا دیا کہ پاکستان کے سارے محکمے آیت الکرسی پڑھ کر ہی چل رہے ہیں ۔ورنہ اتنی غلطیاں چھپانا ممکن نہیں۔ بے شک اللہ ہی ہے جو اس ملک کو چلا رہا ہے۔ ورنہ رعایتی نمبر والوں کے بس کی بات نہیں۔
پاکستان ژندہ باد