ایک شخص عوام کو محبوب کیوں ہے؟ : تحریر محمود شام


ولادی میر لینن یاد آرہے ہیں:’’ کئی دہائیاں ایسی ہوتی ہیں جہاں کچھ رُونما نہیں ہوتا۔ کچھ ہفتے ایسے آتے ہیں جہاں دہائیاں رُونما ہونے لگتی ہیں۔‘‘

اب ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر ہیں جب ہر روز دہائیاں ہی نہیں صدیاں واقع ہورہی ہیں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی وہ ساعتیں لے کر آگئی ہے جن کا انتظار ہم برسوں سے کررہے تھے۔ اب جو کچھ ہورہا ہے یہ سب تاریخی بھی ہے، منطقی بھی۔ اس قریۂ سفاک میں یہ سب کچھ اسی طرح ہونا تھا۔ سوچنے سمجھنے والے بہت پہلے خبردار کررہے تھے مگر ہمارے حکمران طبقے ان سب پیش گوئیوں کو ملکی سلامتی کی گرد میں چھپادیتے تھے۔ عمر بھر کی ناکامیوں اور نا انصافیوں کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ خدا کا شکر ہے زندہ تھے تو دیکھ لیا کیسے ارب پتیوں کے خواب چکنا چور ہورہے ہیں۔ اپنے آپ کو عقل کُل سمجھنے والے کس طرح بے بس نظر آرہے ہیں۔ توپ و تفنگ عجز کا شکار ہیں۔ بے نواغلبہ پارہے ہیں۔ حکمرانوں کے گماشتے ’انا الحق‘ کی صدا بلند کررہے ہیں۔

عالمی سطح پر سمجھا جاتا تھا کہ امریکہ جو چاہتا ہے کرسکتا ہے۔ وطن عزیز میں مقتدر اداروں کے بارے میں بھی یہی گمان یقین کی حد تک رہتا تھا کہ وہ حالات کا رُخ جدھر چاہیں موڑ سکتے ہیں۔ اب جب میں 20فروری کی دوپہر کویہ تحریر سپرد قرطاس کر رہا ہوں یوم انتخاب کو دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ مگر طے نہیں ہوسکا کہ وزارتِ عظمیٰ کی شیروانی کس کو فٹ آئے گی۔ چوتھی بار وزیر اعظم بننے کیلئے سودے بازی، منصوبہ بندیاں ہنوزبے نتیجہ ہیں۔جو سپریمو تھے اور جو ملک کی تقدیر چوتھی بار بدلنے آئے تھے وہ اب جاتی امراتک محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پی ڈی ایم کا دوسرا دَور تو کیا شروع ہوتا۔ پی ڈی ایم کے تاحال سربراہ نے تحریک عدم اعتماد کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا ہے۔ مہذب ملک ہوتا تو پی ڈی ایم کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا جاتا اور جو بھی تحریک عدم اعتماد میں پیش پیش تھے وہ بھی پشیمانی کا اظہار کرتے اور جن پر اس کی تحریک کا الزام دھرا جارہا ہے وہ بھی قوم سے معافی مانگتے۔

یہ اگرچہ انتشار اور تذبذب کی ساعت ہے۔ لیکن طاقت ور بے بس کیوں ہوئے ہیں۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پاکستان کے عوام واہگہ سے گوادر تک بیدار ہوگئے ہیں۔ ان کے مینڈیٹ پر پہلے بھی ڈاکے ڈالے گئے۔ پہلے بھی نتیجے بدلے گئے۔ مگر اس بار رائے عامہ استقامت پکڑ گئی ہے۔ سمجھوتہ نہیں ہورہا ہے۔ حکمران طبقے اپنی شکست کوفتح میں بدلنے سے بھی خوف زدہ ہیں۔ یہ ہفتے ایک طرف تو ثابت کررہے ہیں کہ یہ سب افسانے تھے کہ امریکہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ پاکستان کا مقتدر طبقہ بھی جو ٹھان لے اس میں کامیاب ہوسکتا ہے۔ ان مفروضوں کی قلعی کس نے کھولی ہے۔ عوام کے شعور نے۔

اب آگے کیا ہے۔ سوال یہی ہے مورخوں کی نظر میں، مقتدروں کے ذہن میں، عوام میں یہ شعور کس نے پیدا کیا ہے۔ اس شعور کو راستہ کس میڈیا نے دیا ہے۔ سوشل میڈیا تو سب کے تسلط میں تھا۔کروڑوں ڈالر تو سب کے پاس تھے۔ بین الاقوامی طاقتیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہ اپنے خواب کی تعبیر کیوں نہ پاسکے۔

ایک شخص جس کو کئی مہینوں سے جیل میں ڈالا ہوا ہے۔ جس کا نام لینے پر پابندی ہے۔ جس کے جلسے جلوس نہیں ہونے دیے گئے۔ جس کا انتخابی نشان چھین لیا گیا۔ وہ پھر بھی عوام کے دلوں میں کیوں بس رہا ہے۔ تاریخ بھی یہ بتانا چاہتی ہے ۔جغرافیہ بھی یہ سب کچھ سمجھ رہا ہے۔ افراد فانی ہوتے ہیں۔ لیکن جب کوئی فرد تاریخ اور منطق کے تناظر میں سوچنے لگتا ہے۔جب وہ وقتی خوف اور ہیبت سے بے نیاز ہوجاتا ہے تو وقت کا دھارا اور منظروں کی چابی اس کے ہاتھ میں آجاتی ہے۔ بر صغیرمیں قیام پاکستان کے بعد بھی تاریخ، منطق اور فرد کا امتزاج ہوتا رہا ہے۔ جسے اس قریۂ سفاک میں پسند نہیں کیا گیا۔ جاگیرداروں، سرداروں، سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں، انتخابیوں اور مقتدروں نے اکٹھے ہوکر تاریخ منطق اور فرد کا بہاؤ روکا ہے۔ وقتی طور پر یہ سمجھا گیا کہ تاریخ کا پہیہ پیچھے دھکیلا جاچکا ہے۔ سچائی، تہذیب اور شائستگی پسپائی اختیار کرچکی ہے۔ لیکن اس بار منطق، تاریخ اور افرادی قوت کو سوشل میڈیا کی طاقت میسر آگئی ہے۔ پہلے پیغام سینہ بہ سینہ چلتے تھے۔ اب پیغام اسکرین بہ اسکرین چل رہے ہیں۔

پاکستان کے سنجیدہ حلقوں میں،بیرون پاکستان، غیر ملکی یونیورسٹیوں میں تو یہ تجزیہ ہورہا ہے کہ عوام اس ایک شخص سے عشق کیوں کررہے ہیں۔ وہ اس کا جائزہ پاکستان، جنوبی ایشیا اور عالمی تناظر میں لے رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اکثریت کا یہ پیار تاریخ اور منطق کے برعکس نہیں ہے۔ 1985 سے خاص طور پر جو حکومتی انتظامات بھی ہوئے ہیں۔ وہ پاکستانیوں کی اکثریت کی رائے کے خلاف ہوئے ہیں۔ اقتصادی پالیسیوں کا دیوالیہ پن تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسّی کی دہائی سے غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ 25 کروڑ میں سے 10 کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ یہی وہ خاندان ہیں جہاں پیدائش کی شرح بھی زیادہ ہے۔ غربت کی لکیر سے اوپر اٹھانے کی نام نہاد کوششوں سے یہ تعداد کم نہیں ہوئی۔ غریب خاندان مزید غریبوں کو جنم دے رہے ہیں۔ ان میں ہی نوجوانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ یہ نوجوان میرٹ کا قتل دیکھ رہے ہیں۔ ان کے ذہن پہلے سے ہی حکمران طبقوں کو ان کی غربت اور ذلت کا ذمہ دار سمجھتے تھے۔ ان کے دماغوں میں جو چل رہا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے۔

ہر دو تین سال بعد الیکشن کے ذریعے نوجوانوں کو بظاہر اظہار کا موقع دیا جاتا تھا۔ لیکن نتائج بدلنے پر انہیں بزور بازو خاموش کردیا جاتا تھا باریاں لینے والے اپنی باری لے کر مطمئن ہوجاتے تھے۔ 2018 میں مقتدر ایک شخص کو اپنا سمجھ کر لے کر آئے۔ یہ فرد بھی مطمئن تھا کہ وہ ایک پیج پر ہیں۔ وہ غیرمقبول ہورہا تھا لیکن جب راستے بدلے گئے تو اپریل 2022 میں عوام نے یہ محسوس کیا کہ قیادت بدلنے کا اختیار ہمیں نہیں دیا گیا۔ تو اس دن سے ان کی ہمدردیاں اس ایک شخص کے ساتھ ہوگئیں اور اس شخص نے بھی دل سے محسوس کیا کہ اقتدار عوام کے ذریعے ملتا ہے، اداروں کے ذریعے نہیں۔ پھر اس کی استقامت، بیانات دیکھ لیں، جیل سے وہ کوئی ڈیل کرکے بیرون ملک نہیں جارہا ہے، عوام اسے اپنی مزاحمت کا ا ستعارہ خیال کرنے لگے ہیں۔ صرف ملکی تناظر میں نہیں بلکہ عالمی سیاق و سباق میں بھی۔ اس کی پارٹی سے سارے گماشتے از خود نکل گئے ہیں۔ تاریخ اور منطق کا یہ تقاضا ہے کہ عوام کی پسند کو تسلیم کیا جائے۔ بہتری اور ملکی سلامتی اسی میں ہے عوامی سیلاب کی مزاحمت نہ کی جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ