حکومت سازی کتنی مشکل : تحریر مزمل سہروردی


ایک سوال سب پوچھ رہے ہیں کیا وفاقی حکومت بن جائے گی؟ میں نے دوستوں کو بہت بتایا ہے کہ رورو کر بن جائے گی۔ ایک جماعت بہت روئے گی۔ بلاول شور بھی بہت مچائے گا اور حکومت کا حصہ بھی بن جائے گا۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (ن) کا دل اپوزیشن میں بیٹھنے کو چاہتا ہے لیکن وہ مرکز میں حکومت بنانے پر مجبور ہیں۔

اس مجبوری کا ان کے پاس کوئی حل نہیں اس لیے وہ حکومت بنائیں گے۔ وفاقی حکومت مسلم لیگ کی ہی ہوگی۔ وزارت عظمی ان کی ہوگی، اس میں کوئی ابہام نہیں۔ پیپلزپارٹی تمام تر شور کے بعد ان کی حمایت کرے گی اور زیادہ تر شرائط بھی مسلم لیگ (ن) کی ہی مانی جائیں گی۔ لیکن شور پیپلزپارٹی زیادہ مچائے گی۔

اب یہ سوال بھی بہت پوچھا جا رہا ہے کہ یہ جو حکومت بن رہی ہے یہ کب تک قائم رہے گی۔ پیر پگاڑا کے اس بیان کے بعد کہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہوگی یہ تاثر بہت مضبوط ہو گیا ہے کہ یہ نہ صرف ایک کمزور حکومت ہو گی بلکہ زیادہ دیر تک قائم بھی نہیں رہ سکے گی۔ ابھی حکومت بنی نہیں تو اس کی مدت کے بارے میں سوال پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ حکومت دس ماہ بھی نہیں چلے گی کوئی ایک سال کی بات کرتا ہے۔ اس طرح نئے انتخابات کی تاریخ پر بھی شرطیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ لوگ پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کب ہوں گے نئے انتخابات۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر مخلوط حکومت بن بھی گئی تو کتنی اور کیسے چلے گی۔

دوسری طرف صوبوں میں مضبوط حکومتیں بن رہی ہیں۔ پنجاب میں پاکستا ن مسلم لیگ (ن) کی اکثریت ہے۔ اس لیے پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ایک مضبوط حکومت بننے جا رہی ہے۔ وہ کسی کے محتاج نہیں ہوں گے، ان کے حلیف ہونگے لیکن کوئی بھی حلیف اس پوزیشن میں نہیں ہوگا کہ اس کے ناراض ہونے سے پنجاب کی حکومت گر جائے۔

مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلی نامزد کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے بظاہر انتقال اقتدار شروع بھی کر دیا ہے۔ افسر شاہی نے انھیں ہی اب وزیر اعلی سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ سب نے ان کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں انتقال اقتدار شروع ہو گیا ہے۔ اس لیے پنجاب کی صوبائی حکومت کے حوالے سے بھی کوئی ابہام نہیں ہے۔ پنجاب محفوظ ہے۔

اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی کی ایک مضبوط حکومت بن رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ پیپلزپارٹی نے ابھی تک وزیر اعلی کا اعلان نہیں کیا۔

یہ بھی ممکن ہے کہ جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اور جب آپ پڑھ رہے ہیں تب تک اعلان ہو بھی جائے۔ لیکن پیپلزپارٹی جس کا بھی اعلان کرے گی وہ آسانی سے منتخب ہو جائے گا۔ نمبر پورے ہی نہیں بلکہ زیادہ ہیں۔ اس لیے سندھ میں بھی حکومت سازی کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے۔ وہاں بھی ایک محفوظ حکومت بننے جا رہی ہے۔ سندھ کو کسی بھی پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر وہ کسی کو شامل کریں گے بھی تو وہ ان کی حکومت کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔

کے پی میں بھی تحریک انصاف کے حامی ارکان کی اکثریت ہے۔ وہاں بھی تحریک انصاف کو حکومت بنانے میں کوئی مشکل نظر نہیں آرہی۔ صرف بانی تحریک انصاف کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو وزیر اعلی نامزد کیا گیا ہے۔ ان کی نامزدگی پر کچھ اعتراضات ہیں۔ ایک سوال ہے کہ کیا ریاست ان کو وزیر اعلی بننے دے گی۔

اگر نہیں بننے دی گی تو کیسے روکے گی۔ لیکن وہاں تحریک انصاف ایک محفوظ پوزیشن میں ہے۔ جو بھی بنے گا وہ تحریک انصاف سے ہی ہوگا۔ اس لیے کے پی کا منظر نامہ بھی کافی واضح ہے۔ تحریک انصاف ارکان میں کوئی ٹوٹ پھوٹ بھی نظر نہیں آئی۔ اس لیے مجھے وہاں بھی حکومت سازی میں کوئی مشکل نظر نہیں آرہی۔نام بدل بھی سکتا ہے۔ لیکن جو بھی ہوگا تحریک انصاف سے ہی ہوگا۔

بلوچستان میں بھی منظر نامہ کافی صاف ہے۔ وہاں تین بڑی جماعتیں ہیں ۔ دو مل جائیں گی تو حکومت بن جائے گی۔ اس لیے وہاں حکومت سازی میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ جیسا اتحاد مرکز میں ہو گا ویسا ہی بلوچستان میں بن جائے گا۔ مجھے وہاں حکومت بننے میں کوئی مشکل نظر نہیں آرہی۔ اگر پیپلزپارٹی مرکز میں ن لیگ کو ووٹ دے گی تو بلوچستان میں واپس لے لے گی، اس لیے کوئی مشکل صورتحال نہیں ہے۔

اس طرح چاروں صوبوں میں حکومتوں کا منظر نامہ کافی واضح ہو گیا ہے۔ وہاں کسی بھی شکل میں انتقال اقتدار بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس طرح مرکز اور صوبوں کی سیاست میں بہت فرق نظر آرہا ہے۔

سیاسی جماعتیں صوبوں میں تو حکومت بنانے کے لیے تیار نظر آرہی ہیں۔ لیکن وہی سیاسی جماعتیں مرکز میں حکومت بنانے سے اجتناب کر رہی ہیں۔

صوبے کی وزارت اعلی لینے کے لیے سب تیار ہیں۔ وزارت عظمی کے لیے کوئی تیارنہیں۔ایک دوست کے مطابق صوبے کی وزارت اعلی سیاسی جنت بن گئی ہے۔ جب کہ مرکز کی وزارت عظمی ایک قبرستان بن گئی ہے۔ جہاں کوئی بھی اپنی سیاسی قبر بنانے کے لیے تیار نہیں۔ دیکھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہے۔ کیوں سیاسی جماعتیں مرکز سے جان چھڑا رہی ہیں اور صوبوں میں زندگی ڈھونڈ رہی ہیں۔

جہان تک مرکز کا تعلق ہے تو میری رائے میں وہاں حکومت بن جائے گی۔ دوبارہ انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔ پیپلزپارٹی کافی نخرے کر کے حمایت کر دے گی۔ ن لیگ کی بھی کوشش ہوگی کہ پیپلزپارٹی کے کم سے کم نخرے برداشت کیے جائیں۔ لیکن دونوں جماعتوں کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ دونوں کو مل کر حکومت بنانی ہے۔ اس لیے مجھے کوئی ابہام نہیں کہ حکومت بن جائے گی۔

جہاں تک اس تاثر کا تعلق ہے کہ جو بھی حکومت بنے گی وہ چند ماہ کی مہمان ہوگی۔ مجھے ایسا نہیں لگتا۔ میری رائے میں حکومت بننا ضرور مشکل نظر آرہا ہے۔ لیکن ایک دفعہ جب حکومت بن جائے گی تو اسے گرانا ممکن نہیں ہوگا۔حکومت گرانے کے لیے کسی کے پاس ووٹ بھی پورے نہیں ہونگے۔ جیسے آج بنانے کے لیے نہیں ہیں۔پھر گرانے کے لیے بھی نہیں ہونگے۔ ویسے بھی گرانے کے لیے جس آشیر باد کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہوگی۔

حکومت مدت پوری کرے گی کیونکہ مقتدر حلقے حکومت کو گرانے میں نہیں بلکہ چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کی اس دلچسپی کو کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس لیے مجھے لگتا ہے کہ پارلیمان مدت پوری کرے گی اور حکومت بھی مدت پوری کرے گی۔ ابھی جو اندازے لگائے جا رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس