پاکستان کو عدم استحکام، سیاسی انتشار، اقتصادی تباہ حالی اور ہمہ جہتی زوال کی دلدل میں جھونکنے کا جو عمل 2014کے چار ماہی دھرنوں سے شروع ہوا تھا، 8 فروری 2024 کے انتخابات کے بعد بھی تھمتا یا کسی کنارے لگتا دکھائی نہیں دیتا۔ ساڑھے چھ برس سے اس حرماں نصیب ملک نے سُکھ کا سانس نہیں لیا۔ نوازشریف کے خلاف سازش تیار کرنے اور اُسے کامیابی سے پایۂِ تکمیل تک پہنچانے والے سارے کردار اپنے گھروں میں بیٹھے، بھاری بھرکم عہدوں سے جڑی مراعات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ زخم خوردہ پاکستان کوئی زنجیرِ عدل نہیں ہلا سکتا نہ سنگین مسائل سے دوچار ہوجانے والے چوبیس کروڑ عوام کسی بارگاۂِ عدل کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔ ہمارے آئین کا کوئی جابر نوشتہ اُن پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا اور کسی قانون میں یارا نہیں کہ اُن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔ رنگا رنگ عصبیتوں اور فکری آلائشوں میں لت پت دانشوروں میں سے کوئی نہیں جو یہ سوال اٹھائے کہ چند خدافراموش ججوں، جرنیلوں اور ابلاغیاتی خبرتراشوں نے ایسا کیوں کیا؟ نوازشریف تو پوچھتے پوچھتے تھک گئے کہ ’’مجھے کیوں نکالا۔‘‘ پاکستان مسلسل دُہائی دے رہا ہے کہ میرا یہ حشر کیوں کیا، لیکن اُس کی صدا بھی صحرا کی گونج بن چکی ہے۔ جس ’’شہزادۂِ خوش جمال‘‘ کے لئے یہ سب کچھ کیاگیا وہ جیل میں ہے لیکن اُس کی بارودپاشی آگ کو ٹھنڈا نہیں ہونے دے رہی۔ بامشقت قید صرف چوبیس کروڑ پاکستانیوں کے حِصّے میں آئی ہے۔
90 سے زائد، تحریکِ انصاف سے جُڑے آزادوں کی جیت، ہر اعتبار سے ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس کامیابی کی کوکھ سے، ماضی کی کثافتوں سے پاک ایک نئی پی۔ٹی۔آئی جنم لے سکتی تھی۔ ایسی پی۔ٹی۔آئی جو اپنے پَروں سے 9مئی کا گردووغبار جھاڑ کر نئی اڑان بھرتی۔ رونقِ زنداں بنا شہزادۂِ خوش جمال اعلان کرتا کہ ’’انتخابی عمل پر شدید تحفظات کے باوجود میں ملک وقوم کی خاطر نتائج کو تسلیم کر رہا ہوں۔ نومنتخب ارکان وسیع تر قومی مفاد کے پیش نظر اپنے مثبت کردار کا تعّین کریں۔ تمام تر تلخیوں کو بھلا کر پائیدار حکومت کے لئے دوسری جماعتوں سے ہاتھ ملائیں تاکہ ملک سیاسی استحکام سے ہم کنار ہو اور عوام کو مسائل کے جہنم سے نجات ملے۔‘‘ ایسا نہ ہوا۔ صحافیوں کے مطابق پہلا تبصرہ یہ تھا ، ’’پھر منی لانڈررز کو لے آئے ہیں۔‘‘ دوسرا فرمانِ امروز یہ جاری ہوا کہ دونوں بڑی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سے کسی قیمت پر ہاتھ نہیں ملانا۔ خیبرپختون خوا میں افق تا افق پی۔ٹی۔آئی کے حمایت یافتگاں چھائے ہوئے تھے۔ ان میں دھیمے لہجے والے ایسے ارکان بھی تھے جو سیاسی بخیہ گری کی صلاحیت رکھتے تھے۔ لیکن تیسرا فرمان یہ جاری ہوا کہ گنڈاسا مزاج علی امین گنڈا پور خیبرپختون خوا کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ لب ولہجہ کی زہرناکی میں بھی رتی برابر فرق نہیں پڑا۔ ہفتہ بھر قبل بلاول بھٹو زرداری کی پریس کانفرنس میں شاید ہی پی۔ٹی۔آئی پر کوئی ناروا حملہ کیا گیا لیکن سرشام تحریکِ انصاف نے تحریری ردّعمل جاری کیا۔ ذرا اسلوبِ بیان کی شائستگی وشگفتگی پر ایک نگاہ ڈالئے اور سوچئے کہ کیا ایسی تیزاب پاش سوچ سے کسی صلح جوئی کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ فرمایا’’ عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد پی۔ڈی۔ایم کے کل پُرزوں نے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے نئے ناٹک کا آغاز کردیا ہے۔زرداری کے فرزند کی سوچ جمہوری ہوتی تو جاتی امرا کے قذاقوں کے ساتھ مک مکا کی نئی مہم چلانے کے بجائے تحریک انصاف کو میسّر عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے۔۔ عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرنے کے حوالے سے زرداری کے فرزند کی جماعت سیاہ تاریخ کی حامل ہے۔زرداری کا فرزند، زرداری کے اشاروں پر اپنی خاندانی اور موروثی سیاست کو ننگی بددیانتی اور اقتدار کی بندربانٹ کے ذریعے زندہ رکھنے کی کوشش کررہا ہے۔ قوم کی آئندہ نسلوں کو گروی رکھ کر اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے مکروہ منصوبے عوام خاک میں ملا دیں گے۔ ان کی ہر سازش اور پسِ پَردہ مک مکا کا توڑ نکالیں گے اور ملک وقوم کو ان کے شر سے محفوظ بنائیں گے۔‘‘
میں نے اپنے گزشتہ کالم میں افہام وتفہیم سے عاری، تصادم وپیکار پر مبنی اس سوچ کو ’’بارودخانہ‘‘ کا نام دیا تھا۔ یہ بارود ابھی سے سلگنے لگا ہے۔ اس بارود خانے کا حکومت سے کچھ لینا دینا ہے نہ حزب اختلاف سے۔ عوامی مسائل کی چارہ گری سے نہ پاکستان کے زخموں کی مرہم کاری سے۔ سیاسی استحکام سے نہ معاشی انتظام کاری سے۔ اس سوچ کو ہر آن فتنہ وفساد کی کسی لہر کی ضرورت ہے یہی اس کے وجود کا جواز اور جوہرِ حیات ہے۔ یہ ’’بارود خانہ‘‘ پارلیمنٹ کو ’’اوجڑی کیمپ‘‘ بنائے رکھے گا جس کے ساتھ جڑے فتیلے کا دوسرا سرا، اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھڑی میں دھرا ہے۔ جس دن جوشِ غضب میں شہزادۂِ خوش جمال نے اس فتیلے کو آگ دکھا دی، اُس دن ایک بڑا دھماکہ ہوگا۔ ممکن ہے کہ 9مئی اور بہت سی دوسری یلغاروں کی طرح یہ دھماکہ بھی ’’خود کش‘‘ ہی ثابت ہو لیکن ملک کو درپیش بھیانک اور سنگین چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جس پائیدار حکومت، سیاسی استحکام، توانا پارلیمان اور یقین افروز ماحول کی ضرورت ہے، شاید وہ خیال وخواب ہی رہے۔ اچھا ہوتا، شہزادۂِ خوش جمال’’غلامی نامنظور‘‘ کے فلسفۂِ پیکار کو سرِدست ایک طرف رکھ کر وکلا اور سیاستدانوں پر مشتمل نئی سیاسی سپاہ کو اپنی حکمتِ عملی تراشنے کے لئے کھُلا چھوڑ دیتے۔ نئی پی۔ٹی۔آئی حال ومستقبل کے تقاضوں کے پیش نظر ایسی راہیں تراش سکتی تھی جو خود خان صاحب کے لئے نئے راستے نکالے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آتش فشاں کے دہانے سے پھوٹنے والا لاوہ، جوئے نغمہ خواں نہیں بن سکتا۔ خان صاحب کے فلسفۂِ سیاست میں کوئی ’’حلقۂِ یاراں‘‘ ہے ہی نہیں جس کے ساتھ وہ ابریشم کی طرح نرم ہوجائیں۔ وہ صرف ’’رزم حق وباطل‘‘ پر یقین رکھتے اور ہر آن صورت فولاد بے لچک رہتے ہیں۔ مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ اُن کی میزانِ حق وباطل میں ’’حق‘‘ وہ صرف خود ہیں اور باقی عالم تمام سراسر باطل ہے۔ اپنی انتخابی فتح کو بھی انہوں نے ’’غلامی نامنظور‘‘ کا نام دیا ہے۔ سو کوئی کچھ بھی کہتا رہے، پی۔ٹی۔آئی جمہوری نظام کا معنی خیز اور تعمیری پرزہ بننے پہ آمادہ نہیں۔ سو اُس نے برسوں پر محیط سیاسی تنہائی سے نکلنے کا فیصلہ کیا بھی تو سر کے بل چلتی صرف اُس کوچۂِ رقیب میں پہنچی جہاں سے اُسے اپنے ’’اوجڑی کیمپ‘‘ کے لئے چُٹکی بھر بارود ملنے کی توقع تھی۔
ان حالات میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم۔کیو۔ایم، جمعیت علمائے اسلام اور دیگر تمام جماعتوں پر اسمبلی بچانے، سیاسی استحکام لانے اور قوم و ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کی گراں بار ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیا وہ محدود سیاسی اہداف سے بالاتر ہوکر اس ذمہ داری سے عہدہ برا ہوسکیں گی؟ اس سوال کے جواب میں پاکستان کا مستقبل چھپا ہے۔ وہ 2017سے گہری دلدل سے نکل پائے گا یا مزید دھنستا چلا جائے گا؟ کیا ہی اچھا ہو کہ ’’بارود خانہ‘‘ بھی اپنی سرشت سے دست کش ہوکر ملک وقوم پر رحم کھائے۔ وسیع ترپارلیمانی بندوبست کا حصہ بن جائے۔ 9 مئی کے آشوب سے نکل کر8 فروری کی کامرانی کو سرمایۂِ فکر بنائے اور اگر ایسا کرنا اُس کے لئے ممکن نہیں تو پارلیمنٹ کے اندر اور باہر مہذب اپوزیشن کے طورپر تعمیری کردار ادا کرے۔ اگر پی۔ٹی۔آئی ’’شریک فتنہ وفساد‘‘ ہونے کی عرضی لئے دیرینہ حریفوں کی دہلیز پر سجدہ ریز ہوسکتی ہے تو زخم زخم پاکستان کی مرہم کاری کے لئے جمہوری قوتوں سے کیوں ہاتھ نہیں ملا سکتی؟
بشکریہ روزنامہ جنگ