اسلام آباد(صباح نیوز)پاکستان میں تقریبا گذشتہ 40 گھنٹوں سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس تک رسائی محدود ہے۔تین روز قبل ہفتہ کی شام پاکستانی صارفین کو ایکس تک رسائی میں مشکلات کا سامنا شروع ہوا جس کے بعد اتوار کی شام جزوی طور پر رسائی بحال ہوئی جسے پیر کی صبح ایک مرتبہ پھر محدود کر دیا گیا ہے۔اب صورتحال یہ ے کہ ملک میں موجود سوشل میڈیا صارفین ایکس کا استعمال نہیں کر پا رہے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بارے میں عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں سوشل میڈیا کے زیادہ تر صارفین فیس بک اور ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز پر موجود ہیں اور ایکس پر ایک مخصوص طبقہ ہی موجود رہتا ہے اور اپنی آرا کا اظہار کرتا ہے۔تو اس صورتحال میں جب ایکس سے زیادہ مقبول پلیٹ فارمز موجود ہیں تو ایکس ہی کو کیوں بندشوں کا سامنا ہے؟ اور کیا پاکستان میں ٹوئٹر اتنا اہم پلیٹ فارم بن چکا ہے کہ اس پر پابندی لگا کر رائے عامہ کو متاثر کیا جا سکتا ہے؟ بی بی سی نے اس حوالے سے ڈیجیٹل رائٹس ماہرین سے بات کی ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس کی تنظیم بولو بھی کی شریک بانی فریحہ عزیز نے اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس پلیٹ فارم کو کتنے پاکستانی صارفین استعمال کرتے ہیں اس سے قطع نظر اس پلیٹ فارم کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ اس وقت ہمارے ملک میں پاور پلے چل رہا ہے اور ایکس پر ریاستی اداروں، سیاسی جماعتوں اور صحافیوں سے لے کر دنیا کی اہم شخصیات سبھی موجود ہیں۔ان کا کہنا کہ یقینا فیس بک اور ٹک ٹاک بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے والے پلیٹ فارم بن چکے ہیں اور انھیں پاکستان میں صارفین کی پذیرائی حاصل ہے مگر سیاسی نقطہ نظر سے ایکس کی اہمیت زیادہ ہے اس لیے اسے محدود کیا جا رہا ہے کیونکہ یہاں جو معلومات شیئر کی جاتی ہیں، بیانیے بنائے جاتے ہیں، عالمی سطح پر موجود افراد فورا انھیں نوٹس کرتے ہیں۔
امیدواروں سے لے کر عام افراد تک الیکشن سے متعلقہ فارمز اور دیگر معلومات سب ایکس پر شیئر کر رہے ہیں، سیاسی گفتگو سے لے کر ذہن سازی تک سب ایکس پر ہو رہا ہے۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین کو انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی میں بندش یا مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہو، حال ہی میں آٹھ فروری کو انتخابات کے دوران بھی حکومت کی جانب سے موبائل اور ڈیٹا سروسز کو معطل کر دیا تھا۔گذشتہ برس نو مئی کے بعد سے حکومت کی جانب سے متعدد بار انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا تک رسائی کی مشکلات کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں۔
فریحہ کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے بھی اکثر انٹرنیٹ سست کر دیتی ہے یا باقی کسی پلیٹ فارم پر رسائی محدود کر دیتی ہے لیکن عالمی سطح پر بننے والی ہیڈلائنز کا ذریعہ بھی اکثر ٹوئٹر ہی ہوتا ہے جہاں امیدوار اور سیاسی پارٹیاں ویریفائڈ اکاونٹس سے اپنی اپنی معلومات شیئر کرتی ہیں۔تو کیا پاکستان میں حکام ایکس سے خائف ہیں؟ اس حوالے سے فریحہ کا کہنا ہے کہ یہی سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مفادات کے لیے بھی اسی پلیٹ فارم کا استعمال کرتی ہیں۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے باوجود جب سیاسی جماعتیں حکومت میں آتی ہیں تو وہ پیکا اور اس نوعیت کے دوسرے قوانین بھی لاتی ہیں جن کا مقصد مبینہ طور رائے کو دبانا ہوتا ہے۔
فریحہ کا کہنا ہے کہ ریاست تو پابندیاں عائد کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتیں طاقت کے حصول کے بعد یہی کچھ کرتی ہیں۔مستقبل کے حوالے سے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے فریحہ کہتی ہیں کہ گذشتہ دو حکومتیں ڈیجیٹل پاکستان کا نعرہ تو لگاتی رہی ہیں لیکن اگر سروسز ایسے ہی بند ہوتی رہیں اور انٹرنیٹ تک رسائی محدود کی گئی تو نہ کوئی سرمایہ کار یہاں آئے گا اور نہ اس ملک کو سنجیدہ ڈیجیٹل مارکیٹ کے طور پر دیکھا جائے گا۔یاد رہے کہ ایکس کی بندش ایک ایسے موقع پر سامنے آئی تھی جب راولپنڈی کے کمشنر لیاقت علی چٹھہ کی جانب سے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ نے آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں ضلع راولپنڈی میں مبینہ طور پر نتائج بدلنے اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو دھاندلی کے ذریعے جتوانے جیسے الزامات عائد کیے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ان الزامات کی تردید کی اور اس معاملے پر ایک اعلی سطح کی انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے۔
بی بی سی نے جب پاکستان میں مواصلات کے نگران ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی(پی ٹی اے) سے ایکس کی بندش کے بارے میں پوچھا تو پی ٹی اے کے ترجمان کی جانب سے بتایا گیا کہ وزارتِ داخلہ کے احکامات پر ملک بھر میں ایکس کو بند کیا گیا تھا۔البتہ اس بندش کے متعلق پی ٹی اے کی جانب سے کوئی اعلامیہ سامنے نہیں آیا اور نہ ہی وزارت داخلہ نے اس متعلق کوئی بیان جاری کیا ہے۔اتوار کی شام ایکس تک جزوی رسائی شروع ہوتے ہی سوشل میڈیا صارفین نے اپنے تبصروں میں حکومتی اقدام کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے معلومات تک رسائی اور آزادی اظہار رائے کے حق کے منافی قرار دیا۔ایک سوشل میڈیا صارف نے اس بارے میں اپنے رائے دیتے ہوئے لکھا کہ یہ کس طرح کا ملک ہے جہاں ایک بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بنا کسی وجہ سے بند کر دیا گیا ہے اور عوام اس بارے میں کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ اس کا مقصد صرف لوگوں کی آواز کو دبانا، ان سے حقائق چھپانا ہے۔
یہ ریاست ایک مذاق ہے۔ہدا نامی صارف نے لکھا کہ پاکستان کو سٹار لنک کی ضرورت ہے، ہم سوشل میڈیا کی بندش اور انٹرنیٹ سینسرشپ سے بہتر کے مستحق ہیں۔اسامہ خلجی نے ایکس تک رسائی محدود کیے جانے پر پی ٹی اے اور نگراں وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی عمر سیف پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ تقریبا 24 گھنٹوں کے لیے پاکستان بھر میں ایکس بند رہا، اور اس تک رسائی وی پی این کے ذریعے ممکن تھی، جبکہ متعدد صارفین نے شکایت کی کہ ان کا وی پی این بھی بند ہے اور انٹرنیٹ بھی سست رفتار ہے لیکن اب تک پی ٹی اے حکام یا عمر سیف کی جانب سے ایک لفظ نہیں کہا گیا۔ ملک میں انٹرنیٹ تک رسائی کو ممکن بنانا ان کا ہی کام ہے۔ یہ شرمناک ہے۔ایک اور سوشل میڈیا صارف نے حکومتی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ ٹیسلا بہت جلد انڈیا میں آ رہی ہے، 4500 سے زائد آئی ٹی کمپنیاں بنگلہ دیش میں کام کر رہی ہیں، سری لنکا کی آئی ٹی کی صنعت ملکی معیشت میں تقریبا 1.2 ارب ڈالر حصہ ڈالتی ہے جبکہ پاکستان میں ہم آج بھی وی پی این استعمال کر رہے ہیں کیونکہ حکومت سوشل میڈیا بند کر دیتی ہیں۔ پاکستان کب تک یہ سہتا رہے گا۔
حکومت کی جانب سے ایکس تک رسائی کو محدود کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما علی محمد خان نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستانی شہریوں کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔انھوں نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ایکس کو بند کرنا غلط ہے، معلومات تک رسائی یا اظہار رائے کی آزادی آئینی حقوق ہیں، حکوت کو اس بارے میں وضاحت دینا ہو گی اور شہریوں اور سیاسی کارکنوں کے آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو بند کرنا ہو گا۔ایک اور صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا کہ پاکستان میں ٹوئٹر کا حال بجلی جیسا ہوا پڑا ہے جب دل کرتا ہے ٹوئٹر بند کر دیتے ہیں لوگ ٹوئٹر کی لوڈ شیڈنگ سے تنگ آ کر جنریٹر، یو پی ایس، سولر پینل کے طور پر وی پی این استعمال کرتے ہیں۔