غزہ میں فلسطینی حماس اور اسرائیلی افواج کے درمیان خونی جنگ کو شروع ہوئے چار ماہ ہو رہے ہیں۔ اِس عرصہ میں 28ہزار سے زائد غزہ کے شہری اور حماس کے جنگجو شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ میں بروئے کار فلسطینیوں کی ہیلتھ اتھارٹی بھی شہدا کی اِس تعداد کو تسلیم کررہی ہے۔
اسرائیلی اندھی، غاصب اور ظالم فوج کے ہاتھوں غزہ کے جو شہری شدید زخمی ہو چکے ہیں، ان کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔ چونکہ غزہ کے سبھی چھوٹے بڑے اسپتال جنگ میں برباد ہو چکے ہیں ، اس لیے فلسطینی زخمیوں کو بمشکل مصر اور اردن کے اسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے ۔
فلسطینیوں کی بے بسی ، تنہائی اور مشکلیں کم نہیں ہو رہی ہیں۔ دنیا کے تقریبا ہر چھوٹے بڑے ملک میں مظلوم و بے بس فلسطینیوں کے حق اور اسرائیل کی مخالفت و مذمت میں زبردست جلسے جلوس تو نکلے ہیں لیکن کوئی بھی طاقتور ملک عملی طور پر، پاکستان سمیت، آگے بڑھ کر اسرائیل کا دستِ ستم روکنے اور مظلوم فلسطینیوں کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
البتہ امریکا نے اسرائیل پر مزید دباو بڑھایا ہے ۔ طاقتور اسرائیلی اور امریکی یہودی لابیوں کے سامنے بے بس ہو کر امریکا اور امریکی صدر، جو بائیڈن، فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو مطلق طور پر جنگ بندی کا حکم تو نہیں دے سکتا ، لیکن امریکا نے اسرائیل کو حماس کے خلاف چھڑی جنگ کو Low Intensityپر رکھنے کا اصرار ضرور کیا ہے ۔
اِس اصرار کا اثر یہ نکلا ہے کہ اسرائیل نے غزہ کے خلاف جو افواجِ قاہرہ لگا رکھی ہیں ، ان میں سے 5بریگیڈز کو واپسی کا کہہ دیا گیا ہے ۔ اسرائیلی افواج کے ترجمان (Daniel Hagari) نے بھی اِس اعلان کی تصدیق کر دی ہے ۔ ہمارے ہاں اِس واپسی کا یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل نے احساسِ شکست کے طور پر پانچ بریگیڈز واپس بلائے ہیں تاکہ مزید جنگی نقصان سے بچا جا سکے ۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتین یاہو، کا کہنا ہے کہ حماس اور ان کے ہمدرد اِس واپسی پر خوش نہ ہوں۔ ہم اپنی فوجوں کو آرام بھی دینا چاہتے ہیں اور نئی ٹریننگ بھی کہ حماس کے خلاف رواں سال بھی جنگ جاری رہے گی۔
اسرائیلی فوج کے ایک سابق بریگیڈیئر جنرل ( Shlomo Broom) ، جو اسرائیل کی اسٹرٹیجک پلاننگ ڈویژن کے انچارج بھی رہے ہیں کا کہنا ہے: غزہ کے محاذ سے پانچ ڈویژن اسرائیلی افواج کی واپسی امریکی دباو کا شاخسانہ بھی ہو سکتی ہے لیکن اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسرائیل اور حماس میں جنگ بند یا مدہم ہو رہی ہے ۔ یہ دراصل حماس کے خلاف اسرائیلی آپریشنز کا ایک مختلف موڈ ہو سکتا ہے۔
حالیہ ایام میں نئے سرے سے( جنگِ غزہ کے حوالے سے) پھر ساری دنیا میں( فلسطینیوں کے خلاف ) اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج بلند ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر (1)فرانس میں گزشتہ روز الجزائر کے معروف فٹ بالر یوسف اتال کو کھیلنے سے منع کر دیا گیا۔
یوسف کا قصور محض یہ تھا کہ انھوں نے غزہ جنگ کے حوالے سے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب اسرائیل کی مخالفت کی تھی(2)جنوبی افریقہ، اسرائیل کے خلاف مقدمہ عالمی عدالتِ انصاف(ICJ) میں لے گیا،اس دعوے کے تحت کہ غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کے جنگی جرم کا مرتکب ہورہا ہے۔
ICJ ججوں نے اکثریتی طور پر اسرائیل کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ میں نسل کشی بند کرے، مگر اسرائیل پھر بھی ظلم سے باز نہیں آ رہا (3) کیلیفورنیا (امریکا) کی ریاستی اسمبلی میں صہیونت مخالف یہودی گروپ نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ غزہ میں فوری طور پر اور مستقل طور پر جنگ بندی کی جائے۔ لیکن اِن متنوع دباو کے باوجود اسرائیلی وزیر دفاع (Yoav Gallant)نے محصور غزہ کے لیے ایک نیا اعلان کیا ہے۔
اس کے مطابق غزہ اور حماس کے خلاف جنگ جاری رہے گی تاآنکہ حماس قیادت ختم ہو جائے۔نئے اور دھمکی آمیز اعلان کے باوصف حماس قیادت کے حوصلے ٹوٹے ہیں نہ ماند پڑے ہیں اور نہ ہی انھوں نے ہتھیار ڈالے ہیں۔ گزشتہ روز حماس کے ہاتھوں اسرائیل کے24فوجی جہنم واصل ہو گئے ۔
اسرائیلی حکومت، وزیر اعظم اور افواج بہرحال اس صورتحال سے پریشان ہیں۔ انھیں توقعات کے مطابق نتائج نہیں مل رہے ہیں۔ حماس کی طاقت حکمت اور منصوبوں کے بارے میں اسرائیلی توقعات زمیں بوس ہو گئی ہیں۔ اسرائیل نے چند دنوں میں حماس کے مکمل خاتمے کا دعوی کیا تھا لیکن فی الحال یہ دعوی غلط ہی ثابت ہو رہا ہے۔
اسرائیل کے اندر سے اسرائیلی افواج کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ یہ آوازیں فی الواقعہ اسرائیل کے لیے نہایت پریشان کن ہیں۔ سب سے بڑی اور طاقتور آواز یہ ہے کہ اسرائیلی نوجوانوں نے اسرائیل فوج میں بھرتی ہونے اور فلسطینیوں سے لڑنے سے انکار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اسرائیلی نوجوانوں کے اسرائیلی فوج اور حکومت کے سامنے یہ حروفِ انکار قیامت برپا کررہے ہیں چونکہ اسرائیل میں ہر نوجوان مرد اور عورت کے لیے فوج میں بھرتی ہونا ( خواہ چند برسوں ہی کے لیے سہی) لازم ہے، اس لیے یہ انکار تھر تھلی مچا رہے ہیں ۔
اس کی تازہ ترین مثال فروری 2024 کے پہلے ہفتے اسرائیلی دارالحکومت، تل ابیب، میں اٹھارہ سالہ یہودی نوجوان Tel Mitnick کی شکل میں سامنے آئی ہے۔ اس نے اسرائیلی فوج میں یہ کہہ کر بھرتی ہونے سے انکار کر دیا: ٹھیک ہے اِس بار حماس نے اسرائیل پر پہل کرکے حملہ کیا اور ہمارے کئی فوجی ہلاک کر ڈالے لیکن ردِ عمل میں اسرائیل افواج نے غزہ کے شہریوں کے خلاف جو مذبح خانہ کھول رکھا ہے، میں اِس ظلم اور خونریزی کا حصہ نہیں بن سکتا ۔ اس اسرائیلی نوجوان کو اِس حرفِ انکار کی قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
اس پر مقدمہ چلا ہے اور اسے ابتدائی طور پر 30دن کی سزا سنا کر اسرائیلی جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اسرائیل میں Mesarvotکے نام سے ایک تھنک ٹینک کام کررہا ہے۔ اِس کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کررہے ہیں ۔ اِس تھنک ٹینک نے بھی حرفِ انکار ادا کرنے والے Tel Mitnick کی بھرپور تشہیر کی ہے ۔
انکاریTel Mitnickکی مثال پہلی اور اکیلی نہیں ہے ۔ اس سے پہلے 20سالہ اسرائیلی نوجوان Yuval Dagکو بھی اِسی حرفِ انکار کی پاداش میں اسرائیلی حکام جیل کی سزا سنا چکے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس سزا پر تو سخت احتجاج بھی کیا تھا ۔ انکاری نوجوانوں کی ایسی ہی فہرست میں Einat Gerlitzاور Nave Shabtayاور Evyatar Moshe Rubinاور Shahar Schwartzنام بھی شامل ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بھی حرفِ انکار ادا کرنے والے ایسے اسرائیلی نوجوانوں کی جراتوں سے پریشان ہیں؛ چنانچہ نیتن یاہو نے گزشتہ روز کہا: اسرائیلی نوجوانوں کا یہ انکار ہمیں قبول نہیں ۔ اسرائیل کا تو وجود ہی ملٹری فورس پر ہے اور اگر ہمارے نوجوان فوج میں بھرتی ہونے سے انکار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارا قومی وجود خطرے میں ڈال رہے ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ ان دلیر انکاری اسرائیلی نوجوانوں نے خوں آشام اسرائیل میں ہلچل پیدا کررکھی ہے۔
شاید یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ اب اسرائیل رفح کے محاذ پر بھی فلسطینیوں کے خلاف حملہ آور ہو چکا ہے۔ اور امریکی صدر نے اسرائیلی ہٹ دھرمی سے تنگ آ کر اسرائیلی وزیر اعظم کو، ایک نجی محفل میں، مبینہ طور پر گالی بھی دے ڈالی ہے ۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس