شہباز آگے، نواز پیچھے کیوں؟ : تحریر سہیل وڑائچ


نواز شریف کا پہلے بھی یہی ارادہ تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بن بھی جاتے تو سال ڈیڑھ سال بعد انہوں نے وزارت عظمیٰ شہباز شریف ہی کے حوالے کر دینی تھی۔ نواز شریف اور شہباز شریف بھائی تو ہیں ہی وہ ایک بہترین ٹیم کے طور پر کام کرتے ہیں۔ بڑا بھائی باس ہے اور چھوٹابھائی اختلاف رائے رکھنے کے باوجود احکامات بھی بجا لاتا ہے۔ دونوں بھائی گڈکاپ اور بیڈ کاپ کھیلنے کے ماہر ہیں۔ مجھے کئی بار ان دونوں کی آپس میں گفتگو سننے کا موقع ملا ہے۔ نواز شریف رومانویت پسند اور آئیڈلسٹ ہیں جبکہ شہباز شریف عملیت پسند ہیں۔ دونوں اپنے اپنے دلائل دے کر ایک مشترکہ فیصلے پرپہنچتے ہیں۔ نواز شریف قیمتی گھڑیاں، مہنگے جوتے، برانڈڈ مفلر پہنتے ہیں انہیں دنیا کی بہترین گھڑیاں پسند ہیں۔ شہباز شریف سیاست میں آئے تو چھوٹی سی گاڑی میں سفر کیا کرتے تھے، کھدر کے کپڑے پہنتے ہیں۔ نواز شریف دنیا میں رائج سرمایہ داری نظام کے قائل ہیں اسی لئے انکی توجہ تعلیم اورصحت کی بجائے انفراسٹرکچر اور پالیسیوں کی طرف رہی ہے۔ وہ 8 سے 10 فیصد ٹیکس کے حامی ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم اور صحت کو نجی شعبہ چلائے۔ سرمایہ داری نظام میں یقین کی وجہ سے انہوں نے پاکستان میں آزاد معیشت کی بنیاد رکھی۔ دوسری طرف شہباز شریف سوشلسٹ ذہن کے مالک ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ غریب عوام کیلئے ہسپتال بنانے چاہئیں، اسی لئے انہوں نے پی کے ایل آئی جیسا ہسپتال بنایا۔ انہوں نے تعلیم کے حوالے سے دانش سکولوں کی بنیاد رکھی۔ نواز شریف سیاسی اور معاشی ویژن رکھتے ہیں۔ شہباز شریف اچھے منیجر ہیں انہیں جوپراجیکٹ ملتاہے اس کی تکمیل میں جان لڑا دیتے ہیں۔

پاکستان کی طاقتور مقتدرہ کے حوالےسے بھی دونوں بھائیوں کی اپروچ میں کافی اختلاف ہے۔ شہباز شریف اکیلے بھی ہوں تو مقتدرہ کے خلاف زبان تک نہیں کھولتے جبکہ نواز شریف ماضی میں مقتدرہ سے کئی بار لڑے اور کئی بار صلح کی۔ لڑائی کے عروج کے زمانے میں بھی شہباز شریف مقتدرہ سےمسلسل خفیہ رابطے میں رہتے تھے۔ یہ شہباز شریف کی خفیہ ڈپلومیسی ہی تھی جس کی وجہ سے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے مخالف ترین زمانے میں نواز شریف کو جیل سے نکال کر لندن جانے دیا گیا، اس کے پیچھے سارے مذاکرات شہباز شریف نے ہی کئے اور پھر نوازشریف کی واپسی اور ان کے ری لانچ کی راہ بھی انہوں نے ہموار کی۔ دوسری طرف یہی شہباز شریف تھے جو جنرل مشرف کو چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف بنوانے والے تھے۔ یہ سفارش کرتے رہے کہ جنرل راحیل شریف کوتوسیع دے دیں لیکن نواز شریف نہ مانے، جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے حوالے سے بھی شہبازشریف متحرک رہے۔ نون کے متوالوں کو شہباز شریف سے گلے بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ پانامہ مقدمہ کے زمانے میں شہباز شریف کھل کر سامنے نہیں آئے،یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب کلثوم نواز کو چھوڑ کر مریم نواز اور نواز شریف لاہور اترے تو شہبازشریف نے جلوس ایئرپورٹ لے جانے کی بجائے اسے مال روڈ پر ہی ختم کردیا یوں نواز شریف اور مریم کا استقبال ناکام ہوگیا اور وہ جیلوں میں چلے گئے۔ ماضی کے گلے شکوے بھی موجود ہیں۔ جنرل مشرف کے ساتھ چودھری نثار علی اور شہباز شریف کی جو ملاقاتیں ہوتی تھیں شہباز شریف ان میں سے کچھ نواز شریف کو نہیں بتاتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اگر سب کچھ بتاؤں گا تو لڑائی ہو جائے گی اور مارشل لا لگ جائے گا جبکہ جدہ میں نواز شریف،بھائی شہباز سے گلہ کرتے تھے کہ اگر آپ مجھے ساری باتیں بتاتے تو ہم اس کا بہتر حل نکال لیتے۔

اگرچہ نوازشریف اور شہبازشریف کے اثاثے جدہ میں قیام کے دوران ہی تقسیم ہو چکے ہیں اور اب ان کے الگ الگ کاروبار اورجائیدادیں ہیں لیکن شہباز شریف، نوازشریف کو بھائی نہیں بلکہ والد کی جگہ دیتے ہیں۔ شہباز شریف نے وزیر اعظم بننا ہے یا نہیں، حمزہ کا سیاسی کردار کیا ہوگا؟ سلمان شہباز سیاست میں آئے گا یا نہیں،یہ سارے حتمی فیصلے نواز شریف ہی کرتے ہیں اور شہباز شریف اس پر صاد کہتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ ان کا بھائی منصفانہ فیصلے ہی کرے گا۔ ابھی حمزہ کے بارے میں نوازشریف نے کوئی فیصلہ نہیں کیا کہ آئندہ سیٹ اپ میںاس کا کیا کردار ہوگا؟ لیکن اس کے باوجود شاید ہی شہبازشریف بڑے بھائی سے اس حوالے سے بات کرسکیں، وہ اس معاملے کوبڑے بھائی پر ہی چھوڑ دیں گے۔

جہاں تک سیاست کا تعلق ہے، شریف خاندان میں نواز شریف کا حق سب پر فائق ہے۔ پارٹی کا نام بھی نوازپر ہے، ووٹ بینک بھی اس سے جڑا ہوا ہے، نوازشریف کےپیچھے ہٹنے سے اس کے ووٹروں کو شدید دھچکا لگا ہے۔ نواز شریف کئی برسوں سے اپنی ملاقاتیں محدود کر چکے ہیں بہت کم لوگوں سے ملتے ہیں۔ پہلے ان کی شہرت ہوتی تھی کہ ہر ایک ملنے والے کا کام بڑے شوق اورلگن سے کیا کرتے تھے، یہ عادت بھی تبدیل ہو چکی ہے۔ وہ اب سارے کام اسحاق ڈار یا شہباز شریف کے ذمے لگا دیتے ہیں۔ لاہور کے نون لیگی کارکنوں سے ملے انہیں برسوں گزر چکے ہیں اب یہ سارا معاملہ حمزہ شہباز شریف کے ذمے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مریم کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد ان کی زمینی سیاست کی طرف توجہ ہو جائے وگرنہ وہ زیادہ تر قومی سیاست پرہی سوچتے ہیں، زمینی حقائق تک ان کی براہ راست پہنچ نہیں رہی۔

مسلم لیگ نون کئی برسوں تک پنجاب کی سب سے مقبول جماعت رہی اس کی وجہ نواز شریف کی معاشی کارکردگی اور اپنے اراکین پارلیمان کے کلے مضبوط رکھنا تھا۔ موٹر وے، آزاد معیشت، بجلی کے کارخانے، بھارت سے دوستی کی کوششیں اورسی پیک کے منصوبے، ان سب کا کریڈٹ بہرحال نواز شریف کو جاتا ہے۔ شہبازشریف 19ماہ کیلئے وزیر اعظم بنے تو کوئی معاشی کارنامہ سرانجام نہ دے سکے۔ اب جبکہ شہباز شریف کو دوبارہ وزیر اعظم کی سیٹ ملنے والی ہے تو انہیں معاشی حوالے سے اپنی کارکردگی کوبہتر بنانا ہوگا۔ اگر وہ آئی ایم ایف کی شرائط ہی پوری کرتے رہے اور معیشت کو بڑھانے کا کوئی نیا منصوبہ نہ لائے تو پھر زوال پذیر نون پنجاب میں دوبارہ کھڑی نہ ہو سکے گی۔

2024ء کے الیکشن میں نواز شریف کو جو دھچکا لگا ہے،اس کے بعد وہ لازمی طور پر چاہیں گے کہ کچھ ایسا کریں کہ نون لیگ دوبارہ سےپاپولر ہو جائے۔ پنجاب میں تو وہ جاتی عمرا میں بیٹھے بیٹھے بیک سیٹ ڈرائیونگ کرلیں گے مگر ملک کےبڑے معاشی مسائل تو مرکز میں ہیں، اگر اس معاملے میں شہباز شریف کو اکیلا چھوڑ دیا گیا تو وہ گورننس توبہتر کرلیں گے لیکن معاشی مینجمنٹ میں شاید زیادہ بہتری نہ کرسکیں۔پنجاب کو اگلے مالی سال میں 1100ارب روپے میسر ہوںگے جبکہ مرکز کے پاس ٹیکس لگانے،گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمت بڑھانے کے ریلیف دینے کا کوئی اختیار ہی نہیں۔ ایسے میں شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے ہاتھ بندھے اور مریم نواز کی پنجاب حکومت کے ہاتھ کھلے ہوں گے۔

آخرمیں یہ عرض ہے کہ نون لیگ کو اگر مقبولیت حاصل کرنی ہے تو اسےسیاست کے نئے تقاضوں کو سیکھنا ہوگا، یوتھ کو سیاست میں جگہ دینا پڑے گی، سوشل میڈیا کا استعمال کرنا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ اپنے پرانے رویے بھی تبدیل کرنا ہوںگے، تبدیلیاں کریں گے تو تبھی اربن مڈل کلاس کا ذہن تبدیل ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ