مولانا فضل الرحمن مسلسل کہتے تھے کہ عمران خان پاکستان کی سیاست میں ایک غیرضروری عنصر ہے۔ اسے ختم کر دینا چاہئے۔ اب اچانک وہ پاکستان تحریک انصاف کو ضروری کس نظریہ ضرورت کے تحت سمجھنے لگے ہیں۔ خود عمران خان اپنے بھرے جلوسوں میں ان کی جس طرح اہانت کرتے تھے اور ان سے گفتگو کو ناممکن قرار دیتے تھے۔ اب کیسے وہ اپنا وفد بھیج کر ان سے سیاسی اشتراک کررہے ہیں۔ اس کی وضاحت ہونی چاہئے۔ ورنہ عوام خاص طور پر خیبر پختونخوا کے ووٹر اسے اپنی آرزوؤں کا خون سمجھیں گے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ اور بعد از الیکشن منظر نامے پر سوال جواب کے لمحات۔پاکستان سیاسی طور پر تو ایک دوراہے پر ہے ہی لیکن اخلاقی طور پر کہیں زیادہ پستی میں گر چکا ہے۔ تہذیب کہیں مسلک سے کچلی جارہی ہے کہیں طاقت سے بلڈوز کی جارہی ہے۔ انتخابی نتائج جس بے دردی سے بدلے گئے ہیں۔ رجیم چینج کے آقا امریکہ کے محکموں کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں۔ پاکستان دنیا کا آخری ملک ہے جہاں اٹھارویں صدی اب بھی اکیسویں صدی کو قدم نہیں رکھنے دے رہی ہے ،جہاں وحشیانہ قبائلی سرداری، سنگدل جاگیرداری، لالچی سرمایہ داری، چھچھوری ٹھیکیداری، اکثریت کی بیداری کا راستہ روک رہی ہے۔
راستے بند کیے دیتے ہو دیوانوں کے
ڈھیر لگ جائیں گے بستی میں گریبانوں کے
بہت مشکل سے سالہا سال کی منتوں مرادوں کے بعد جاگنے کا لمحہ آیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ۔ الیکشن کمیشن اور عدالتیں اسے عطائے خداوندی سمجھ کر اپنی گرفت میں لیتیں۔ اسے آئندہ کی بنیاد بناتیں۔ ملکی استحکام کیلئے اسی شعور کی تو ضرورت تھی۔ یہ جو اظہار کی ندیاں الگ الگ بہہ رہی تھیں۔ اسے ایک مرکزی دھارے میں ڈالا جاتا۔ ملی افتخار بھی اسی میں تھا۔ ریاست کی سلامتی بھی اور ایک قوم کی حیثیت سے سربلندی بھی۔ ریاستی اداروں کا وقار بلند ہو رہا تھا۔ مگر ہمارے ان اداروں کی فکر اتنی ارفع کہاں کہ وہ لمحہ موجود کی اس تابانی کا ادراک کر سکتے۔ وہ شخصیات کے سحر میں کھوئے ہوئے ہیں۔جو بالآخر فانی ہیں۔فرسودگی اور بوسیدگی میں مبتلا ہیں۔ وہ نہ جان سکے کہ پہلی بار سارے صوبوں، ساری زبانوں میں اظہار کرنے والے، مختلف مسالک اور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ایک سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ قوموں کی تاریخ میں ایسی گھڑیاں شاذ شاذ ہی آتی ہیں۔ یہی ساعتیں ہوتی ہیں جب تاریخ بنتی ہے۔ جغرافیہ مستحکم ہوتا ہے۔ لیکن اداروں کی سوچ اپریل 2022 سے آگے نہیں بڑھ سکی تھی۔ تحریک عدم اعتماد کے ڈاکٹرائن میں ہی تحفظ سمجھا گیا۔ عوام کے مینڈیٹ کو کچل کر وہی پی ڈی ایم کا گراف تخلیق کیا گیا۔ پہلے بھی مصنوعی ذہانت کے ایسے تجربے ناکام رہے ہیں۔ 1985 سے سیاسی اور فوجی قیادت کے اشتراک اور ایک پیج پر ہونے کے نتائج بازار کی ویرانی، کارخانوں کی بندشوں میں، بے روزگاری میں، روپے کی رسوائیوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔ اب واہگہ سے گوادر تک پاکستانی پیشانیوں پر ایک برہمی ہے۔ کہیں کہیں تو یہ غصہ سڑکوں پر بھی نظر آرہا ہے۔ لیکن زیادہ تر پاکستانی اسے ملکی مفاد میں خود ہی دبائے ہوئے ہیں۔ پاک سر زمین کے یہ فرزند ملت کے درد کو سمجھتے ہیں۔ اپنی مملکت کی املاک کو اپنا سمجھتے ہیں۔ اس لیے وہ توڑ پھوڑ تخریب کاری کی طرف نہیں آ رہے۔ اپنے مینڈیٹ کی بے حرمتی پر انکی طرح بے لگام نہیں ہورہے ۔ جن کا لندن پلان چاروں شانے چت پڑا ہے۔
اداراتی بندوبست نے1985 سے انتخابات کے نام پر عوام کی رائے سے کھیلنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دو خاندانوں کی سربراہی میں باریاں لگی ہوئی ہیں۔ انتخابی نتائج ہر الیکشن میں تبدیل کیے جاتے رہے ہیں۔ یہی عمل 8فروری اور 9 فروری کی درمیانی شب بھی دہرایا گیا۔ اس عمل کے اپنے نتائج بڑے بھیانک ہوتے ہیں۔ اس کا شکار چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھنے والے ہو گئے۔ ہم پاکستان کو نواز نہیں سکے۔
پارلیمانی یا صدارتی نظام صدیوں کی خانہ جنگیوں، ہلاکتوں اور مختلف تجربات، فلسفوں کے بعد وجود میں لایا گیا۔ اس کے جو مراحل، اصول، قواعد و ضوابط طے کیے گئے۔ ان پر من و عن عملدرآمد نے ہی ایسی ترقی یافتہ ریاستوں کو جنم دیا ہے۔ جہاں زندگی کی آسانیاں ہیں، میرٹ کی بالادستی ہے، روزگار کے مواقع ہیں، صنعتی پھیلاؤ ہے، ہر شہری کو برابری حاصل ہے، ایسے معاشروں میں جانے کیلئے ہمارے نوجوان ان ملکوں کے سفارت خانوں کے باہر ویزے کیلئے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ با اثر افراد جو ان قواعد و ضوابط کو پاکستان میں روندتے ہیں۔ ان کی اولادیں بھی انہی ملکوں میں جا کر پناہ لیتی ہیں۔ ریٹائر ہو کر یہ بھی آسٹریلیا، امریکہ، بلجیم، اسپین میں فروکش ہوتے ہیں۔
اب ہم سب کے سوچنے سمجھنے کی یہ بات ہے کہ پاکستان میں جمہوریت، آزادی اظہار، روزگار، معاشی ترقی کے راستے کیوں روکے جاتے ہیں۔ اس کی مثال اپنے بلوچ سرداروں، کے پی کے کے خوانین، سندھ کے وڈیروں، پنجاب کے چوہدریوں کے مزاج سے لے لیجئے۔ وہ اپنی اولادوں کیلئے جو آسائشیں چاہتے ہیں۔ اپنے مزارعین، ہاریوں، کسانوں کی اولادوں کو دینا نہیں چاہتے۔ اسی طرح امریکہ، برطانیہ، ہالینڈ، فرانس وغیرہ بھی جنوبی ایشیا کے شہریوں کو اپنے جیسا ترقی یافتہ دیکھنا نہیں چاہتے۔ جبکہ چین ہر ہمسائے کو خود دار خود کفیل اور مستحکم بنانے کیلئے ایک پٹی ایک سڑک کا فلسفہ دے رہا ہے۔ معدنی وسائل برآمد کر رہا ہے۔ افغانستان میں تیل تلاش کر چکا ہے۔ امریکہ برطانیہ اپنے گماشتوں کے ذریعے پاکستان میں اکثریت کو اپنے دبدبے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نیا استعمار ہے۔
ہمارے ادارے ایک مغالطے میں مبتلا ہیں۔ انہیں طاقت اپنے عوام دے سکتے ہیں،ہزاروں میل دور بیٹھا استعمار نہیں۔ عوام کے دباؤ سے بوسیدگی فرسودگی جھڑ رہی ہے۔ تاریخ کے پہیے کو پیچھے دھکیلنے کی کوششیں ناکام ہورہی ہیں۔ کروڑوں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ چند لاکھ 1985 میں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ اعلی عدلیہ سے ایسے تبصرے سننے میں آ رہے ہیں۔ فوج اپنا کام کرے، عدلیہ اپنا۔ یہ بیداری الیکشن کمیشن میں بھی آنی چاہئے۔ دوسرے ادارے بھی اب ملک کی سلامتی کا اپنا ڈاکٹرائن بنا لیں۔ ملک کے مالک عوام ہیں۔ تاریخ کی طرف سے سب سے بڑی ذمہ داری نام نہاد سیاسی جماعتوں پر ہے جو عوام کی رہبری کا دعوی کرتی ہیں۔ عوام نے انہیں اپنے ڈیروں تک محدود کردیا ہے۔
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
ان شا اللہ۔ عوام کی طبع اب اور رواں ہونے والی ہے۔ اب قومی سیاسی جماعتوں کا ایگزیکٹو میڈیکل چیک اپ درکار ہے۔آئندہ اس اہم موضوع پر گفتگو ہوگی۔
بشکریہ روزنامہ جنگ