مولانا فضل الرحمن نے نہ صرف اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کیا ہے بلکہ انھوں نے انتخابی نتائج کے حوالے سے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب تلاش کرنا بہر حال ضروری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ بلوچستان اسمبلی میں جے یو آئی سنگل لارجسٹ پارٹی ۔ بلوچستان میں حکومت بنانے کے لیے انھیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی میں سے کسی ایک کی حمایت درکار ہے۔اگر مرکز میں پیپلزپارٹی شہباز شریف کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ دے رہی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ دونوں جماعتیں مل کر بلوچستان میں بھی حکومت بنائیں گی۔
ایسے میں مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن میں بیٹھنے پر مجبورہو جائیں گے۔ اس لیے اگر بلوچستان میں سب سے زیادہ سیٹیں جیت کر بھی اپوزیشن میں بیٹھنا ہے تو پھر مرکز میں بھی اپوزیشن میں ہی بیٹھنا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ بلوچستان میں وہی ہونے جا رہا ہے جو اس وقت تحریک انصاف کے ساتھ مرکز میں ہو رہا ہے۔
تحریک انصاف کے حامی آزاد ارکان کی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ سیٹیں ہیں۔ لیکن وہ حکومت نہیں بنا سکتے۔ ان کی سیٹیں زیادہ تو ہیں۔ لیکن تنہاحکومت بنانے کے لیے کافی نہیں ہیں، اسی طرح مولانا کی بھی بلوچستان میں سیٹیں سب سے زیادہ ہیں لیکن حکومت بنانے کے لیے کم ہیں۔ جیسے مرکز میں کوئی تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں ہے، ایسے ہی بلوچستان میں فی الحال کوئی مولانا کے ساتھ نہیں۔
اس لیے مولانا کا اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ جائز اور عین سیاسی ضرورت کے مطابق ہے۔ تا ہم مولانا نے جہاں انتخابی نتائج کو مسترد کیا ہے، وہاں سانحہ نو مئی کے بیانیے کے حوالے سے بھی بات کی جو انتہائی اہم اور آئی اوپنر ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر الیکشن کے نتائج کو درست مان لیا جائے تو ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان جیت گئے ہیں۔ مولانا کے موقف کے مطابق ایسی صورت میں انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے پہلے مرحلے میں پارلیمان میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن زمین کو گرم کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ جے یو آئی کو خیبر پختونخوا میں بڑی شکست ہوئی ہے۔
وہ خود بھی ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست ہار گئے ہیں۔ یہ نتائج ان کی سیاست کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ وہ بلوچستان کے ضلع پشین سے منتخب ہوئے ہیں، شائد انھیں اندازہ تھا کہ وہ ڈیرہ سے ہار سکتے ہیں، اسی لیے انھوں نے پشین سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مولانا نے ایسے اشارے بھی دیے ہیں کہ ان کی جماعت انتخابی سیاست چھوڑنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ کوئی درست حکمت عملی نہیں ہوگی ۔
یہ درست ہے کہ مولانا کو پے درپے ناکامیاں مل رہی ہیں، گزشتہ دو انتخابات ان کے لیے اچھے نہیں رہے ہیں، وہ ہار رہے ہیں، انھیں موقع نہیں مل رہا۔ بالخصوص خیبر پختونخوا میں انھیں راستہ نہیں مل رہا ہے۔ کے پی میں تحریک انصاف تیسری بار حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے اے این پی کی حکومت تھی۔ لیکن وہ چوتھی بار بھی کے پی میں آٹ نظر آرہی ہے۔ چار انتخابات سے انھیں کچھ نہیں ملا ہے، جس کی وجہ سے ان میں بھی غصہ نظر آرہا ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ انھیں اتنا غصہ کیوں ہے؟ اس بار تو کے پی میں گورنر بھی جے یو آئی کا تھا، وہ اے این پی کے بھی مخالف نہیں ہیں، نگران حکومت ان کی مرضی کی تھی۔ کافی حد تک انھیں فری ہینڈ تھا۔
یہ درست ہے کہ مولانا ابھی انتخابات کے حق میں نہیں تھے۔ وہ بار بار انتخابات ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے، انھوں نے سرد موسم کی دلیل بھی دی، امن وامان کی ابتری کی دلیل بھی دی۔ لیکن قومی منظر نامہ میں کوئی بھی سیاسی جماعت ان کے مطالبے کے ساتھ کھڑی نہیں ہوئی۔ سب ہی انتخابات کے حق میں تھے، اس لیے ان کی تنہا آواز کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
اب جہاں تک مولانا کے اس موقف کی بات ہے کہ اگرانتخابی نتائج کو تسلیم کرلیا جائے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ قوم نے سانحہ نو مئی کے ملزمان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سنجیدہ سوال ہے۔ میری رائے میں سانحہ 9مئی کے نامزد ملزمان کو انتخابات لڑنے کی اجازت ملنے سے ہی معاملات بگڑنے کے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔
یہ کورٹ کا فیصلہ تھا ، الیکشن کمیشن کے پاس کاغذات منظور کرنے کے سوا کوئی چارہ کار بچا ہی نہیں تھا۔ بہرحال ہم نے ان انتخابات میں پہلی دفعہ دیکھا کہ اشتہاریوں اور قانون کو مطلوب ملزمان کے کاغذات نامزدگی قبول کیے گئے ہیں۔ ملزمان نے قانون کے سامنے سرنڈر کیے بغیر انتخابات میں حصہ لیا ہے۔
اس میں اسٹیبشمنٹ کا کوئی قصور نہیں ہے کیونکہ اس نے تو ان کے کاغذات قبول نہیں کیے۔ جو لوگ کئی کئی ماہ سے مفرور تھے، انھوں نے حفاظتی ضمانت کے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے الیکشن میں حصہ لیا ہے۔ آپ زرتاج گل کا کیس دیکھ لیں، انھیں پشاور ہائی کورٹ سے حفاظتی ضمانت مل گئی حالانکہ وہ کئی ماہ سے مفرور تھیں۔
لاہور سے میاں اسلم اقبال نے تو کہیں بھی قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کیا اور بطور مفرور ہی ان کے کاغذات منظور کر لیے گئے اور انھوں نے انتخابات میں حصہ لے لیا۔ حماد اظہر کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ یہ ہمارے نظام قانون اور نظام انصاف کی خرابیاں ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والوں کے کاغذات بھی قبول ہوئے اور اب وہ پھر قانون نافذ کرنے والوں کو للکار رہے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ہمارے نظام انصاف نے سانحہ نو مئی کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا ہے۔ سانحہ نومئی کو ایک عام اور معمولی واقعہ کی طرح ڈیل کیا گیا ہے۔ ہمارا نظام قانون اور نظام انصاف دہشت گردوں کو ان کے جرم کے مطابق سزائیں دینے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ سانحہ نو مئی کے ملزمان انتخابات لڑنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور جیت کر قانون ساز ادارے کے معزز رکن بن گئے ہیں۔ کیا عام شہری کو ایسے ہی جرم میں الیکشن لڑنے کی اجازت مل سکتی تھی؟ ایسے میں سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کل ٹی ٹی پی کا کوئی کمانڈر طاقت اور اثرورسوخ کے بل بوتے پر حفاظتی ضمانت لے کر اپنے کاغذات جمع کروا سکتا ہے اور انتخابات میں حصہ لے سکتا ہے۔ مولانا کے سوالات جائز ہیں۔ ان کا نظام پر غصہ بھی جائز ہے اور وہ حقیقت بھی بیان کر رہے ہیں۔
کیا واقعی میں نو مئی کا بیانیہ زمین بوس ہو گیا ہے۔ اگر ہم نو مئی کے ملزمان کو حق حکمرانی دے دیں گے تو یقینا نو مئی کا بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔ اگر نو مئی کے ملزمان حکمران بن جائیں گے تو یقینا بیانیہ زمین بوس ہو جائے گا۔ اس طرح ایک اور نو مئی کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی ۔ کیونکہ وہ کوئی سنگین جرم ہی نہیں سمجھا جائے گا ۔ کیا ایسے کوئی ریاست اور اس کی جمہوری حکومت چل سکتی ہے؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس