بوتل سے نکلا ہوا جن … تحریر : نوید چودھری


پی ٹی آئی کے حق میں حیران کن انتخابی نتائج بے سبب نہیں۔ اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد سے عمران خان کی رخصتی کے بعد جنرل باجوہ توسیع کی حرص میں ڈبل گیم کرنے کے بجائے روایات کے مطابق سختی سے ڈیل کرتے تو کام وہیں ختم ہو جاتا۔ باجوہ کی دوغلی پالیسی سے تمام ادارے کنفیوژ ہو گئے۔ کھل کر کھیلنے کا موقع عمران کو عفریت بنانے کیلئے انتہائی سازگار ثابت ہوا۔ نو مئی 2023 کو اسٹیبلشمنٹ کے پاس موقع آیا بغیر لحاظ ریاستی طاقت کا استعمال کرکے ماسٹر مائنڈ، سہولت کاروں اور حملہ آوروں کو انجام تک پہنچا دے لیکن عدالتوں سے میڈیا تک عجیب منظر رہا۔ آج تک کہا جارہا ہے کہ نو مئی تو الٹا پی ٹی آئی کے خلاف سازش تھی۔ تیسرا موقع تب آیا جب نواز شریف کی واپسی کے فوری بعد ن لیگ کو مسلسل متحرک اور جارحانہ عوامی رابطہ مہم شروع کرکے یہ تاثر دینا تھا کہ وہ ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آرہی ہے ۔مگر ن لیگ کاہلی اور خوامخواہ کی خود اعتمادی کے باعث الٹا اسٹیبلشمنٹ پر بوجھ بن کر اسکی طاقت کو کم کرنے کا سبب بن گئی۔ اب آگے بحران ہے۔ سب پوچھ رہے کہ حل کیسے نکلے گا؟ افسوس تو ہے کہ سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود ملک کو ایک جال میں پھنسا دیا گیا۔ ہر جنرل باجوہ کی طرح پست ذہنیت تجزیہ کاروں یا یو ٹیوبروں کے بھاشن سن کر پالیسیاں نہیں بناتا۔ کئی بے حد ذہین ہوتے ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے 2018 میں سب بھانپ لیا اور جنرلز کو بتا بھی دیا ۔ سب بے سود رہا ۔ جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا وہ 2022 میں عمران کی چھٹی ہونے کے بعد جنرل درانی کی یہ تحریر ملاحظہ فرمائیں۔

پاکستانی فوج آپ کو اچھی لگے یا بری۔ ملکی سیاست میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ بطور ایک ادارہ، فوج نے سیاست میں ہمیشہ اپنے اثر و رسوخ کی حد کو پہچانا ہے لیکن ہر تھوڑے عرصے بعد ایک نئی قیادت اس بیوقوفانہ اعتقاد کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ ملک ایک لیبارٹری ہے اور فوجی لیڈر شپ کو یہ خداداد حق حاصل ہے کہ وہ اس میں من مرضی کے تجربات کرے۔ ایک چیز جو ان سب سائنسدانوں کو بہت کام کی لگی وہ یہ کہ خود کو بچانے کے لئے ایک سویلین چہرہ سامنے رکھا جائے اور اختیارات اپنے پاس۔ اسے سیاسی انجینئرنگ کہا جاتا ہے اور یہ ہر بار ناکامی کا منہ دیکھتی ہے۔ تاہم، اپنی سرشت سے مجبور ہمارے فوجی حضرات سکاٹ لینڈ کے اس جنگجو بادشاہ بروس کی پیروی کرنے کو تو تیار ہوں گے جو مکڑی کے بار بار کوشش کرنے سے متاثر ہوا تھا لیکن دنیا کے عظیم ترین سائنسدان آئن سٹائن کے کہے پر عمل نہیں کریں گے جس کے مطابق ہر بار ایک ہی کام کرنا لیکن اس سے مختلف نتائج کی توقع رکھنا بیوقوفی کی بہترین مثال ہے 2018 کی گرمیوں میں میرا کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر جی ایچ کیو کافی آنا جانا رہا۔ مجھے لگا کہ ماضی کے کچھ مہم جو افسران کی طرح موجودہ کرتا دھرتا بھی ایک نیا چہرہ ڈھونڈ رہے ہیں جو ان کی حکمرانی کے لئے کور فراہم کرے تو میں نے سیاسی انجینئر ان چیف کے ایک قریبی ساتھی کے ذریعے ان سے درخواست کی کہ یہ نہ کریں کیونکہ اس کا پہلے بھی کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان کے جواب نے مجھے ششدر کر دیا: سر ہم ملک کی صفائی کرنے جا رہے ہیں۔ میں جلد ان سے مل کر انہیں مبارکباد پیش کروں گا کیونکہ ملک واقعی صاف ہو گیا ہے، گو یہ ان کی منشا کے مطابق نہیں ہوا۔ ذاتی مشاہدات اور ٹھوس شواہد کی ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ عمران خان طاقت کی ہوس میں مبتلا تھا اور اس سے بھی اہم یہ کہ یہ تخت تک پہنچنے کے لئے ایک فوجی پیراشوٹ کا متلاشی تھا۔ بہت سے فوجی رہنما اس کے جال میں آنے سے انکار کر چکے تھے لیکن چار سال قبل بالآخر یہ مکار شخص کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد جو بھی ہوا وہ ماضی قریب کا حصہ ہے لیکن ایک حیران کن امر نے اس کے مخالفین کو بھی حیران کر دیا وہ یہ کہ عمران خان کی فالونگ خاصی وسیع ہو چکی ہے؛ جن میں تعلیم یافتہ لوگ ہیں لیکن سمجھ بوجھ سے عاری۔ ان میں سے اکثر اس کے اقتدار کے دوران اس کے خلاف بولتے تھے لیکن اقتدار سے نکالے جانے کے بعد پرانے برے دنوں کی یادوں میں غلطاں ہیں۔ وزارتِ عظمی کے لئے عمران خان کو دو وجوہات کی بنا پر امیدوار سمجھا گیا تھا۔ اس نے 1992 کا ورلڈ کپ جیتا، لیکن لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے پاس ایک بہترین ٹیم تھی جس کا وہ جیت کے بعد شکریہ تک ادا کرنا بھول گیا تھا۔ اور ہاں، اس نے واقعی لاہور میں کینسر ہسپتال کے لئے پیسے اکٹھے کیے تھے، جس کے لئے عظیم گلوکار نصرت فتح علی خان نے اس کی دل کھول کر مدد کی جو کہ دنیا کا ایک مانا ہوا گلوکار تھا لیکن اس نے عمران خان کیلئے بغیر معاوضے کے دنیا میں جگہ جگہ فن کا مظاہرہ کیا۔ اس کی وفات کے بعد لیکن عمران خان نے دعوی کیا کہ اس عظیم گلوکار کو اس نے ہی دنیا سے متعارف کرایا تھا۔ لیڈر عموما کامیابی کی صورت میں کسی بھی چیز کا کریڈٹ لینے لگتے ہیں اور ناکامی میں اس سے دوری بنا لیتے ہیں لیکن عمران خان اس سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے لیڈرشپ کا یہ سنہرا اصول سامنے لائے کہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی کہی بات پر یو ٹرن لیتا ہے اور اس بے اصولی کے اصول پر وہ سختی سے کاربند رہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ عوامی فلاح کے ہر کام میں وہ ناکام ہوئے۔ کرپشن سے جنگ ان کا نصب العین تھا۔ کرپشن میں بھی پاکستان ان کے دورِ حکومت میں دنیا کے مزید ملکوں سے پیچھے چلا گیا۔ کسی نے ان سے این آر او نہیں مانگا، لیکن وہ مسلسل کہتے رہے کہ وہ این آر او نہیں دیں گے۔ کوئی ایک چور بھی پکڑا نہیں، لیکن کہتے رہے کسی کو چھوڑوں گا نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ امریکہ کو اڈے دینے پر راضی ہوں گے تو انہوں نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ بالکل نہیں۔ کسی نے ان سے اڈے مانگے جو نہیں تھے۔ مفروضوں پر مبنی سوالات کے جواب دینا کبھی سودمند نہیں ہوتا لیکن کم از کم اصل سوالوں کے جواب دینے سے یہ زیادہ آسان تھا۔ پھر اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لئے وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ وہ امریکی مفادات کے لئے اتنا بڑا خطرہ تھے کہ دنیا کی واحد سپر پاور انہیں اقتدار سے نکالنے پر تل گئی۔ امریکہ کے لئے ملکوں میں حکومتیں تبدیل کرنا معمول کی بات ہے لیکن وہ سفارتی ذرائع سے اپنی سازشوں کے بارے میں انہیں آگاہ نہیں کرتے۔لیکن عمران خان نے اپنے سٹینڈرڈ کے حساب سے بھی ایک حیران کن کام اس وقت کیا جب انہوں نے آرمی کو نیوٹرل ہونے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور فتوی جاری کیا کہ نیوٹرل صرف جانور ہوتے ہیں۔ ان کی فوج سے اصل مخاصمت یہ تھی کہ انہیں طاقت کے ایوانوں میں پہنچانے کے بعد جب انہوں نے سیٹی ماری تو وہ دوڑتی ہوئی ان کی مدد کو کیوں نہیں آئی۔ اور پھر انہوں نے اپنا مکر اس وقت بالکل واضح کر دیا جب ان کی پارٹی کو آئین کو سرِ عام پامال کرنے سے روکنے کے لئے عدالت رات کے وقت کھولی گئی۔ اسمبلی توڑنے کی آئین شکنی پر عدالتی احکامات کے ذریعے قابو پایا گیا۔ لیکن اس سب سے ان کے فالورز پر کوئی فرق نہیں پڑتا جنہیں ان کی صورت میں ایک مسیحا مل گیا ہے اور وہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ تاریکی کی گہری ترین گھاٹی میں ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی اتر کر رہیں گے۔ اس دوران ایک اور مزید گمبھیر مسئلہ بھی حل طلب ہے۔ملٹری کی بنائی ہوئی حکومتیں عموما فوج اور سویلینز کے درمیان کا ایک ہائبرڈ نظام کہلاتی ہیں۔ اس کا ایک مظہر، گو افسانوی ہی سہی، فریکینسٹائن مونسٹر (عفریت) تھا۔ یہ اپنے بنانے والے کو ہی کھا گیا۔ اسی طرح عمران خان بھی اب اپنے بنانے والے کو کھانے پر تلا ہے۔ لیکن اس بار مسئلہ کچھ زیادہ گمبھیر ہے۔ جو پاگل پن نظر آ رہا ہے، عمران خان بوتل سے نکلا ہوا جن بن گیا ہے۔ کیا کوئی جانتا ہے اسے واپس کیسے بند کیا جائے؟اردو کے عظیم شاعر پنڈت برج نارائن چک بست نے ہمیں قانونِ قدرت سے کھیلنے سے خبردار کیا تھا
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

بشکریہ روزنامہ نئی بات