مملکت میں نظام نمبر37نافذ ہوا چاہتا ہے ۔ سانپ نظام میں موجود، لکیر پیٹنے والے اپنا شوق جاری رکھیں ۔ وطن عزیز ! ایک بار پھر ” زیرو پوائنٹ ” پر ، نئے سفر کا آغاز ہوا چاہتا ہے ۔دھاندلی سے غرض نہیں کہ نظام پچھلے 70 سال سے دھاندلی پر ہی تو استوار ہے ۔ 1970 سے آج تک 12 عام انتخابات ہو چکے ، ایک بھی تو نہیں کہ ” عزت سادات ” محفوظ رہی ہو ۔ 8 فروری کا الیکشن ” وکھری ٹائپ ” کا کہ اس میں ہر سیاسی جماعت بشمول PTI شاکی ضرور ، ہر ایک کو کسی نہ کسی مد میں کچھ نہ کچھ مل جائے گا ۔ ہمیشہ کیطرح اسٹیبلشمنٹ سرخرو کہ آنے والی حکومت میں رول پہلے سے زیادہ موثر رہنا ہے ۔ پچھلے چند سال سے سوشل میڈیا کا سچی خبر وں بارے کنجوسی جبکہ جھوٹ ، انتشار ، بدتمیزی ، الزامات، عزتوں کی پامالی ، بہتان گالم گلوچ کی حکمرانی اور اخلاقی اقدار کی شکستہ حالی میں زمین آسمان کے قلابے ملا رکھے ہیں ۔
سوشل میڈیا ہی نے تو عمران خان کو ولی ، اوتار ، مرشد ، ہر سو” تو ہی تو ” بنائے رکھا ۔ عمران خان نے ” بذریعہ سوشل میڈیا انقلاب لانا تھا ” ۔ انگریزی کا محاورہ ، ” تلوار کے زور پر زندہ رہنے والا تلوار سے مرتا ہے ” ۔ آج عمران خان کی امانت ، دیانت، شفافیت ، قابلیت سوشل میڈیا نے تار تارکر رکھی ہے ۔ دہائیوں سے نقیب ، پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کو غیر معمولی پذیرائی ملتی ہے ۔ عمران خان سے پہلے بھی کئی رہنما مستفید ہو چکے ہیں ۔ماضی گواہ کہ مقبول بیانیہ کا اعجاز ہی کہ کبھی کسی کو قبول نہیں کیا گیا ۔اسٹیبلشمنٹ کی خوش قسمتی تمام سیاسی جماعتیں بشمول PTI نامساعد حالات میں بھی ، ” بتوں سے تجھ کو امیدیں ” ۔ بلاشبہ 1ماہ بعد نظام نمبر 38 بھی نظام نمبر 37سے مختلف نہیں ہونا۔ تاحدِ نگاہ اسٹیبلشمنٹ غالب نظام نے ہی نافذ رہنا ہے ۔ یقین کامل کہ سیاسی استحکام یا سول ملٹری تعلقات و اداروں کی حدود کاتعین،اسٹیبلشمنٹ کے تخلیق کئے مہروں کے ہاتھ سے نہیں ہونا ۔ عمران خان کے سلسلہ سیاست کی حقیقت ، کوچہ سیاست سے نابلد، 26 اپریل 1996 تا 15 فروری 2024 ، ایک سیاسی فیصلہ نہیں جس پر موصوف نے بعد ازاں تاسف نہ کیا ہو یا یوٹرن نہ لیا ہو ۔ موصوف سیاسی حکمت ، بصیرت ، تدبر ، تدبیر سے یکسر عاری ہیں ۔ اپنی شخصیت اور ذاتی اغراض کے سحر میں گرفتار ، سیاسی IDEALISM سے کوسوں دور ہیں ۔ وثوق سے کہتا ہوں کہ نئے نظام میں معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں گے۔ ساری سیاسی جماعتیں پرانی تنخواہ پر کام کریں گی ۔ الیکشن سے چند ہفتے پہلے گوہر خان کے حوالے پارٹی کرنا اور علی گنڈاپور کو وزیراعلی نامزد کرنا ، سب کچھ اسٹیبلشمنٹ کی آسودگی و خوشنودی کیلئے ہے۔
“وحشت میں ایک نقشہ الٹا نظر آتا ہے ” ۔ یاد ش بخیر ” بھائی لوگوں ” نے 2014میں جب عمران قادری جوڑے کو کنٹینر پر چڑھایا اور نواز شریف کے استعفی نہ دینے کی صورت میں ” جوڑے ” نے وزیراعظم ہاؤس میں گھسنے کا عزم دہرایا ، ” بھائی لوگوں ” کا اسکرپٹ ہی تو فالو کیا تھا ۔ ازراہ تفنن ، دھرنے کی بنیاد 2013 کے الیکشن میں دھاندلی ہی تو تھی ۔ آج کے بحران نے 2014 کے دھرنے کی کوکھ ہی سے تو جنم لیاہے ۔ خاطر جمع 2024کی دھاندلی پر سینہ کوبی ہوئی تو پھر 2018الیکشن کی گونج غالب رہے گی ۔
اسٹیبلشمنٹ کو قابو رکھنے کیلئے ترک صدر طیب اردوان جیسا دیدہ ور چاہیے ۔ ترک فوج نیجب ترکی کو بچایا تو ہمیشہ کیلئے حکمران بن گئے ۔ آخر کار صدر اردوان نے سو سال بعد کمالِ مہارت سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے فوج کو بصیرت، معاملہ فہمی ، تدبر تدبیر سے سیاست سے باہر کیا اور ملکی آئین سے انکا رول ختم کر دیا۔ غلط فہمی برطرف! نواز شریف ، زرداری ، عمران خان ، فضل الرحمن ، سراج الحق سارے اکٹھے بھی ہو جائیں تو اردوان جیسا فریضہ سر انجام دینا انکے بس کا روگ نہیں ۔ دورائے نہیں ، وطنی سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کی صفوں میں اسٹیبلشمنٹ بدرجہ اتم موجود ہے ۔ ہر کس سیاسی فیصلے شعوری لاشعوری اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات سے مطابقت رکھتے ہیں ۔ جب گوہر خان کو عمران خان نے پارٹی صدر بنایا تو ” موگیمبو ” یقینا خوش ہوا ، چشم تصور میں الیکشن میں کچھ رعایت ملنا تھی ۔ ” بلا ” کا نشان نہ ملا البتہ اتنی رعایت کہ بالغ رائے دہی اور کم مشکلات کیساتھ بھرپور حصہ لینے کی آزادی مل گئی۔ علی امین گنڈا پور کابطور وزیراعلی انتخاب بھی اسٹیبلشمنٹ کو آسودگی دے گا۔
انتخابات کے نتائج پر میرا موقف ، نواز شریف کو ہر صورت اپوزیشن لیڈر بننا چاہیے تھا ۔ نواز شریف اقتدار لینے پراسی صورت میں راضی ہوتے جب سادہ اکثریت ملتی وگرنہ اپوزیشن میں بیٹھنا انکی بھی پہلی ترجیح تھی ۔ نواز شریف کا موقف دھرے کا دھرا کہ بالآخر اسکرپٹ ہی نے نافذ ہونا تھا ۔ پیپلز پارٹی کی اپنی ترجیحات ، تحریک انصاف کیساتھ گٹھ جوڑ کے امکانات موجود تھے ، بصورت دیگر ، ن لیگ کی حکومت میں شامل ہوئے بغیر انکی حمایت کرنی تھی ۔ دورائے نہیں کہ اس وقت اندرون خانہ PPP اور PTI کے مذاکرات بھی جاری ہونگے ۔ آج JUI کے علاوہ ساری جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی تابع ہیں۔ مولانا فضل الرحمن پھر بازی لے گئے، تحریک انصاف کے 12 سالہ رویہ کو پس پشت ڈال کر نیک جذبات کا اظہار بھی کیا اور اسٹیبلشمنٹ کو للکارا بھی۔
6 دن گزر گئے، سوشل میڈیا کاطوفانِ بدتمیزی دم توڑ رہا ہے ۔ 8فروری کی رات کو سوشل میڈیا کے ذریعے اودھم مچایاگیا کہ شاید دباو میں مزید کچھ نشستیں مل جائیں ۔ سوشل میڈیا ہنگام نے چند دن سنجیدہ طبقہ ، بڑے بڑے دانشوروں کے ہاتھ پاوں پھلائے رکھے ۔ پیالی کا طوفان تھم چکا ، “پاکستان ٹوٹ رہا ہے” ، KPK میں امکانی بغاوت ، ” جاگ پنجابی جاگ ” کے نعروں نے اعصاب شل کر رکھے تھے ۔ پاکستان توڑنے والوں کی زبان گدی سے کھینچ باہر نکالنی ہوگی ۔ امید راسخ ، ساری سیاسی جماعتیں بشمول PTI پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر آمادہ ہو چکی ہیں ۔ البتہ “لائن آف کنٹرول ” پر ہلکی پھلکی خلاف ورزیاں جاری رہیں گی ۔ تحریک انصاف پارلیمان میں اوربذریعہ KP حکومت ، اسٹیبلشمنٹ کے تصرف میں ہے ۔ شہباز شریف بطور وزیراعظم 2 آرمی چیفس کا انتہائی بحرانی دور خوش اسلوبی سے نبھا ، نبٹا چکے ہیں ۔ 2آرمی چیفس سے مل کر 18مہینے اقتدار چلایا، مہارت کام آئے گی ۔ بلاشبہ آنے والی حکومت جنرل مشرف / شوکت عزیز ماڈل ہی ہوگا۔
نواز شریف صاحب کی سیاست اور انکا سیاسی مستقبل آج کی تاریخ میں مخدوش نظر آ رہا ہے ، قریبی ساتھیوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکا ہے ۔ گارنٹی ! بہرصورت آئندہ حکومت 5 سال پورے کرے گی۔ صد افسوس !”مادر پدر آزاد الیکشن” سے وجود میں آنیوالی” مادر پدر آزاد جمہوریت” میں عدم استحکام بڑھنا ہے ۔ پاکستان دشمنوں کو کھل کھیلنے کا موقع میسر رہنا ہے ۔ نظام نمبر 37 میں بھی پرنالہ وہیں کا وہیں رہے گا ۔ پاکستان کیلئے دعا گو ہوں ، پاکستان باقی! کہسار باقی!
بشکریہ روزنامہ جنگ