ایسا لگتا ہے کہ ن کا سیاسی چہرہ،نونی ووٹ بینک کا اصل مرکز اور برسوں سے پنجاب کی بزنس کلاس کا پسندیدہ لیڈر روٹھ گیا ہے۔ اسے کمزور حکومت کا چیلنج قبول کرکے خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا چاہئے تھا مگر اس نے سٹیئرنگ اپنے منیجر بھائی کے حوالے کر دیا ،ہو سکتا ہے کہ وہ اب بھی بیک ڈرائیونگ کرے لیکن جب وہ خود ڈرائیو کرتا تھا تو ساتھ ساتھ سیاست بھی کرتا تھا چھوٹے بھائی کا زیادہ فوکس مینجمنٹ پر ہے سیاست پر نہیں۔
وہ سوچتا تو ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا اور کس نے یہ کیا ؟اسے بڑے شوق سے واپس لایا گیا مقدمات ختم ہوئے لیول پلینگ فیلڈ کا بندوبست ہوا، مخالف جیلوں میں ڈالے گئے بہترین امیدوار تھے ان میں سے بھی چن چن کر کھڑے کئے گئے، مقتدرہ بھی مہربان تھی بس کمی تھی تو بیانیے کی، مظلوم کارڈ مخالف پارٹی کے پاس چلا گیا تھا، معیشت کا نعرہ اس لئے کامیاب نہ ہوا کہ پی ڈی ایم حکومت کی معاشی کارکردگی بہت خراب تھی۔عدلیہ کے خلاف بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس لئے نہ چل سکا کہ موجودہ عدلیہ تو مہربان تھی، اسی لئے تضاد کو سمجھنا اور سمجھانا مشکل تھا۔ماضی کی مقتدرہ کے خلاف بھی کھل کر بولنے میں کئی امر مانع تھے وہ بھی نہ بول سکے ،کچھ ذاتی مسائل بھی آڑے آتے رہے ،وہ کبھی بہت زیادہ نہیں بولتا کئی لوگ پیار سے اسے گونگا پہلوان بھی کہتے ہیں۔ پاکستان آنے کے بعد سے نہ وہ میڈیا سے ملا نہ ہی عام لوگوں سے ،مخصوص لوگوں کے گھیرے نے اسے زمینی حقائق سے بہت دور رکھا اور جب نتائج سامنے آئے تو اسے محسوس ہوا ہو گا کہ جس نے بھی یہ سب کیا ہے اس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے۔ اس کا اقتدار سے پیچھے ہٹنا اس کی روٹھنے کی نشانی ہے جس سے نون کے ووٹر کا دل ضرور ٹوٹا ہوگا۔
الیکشن سے چند دن پہلے مقتدرہ اسے مضبوط حکومت دینے پر آمادہ تھی، معیشت کی ترقی کیلئے بنگلہ دیش ماڈل بنا کر مقتدرہ اور عدلیہ کی مکمل حمایت اسے دینا تھی مگر مقتدرہ کے منصوبے اور اندازے دونوں ناکام ہوئے، اصل وجہ مقتدرہ کایک جان نہ ہونا اور بار بار منصوبے بدلنا تھی کبھی آزاد امیدواروں کا میلہ لگانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو کبھی ہنگ پارلیمنٹ کی، کبھی نون کوسب کچھ دینے کی بات کی جاتی اور کبھی کہا جاتا کہ دوائی زیادہ ڈل گئی تو نون کو روکیں گے کیسے ؟کبھی کہا جاتا کہ وہ تو ماضی میں کبھی مقتدرہ سے لڑتا رہا ہے اس بار بھی لڑے گا اس لئے بندوبست پہلے سے کر لینا چاہئے۔مقتدرہ کے دو بڑے تو چاہتے تھے کہ وہ آئے اور مضبوط حکومت چلائے لیکن دو بڑوں کے نیچے والے اس حکمت عملی سے متفق نہیں تھے وہ چیک اینڈ بیلنس کے زیادہ حامی تھے۔ مقتدرہ کے بدلتے ہوئے فیصلوں نے اسے لازما مایوس کیا ہو گا اسی لئے وہ روٹھ کے بیٹھ گیا ہے۔
اس نے چار دہائیوں سے بھی طویل اپنے سیاسی کیریئر میں کئی اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ،وہ مقتدرہ کے لاڈلے کی حیثیت سے سیاست میں وارد ہوا اس ضیائی زمانے میں پیپلز پارٹی سوتیلی تھی اس کے مخالف لاڈلے ہوا کرتے تھے ، صوبائی وزیرخزانہ بنا پھر وزیر اعلی پنجاب کا عہدہ حاصل کیا، اس زمانے میں لاہور اور پنجاب پیپلز پارٹی کا لاڑکانہ ہوا کرتا تھا۔ اس نے ترقی ، معیشت اور روزگار جیسے حربے اختیار کرکے اپنی سیاسی گنجائش نکالی اور پھر کبھی خوف اور کبھی ترغیب و تحریص سے آہستہ آہستہ پیپلز پارٹی کو کمزورکیا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ پنجاب کی مڈل کلاس بالخصوص پنجاب کی بزنس کلاس کی آنکھوں کا تارا بن گیا۔پی پی پی مخالف محاذ آرائی کا چمپئن ہونے، دائیں بازو کے واحد بڑے لیڈر ہونے اور اپنے مذہبی تشخص سے اس نے جماعت اسلامی اور مذہبی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی اپنی طرف کھینچ لیا ۔پیپلز پارٹی پنجاب میں اسکی سیاست کا مقابلہ نہ کر سکی اور آہستہ آہستہ اس کا ووٹ بینک بالکل ہی ختم ہوگیا ۔دوسری طرف لاڈلا بھی آزمائشوں میں مبتلا ہو گیا مقتدرہ سے بگڑی تو سوتیلا ہوگیا مگر سمجھ دار بہت تھا ہمیشہ پچھلا دروازہ کھلا رکھتا۔لڑائی کے ساتھ ساتھ مذاکرات بھی کرتا رہتا، چار بار مقتدرہ سے لڑا اور پھر صلح کرتا رہا ۔آج کل پھر مقتدرہ کا لاڈلا تھا مگر سازشوں کا مقابلہ نہ کرسکا ،پہلی بار موثر بیانیہ نہ بنا سکا لاڈلے اور سوتیلے میں فرق کو بیان نہ کر سکا۔ خان کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش نہ کر سکا ،انتخابات میں سب سے اہم سوال یہ تھا کہ خان کا کیا کرنا ہے ؟ وہ جواب دیتا تھا مقتدرہ سے پوچھو حالانکہ جواب ہونا چاہئے تھا کہ اس مسئلے کوحل میں کرونگا۔لوگ اسے بھولا سمجھتے ہیں لیکن وہ بہت سیانا ہے مگر اس بار غصے کی وجہ سے مار کھا گیا، غصے میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے ،مصالحت کی بات کرتا تو تحریک انصاف غیر متعلق ہو جاتی معافی نہ دیکر اس نے پی ٹی آئی کو زندہ رکھنے میں مدد دی، اب وہ مریم اور شہباز کی سیاست میں سرپرستی کرے گا ۔قومی اسمبلی میں نمائندگی کرے گا لیکن اصل توجہ پنجاب پر دے گا تاکہ مریم کو مستقبل کا سیاسی چہرہ بنا سکے۔ میری رائے میں جس طرح انسان کی زندگی کے مختلف مراحل ہوتے ہیں بچپن، جوانی ،بڑھاپا اور موت اسی طرح سیاسی جماعتوں پر بھی مختلف مراحل گزرتے رہتے ہیں ۔نون لیگ بھی بچپن سے جوانی میں آئی اور اب بڑھاپے کی طرف جا رہی ہے، اسے چوتھی بار مرکز میں اقتد ارمل رہا ہے بڑھاپے کی نشانی یہ ہوتی ہیکہ اس جماعت میں نئے لوگ بالخصوص نوجوان آنا بند ہو جاتے ہیں، بدقسمتی سے یہی بیماری پیپلز پارٹی کو بھی لاحق ہے۔بلاول بھٹو نوجوان ہونے کے باوجود پنجاب کی یوتھ کیلئے کشش نہیں بن سکے ۔دوسری طرف مسلم لیگ نون کی قیادت عرصہ دراز سے پرانے چہروں کیساتھ سیاست کر رہی ہے نوجوان قیادت کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی نیا ووٹ نون کی طرف نہیں آ رہا ۔خان بھی بوڑھا ہے مگر یوتھ اسی کی طرف مائل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اگر تو نون اور پیپلز پارٹی نے زندہ رہنا ہے تو نوجوانوں کو اپنی جماعتوں میں شامل کریں۔برطانیہ میں ینگ کنزرویٹو اور ینگ لیبر بڑے متحرک ونگ ہیں انکو مثال بنا کر پاکستان کی سیاسی جماعتیں یوتھ ونگز کو متحرک کریں۔
وہ بے شک جاتی عمرا میں بیٹھ کر سیاست ہی کرے گا مگر وہ لاکھوں لوگ جو اسے اپنا لیڈر مانتے تھے مایوس ہو گئے ہیں۔ اسے چاہئے کہ جاتے جاتے کچھ ایسا کرے کہ پارٹی میں جان پڑ جائے اب تو اسکی کوئی مجبوری بھی نہیں اقتدار خود تو لینا نہیں اب سچ بولے، پارٹی مفادات سے اوپر اٹھ کر قومی مفادات کی بات کرے ،نفرت کو سلانے کی خاطر خان سے بھی بات چیت کرنے کا راستہ ہموار کرے، وہ پاکستان میں اس وقت سب سے زیادہ تجربہ کار سیاست دان ہے، اپنے تجربے کا جادو چلاکر سیاست میں مفاہمت کی بنیاد رکھ جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ