کس کی، کیسی اور کونسی حکومت : تحریر مزمل سہروردی


عام انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان میں سیاسی بحران ختم نہیں ہوا ہے۔ عوام نے کسی ایک جماعت کو مکمل مینڈیٹ نہیں دیا ہے۔ اس لیے مرکز میں کوئی ایک جماعت بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تاہم صوبوں میں مضبوط حکومتیں بن رہی ہیں۔ آپ دیکھ لیں سندھ میں ایک مضبوط حکومت بن رہی ہے۔ وہاں پیپلزپارٹی کو مکمل مینڈیٹ مل گیا ہے۔

پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت بن رہی ہے۔ وہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے پنجاب میں بھی ایک مضبوط حکومت بن رہی ہے۔ اسی طرح کے پی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی اکثریت ہے۔ وہ وہاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔

اگر تحریک انصاف کے پی میں متحد رہتی ہے اور سوچ سمجھ کر وزیر اعلی کا امیدوار سامنے لاتی ہے تو ان کی کے پی میں ایک مضبوط حکومت بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے وہاں بھی بڑی جماعتوں کے پاس زیادہ سیٹیں ہیں۔ کوئی بھی دو جماعتیں مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔ اس لیے وہاں بھی کوئی بحران نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔ پیپلزپارٹی اور جے یو آئی (ف) مل کر حکومت بنا سکتی ہیں۔

جہاں تک مرکز کا تعلق ہے۔ حکومت سازی کے سارے مسائل مرکز میں ہیں۔ کسی بھی ایک سیاسی جماعت کے پاس اکثریت نہیں ہے۔ کوئی بھی ایک سیاسی جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

بلکہ اگر دیکھا جائے تو کوئی دو سیاسی جماعتیں بھی مل کر حکومت نہیں بنا سکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اگر مل بھی جائیں تب بھی انھیں اور جماعتوں کی ضرورت ہو گی۔

اس لیے مرکز میں مسائل ہیں۔ وہاں ایم کیو ایم کی بھی ضرورت ہے۔ وہاں اور جماعتوں کے دو دو ووٹوں کی بھی اہمیت ہے۔ لیکن بڑی جماعتیں یہ بھی سوچ رہی ہیں کہ یہ چوں چوں کا مربہ حکومت کیسے چلے گی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ن لیگ پی ڈی ایم کے ماضی کے تجربہ سے کوئی خاص خوش نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی کے بھی اپنے تحفظات ہیں۔ اس لیے دونوںجماعتیں ایک مشکل میں ضرور ہیں۔ لیکن اتحاد ان کی پہلی ترجیح نہیں ہے۔

بلاول بھٹو کے لیے فوری طور پر شہباز شریف کی وزارت عظمی میں بیٹھنا سیاسی طور پر درست نہیں لگ رہا۔ انھوں نے انتخابی مہم میں جو گفتگو کی ہے اس کے بعد وہ شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر بن جائیں یہ ان کے شایان شان نہیں لگ رہا۔ اگر وہ کابینہ میں نہیں ہوں گے تو اتحاد کیسے چلے گا۔ اس لیے مشکلات ہیں۔ ابھی الیکشن کو دن ہی کتنے ہوئے ہیں، لوگوں کو سب یاد ہے، آپ اس طرح فورا یو ٹرن نہیں لے سکتے۔ اس لیے مشکلات ہیں۔

پیپلزپارٹی کے لیے آئیڈیل تو یہی ہے کہ وہ خود وزیر اعظم بن جائے۔ ان کی خواہش تو یہی ہے کہ اب ن لیگ کے وزیر اعظم کو سپورٹ کرنے کے بجائے وزیر اعظم کا عہدہ ان کو مل جائے۔ لیکن ان کے ووٹ اتنے کم ہیں کہ وہ اپنا وزیر اعظم نہیں لا سکتے۔چھوٹی جماعت کا وزیر اعظم کیسے چلے گا۔

بڑی جماعتیں اسے کیسے چلنے دیں گی۔ لیکن مسئلہ تو یہ بھی ہے کہ چھوٹی جماعتیں بڑی جماعت کے وزیر اعظم کو بھی چلنے نہیں دیں گی۔ اس لیے ماحول ایسا ہے کہ وزیر اعظم چاہے بڑی جماعت سے بن جائے چاہے چھوٹی جماعت سے بن جائے۔ وہ مضبوط وزیر اعظم نہیں ہوگا۔ چوں چوں کا مربہ ہوگا۔ جس کے ہاتھ پاں اس کے اتحادیوں نے ہی باندھے ہونگے۔

ایک منظرنامہ اور بھی بن سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت بن کر سوچے تو انھیں اس وقت حکومت سازی کے عمل سے لاتعلق نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں مرکز میں حکومت سازی کے لیے اپنی عددی اکثریت کو استعمال کرنا چاہیے۔اسے کچرے کے ڈبے میں نہیں پھینکنا چاہیے۔ اگر وہ حکومت سازی کے عمل سے لاتعلق ہو جائیں گے تو پھر ان کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا۔ آج تحریک انصاف کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنے سیاسی کارڈ کھیل کر اپنا کردار بنائے۔ اسے خود کو سیاسی کھیل میں اہم رکھنا ہوگا۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کیا کر سکتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ان کے لیے ن لیگ کی حمایت کرنا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہے۔ وہ شہباز شریف یا نواز شریف کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ نہیں دے سکتے۔ لیکن کیا وہ پیپلزپارٹی کی حمایت کر سکتے ہیں۔

تحریک انصاف کو صورتحال کا اندازہ کرنا ہے کہ اس کے وزیر اعظم کو کوئی ووٹ نہیں ڈالے گا۔ اس لیے انھیں کسی پارٹی کو یہ طاقت دینی ہے کہ وہ اپنا وزیر اعظم لے آئے۔ اگر تحریک انصاف آج اعلان کر دے کہ انھیں بلاول بھٹو وزیر اعظم قبول ہے۔ تو پھر ن لیگ بھی بلاول کی حمایت کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔

بلاول بھٹو متفقہ وزیر اعظم بھی بن سکتے ہیں۔ لیکن ن لیگ مخالفت بھی کر سکتی ہے اور اپوزیشن میں بھی بیٹھ سکتی ہے۔ ن لیگ کے لیے اپوزیشن کا دروازہ کھل جائے گا۔ لیکن تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی حکومت ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی حکومت سے زیادہ طاقتور حکومت ہوگی۔ ن لیگ پنجاب لے کر راضی ہوگی۔ لیکن تحریک انصاف دبے دبے الفاظ میں اس پر راضی تو لگ رہی ہے لیکن عمران خان پر مقدمات ختم کرنے کی بات ہے۔ شاید وہ پیپلزپارٹی کے بس میں نہ ہو۔

سوال یہ بھی ہے کہ جو بھی وزیر اعظم بن جائے گا وہ کام کیسے کرے گا۔ وہ اتحادیوں کو راضی کرنے میں زیادہ وقت لگائے گا، کام کرنے کا وقت ہی نہیں ملے گا۔ پہلے بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ایک کمزور حکومت پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ کمزور وزیر اعظم پاکستان کے لیے بڑے فیصلے کیسے کرے گا۔ کمزور اتحادی حکومت سخت فیصلے کیسے کرے گی۔

وہ اتحادیوں کے دباؤ میں رہے گی۔ اتحادی حکومت کے مزے لیتے ہیں لیکن حکومت کی کارکردگی کا وزن نہیں اٹھاتے۔ وزیر اعظم کی جماعت اکیلی پھنس جاتی ہے۔اس لیے سیاسی جماعتوں میں تحفظات ہیں۔ کام کرنے کا ماحول چاہیے جو موجودہ سیاسی ماحول میں مل نہیں سکتا۔ اتحادی حکومت میں صرف وزارتوں کی بندر بانٹ ایک مسئلہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ہر قدم پر اتفاق رائے بنائے رکھنا بھی مسئلہ ہوتا ہے۔

مشکل فیصلوں کی ذمے داری نہیں لی جاتی۔ لیکن حکومت کے مزے لیے جاتے ہیں۔ اس لیے سب ڈرے ہوئے ہیں۔ آپ کو حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے خدشات بھی ہیں جن کو بھی دیکھنا ہوگا۔ اس لیے مجھے مرکز میں حکومت بن کر بھی کوئی حکومت نظر نہیں آرہی ہے۔ لیکن کیا کریں یہی مینڈیٹ ہے۔

کیا صوبائی حکومتیں بنا کر مرکز کے انتخابات دوبارہ کروائے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک مشکل سوال ہے۔ لیکن یہ ایک حل ہے۔ لوگوں سے دوبارہ مینڈیٹ مانگ لیا جائے۔ لیکن شاید اس کا بھی حوصلہ نہیں ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس