الیکشن نے سب کو حیران اور بہت سوں کو پریشان کر دیا۔ سب اندازے، تجزیے غلط نکلے۔ تحریک انصاف کے ووٹر،سپورٹر اتنے نکلے کہ ہر طرف چھا گئے۔ انتخابات سے پہلے تمام تر پابندیوں، سختیوں ، جلسے جلوس کرنے کی اجازت نہ ملنے کے باوجود، بلےکے بغیر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے۔ قومی اسمبلی میں نمبر ون، خیبر پختونخوا میں تو سویپ کر لیا، پنجاب بھی میں ایک بڑا نمبر حاصل کر لیا اوریہ سب کچھ 2018 کے آر ٹی ایس کے بدلے میں الیکشن کمیشن کے نئے نظام ای ایم ایس کے بیٹھنے کے باوجود ممکن ہوا۔ الیکشن کمیشن کا الیکشن کے نتائج مرتب کرنے کے حوالے سے بنایا گیا ای ایم ایس (Election Management System) تو آر ٹی ایس کا بھی باپ نکلا۔ یہ نظام ماضی کے آ ر ٹی ایس کی طرح پہلے تو بیٹھ گیا اور پھر جب صبح اُٹھا تو مبینہ طور پر رات کو کئی ہارنے والوں کو جیتنے والا اور کئی جیتنے والوں کو ہارنے والے بنا دیا۔ تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اُس کے کوئی پچاس ساٹھ جیتے ہوئے امیدواروں کو ای ایم ایس کو بٹھا کر ہرایا گیا۔گویا 8 فروری تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کے لیے ’’ـبدلہ لینے‘‘ یا ’’انتقام لینے‘‘ کا دن ثابت ہوا۔ـ دھاندلی کے الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت بنانے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن ابھی تک کے الیکشن نتائج کے مطابق وفاق میں کوئی ایک جماعت بھی اکثریت حاصل نہیں کر سکی، اس لیے یہاں صرف ایک مخلوط حکومت ہی بن سکتی ہے جس کیلئے ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیوایم ، جے یو آئی ایف وغیرہ میں پہلے ہی بات چیت شروع کر چکی ہے۔ وفاقی سطح پر تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدواروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے حکومت سازی کیلئے ابھی تک کسی سیاسی جماعت سے رابطہ کرنے کی اطلاعات نہیں ملیں۔ دھاندلی کے الزامات اور ان الزامات کی شنوائی کا جو نظام ہمارے ہاں موجود ہے اُس سے تحریک انصاف کو وہ 150 یا 170 سیٹیں فوری نہیں ملیں گی جس کا وہ دعویٰ کر رہی ہے۔ اس لیے بہتر ہوتا کہ تحریک انصاف دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح حکومت سازی کیلئے کوشش کرتی اور ساتھ ساتھ اپنے دھاندلی کے الزمات کیلئے قانونی چارہ جوئی کرتی رہتی۔ تحریک انصاف کے ترجمان کی خواہش (کہ حکومت سازی کے عمل کو اُس وقت تک روکا جائے جب تک کہ تحریک انصاف کی طرف سے دھاندلی کے الزمات کا فیصلہ نہیں ہوتا) تو کسی صورت کوئی پوری نہیںکر سکتا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اور اس کے بانی چیئرمین عمران خان ن لیگ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم وغیرہ سے مل کر حکومت بنانےکیلئے ہاتھ ملانےپر تیار ہونگے؟ اگر دوسروں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے تو پھر وفاق میں حکومت کیسے بنے گی۔ عمران خان کے ماضی کے رویے کی وجہ سے کسی بڑی سیاسی جماعت کی طرف سے تحریک انصاف سے بھی رابطہ کی اطلاعات نہیں ملیں۔ تحریک انصاف نے ووٹ تو بہت لیے لیکن اگر وہ ماضی کی طرح کسی دوسری سیاسی جماعت سے بات نہیں کرے گی یا پھر دھاندلی کا رونا ہی روتی رہے گی تو پھر وہ وفاق میں حکومت کیسے بناسکتی ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کیلئے یہ بھی چیلنج ہے کہ آزاد حیثیت میں جیتنے والے اپنے اراکین قومی اسمبلی کو سنبھالے کیوں کہ خطرہ موجود ہے کہ ان میں سے کئی ،حکومت کا حصہ بننے کی لالچ میں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں جا سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں تو تحریک انصاف کو حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا، پنجاب میں ممکنہ طور پر ن لیگ ہی حکومت بنائے گی جبکہ وفاق میں اگر تحریک انصاف کو حکومت بنانی ہے تو اپنےماضی کے رویے سے ہٹ کر اپنے سیاسی مخالفین سے ہاتھ ملانا پڑے گا۔ اگر ایسا ہو جائے تو سب کیلئے بہت اچھا ہو گا لیکن مجھے ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ پاکستان کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ سب سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنائیں اور اس ملک و قوم کو مشکلات سے نکالیں ۔ یہ ایک خواب ہے جو نجانے کب پورا ہو گا۔ فی الحا ل جو نظر آ رہا ہے اُس کے مطابق وفاق میں پی ڈی ایم طرز کی ہی حکومت بنے گی، پنجاب میں ن لیگ، کے پی کے میں تحریک انصاف، سندھ میں پی پی پی اور بلوچستان میں ایک مخلوط حکومت بنے گی جس کا وزیراعلی ٰممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کا ہوگا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ