“اور سست نہ پڑو، اور غمگین نہ ہو، تم ہی اونچے ہو اگر تم مومن ہو” (القرآن – آلِ عمران)
اقامتِ دین کا کارکن سماج کی بگڑی اقدار کے خلاف کھڑا ہوتا ہے. معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط فکر، غلط رسوم و روایات، عقائد و نظریات، افکار و تصورات، میلانات و رجحانات اور عزت و ناکامی کے بنائے انسانی پیمانوں سے بغاوت کرتا ہے. اس پر معاشرے، مقتدر قوتوں کا اتنا شدید دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں ٹِک نہیں سکتا جب تک کہ پشت پر کوئی ایسی طاقت موجود نہ ہو جو انسانوں سے زیادہ قوی، پہاڑ سے زیادہ مضبوط اور زندگی سے زیادہ اٹل ہو. اِسی لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اِس طوفانِ کشمکش میں یکہ و تنہا، بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا کہ وہ حزن و غم اور احساسِ ناتوانی سے ہمت چھوڑ بیٹھے، بلکہ مالکِ کائنات کی رحمت، شفقت اور محبت کا ہاتھ اس پر ہوتا ہے اور سورہِ آلِ عمران کی اس آیت کا اقامتِ دین کے کارکنان کے لیے جاں افروز پیغام ملتا ہے.
ناکامی ایسی کیفیت ہے جس میں حزن و غم کا بھی حملہ ہوتا ہے، احساسِ ندامت و ناتوانی بھی ہوتا ہے، پائے استقامت کو اکھاڑنے کا ہر منفی اور شیطانی حربہ ہوتا ہے، اجتماعیت کی پاکیزہ طاقت کو توڑپھوڑ دینے کا بھی ظاہری خفیہ حربہ ہوتا ہے. حوصلہ، صبر و استقامت، اعصاب کو درست سمت میں راہِ راست پر رکھنا ہی اسلامی تحریک کی کامیابی ہوتی ہے. حکمتِ عملی پر غور کرنا، غلطیوں سے سیکھنا اور اصلاح کرنا، شدتِ غم اور شدتِ جذبات میں چرکے لگانے کی بجائے عزمِ نو اور ازسرِنو اقامتِ دین کی جدوجہد تیز کرنا ہے. قیادت، ذمہ داران، اصحابِ رائے اور کارکنان رضائے الٰہی کے اِس عزم پر قائم ہیں کہ اللہ ہی اُن کا سب سے بڑا سہارا، اُن کے نصب العین کا سرچشمہ، سب سے اونچا سرچشمہ ہے. بھلا دنیا میں پھیلائی گئی گمراہیوں اور انسانوں کی خاص مقاصد کے تحت ذہن سازی کے مقابلے میں کم حوصلہ کیوں ہوتا ہے! دنیوی قدروں اور کھوکھلے انسانی پیمانوں سے اُلجھ کر ہمت نہ ہار بیٹھیں. آگے بڑھنے کی سبیل بنائیں، دنیا ختم نہیں ہوئی، بڑا سفر آگے ہے، ہمیں تو اللہ ہی سے لینا ہے، اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے اور اللہ کے راستے پر ہی چلتے رہنا ہے. بس جی، پیغام یہ ہی ہے…!!!
تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عُقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
(اقبال رحمتہ اللہ علیہ )
Load/Hide Comments