لاہور میں ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی فروری میں کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا ۔شاٸقین کو اس کا بہت انتظار ہوتا ہے ۔میں بھی اس میلے کا انتظار عید کی طرح کرتی ہوں۔فروری کا مہینہ تو ویسے ہی سال کا بہت خوبصورت مہینہ ہوتا ہے کھلا کھلا ہلکی پھلکی سردی کے ساتھ اور اس پر کتاب میلہ ،کتاب دوست شخصیات کے لیٸے مزید خوبصورتی پیدا کر دیتاہے ۔اس مرتبہ بھی ایسا ہے ہوا کہ منیبہ مختار اعوان کی کتاب “تبلیغ اقبال“ کی تقریب رونماٸی میں مدعو تھی ۔تقریب میں شرکت کے بعد کتاب میلے کا چکر لگا۔
ہر طرف کتابیں دیکھ کر مسرور ہوگٸی اور ذہن میں ایک فقرہ گونجا
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
خیال آیا کہ قلم ،کتاب اور انسان کا تعلق مضبوط ہے۔ تمام علوم کتاب کے ذریعے ہی منتقل ہوتے ہیں۔
مختلف اسٹال دیکھے شاندار رعایت پر کتابیں خریدیں اور ان شااللہ ان پر تبصرے بھی ہوں گے۔ جیسے جیسے وقت میسر ہو گا کتابیں پڑھی جاٸیں گی
میلے میں خوب گہما گہمی تھی پورے پورے کنبے آ رہے تھے۔اپنی اپنی مرضی اور دلچسپی کے مطابق کتابیں خریدی جارہی تھیں۔بہت خوشی ہوٸی ۔
میرا خیال ہے کہ کتاب میلوں کو تمام ملک میں فروغ ملنا چاہیٸے دوسری طرف ہم سب کا فرض ہے کہ اچھی روایتوں میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں تاکہ اچھی روایات فروغ پاٸیں۔اپنی چھوٹی سے شرکت کو بھی معمولی خیال نہیں کرنا چاہیٸے بلکہ اس طرح اچھی روایات فروغ پاتی ہیں اور معاشرہ آگے پڑھتا ہے۔ہم سب کو کتب بینی کو فروغ دینے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیٸے۔
اگلے دن ایک چھوٹا بچہ پڑھنے آیا ہوا تھا میں نے کتاب میلے کے بارے میں بتایا تاکہ شوق بیدار ہو۔پھر بچے نے مجھ سے کہا کہ میں کتابیں دیکھ لوں تو میں اس کے سامنے رکھ دیں۔ پھر بچے نے کتابوں کو چھونے کی خواہش ظاہر کی تو میں نے کہا ضرور دیکھو ہاتھ لگاٶ محسوس کرو اس نے بہت شوق سے ایک ایک کر کے اپنے سامنے کتابیں رکھیں اور اس کے چہرے کی چمک دیدنی تھی مجھے لگا کہ میں نے اپنے حصے کی شمع جلا دی ہے کیونکہ نٸی نٸی کتابوں کو چھو کر محسوس کرنا بھی کتابوں کی جانب سفر شوق کی پہلی سیڑھی ہےاس بچے نے کہا کہ مجھے پتہ نہیں تھا ورنہ میں بھی کتاب میلے میں جاتا ، اگلی دفعہ ضرور جاٶں گا۔ ایسے میلے تمام شہروں میں لگنے چاہیٸیں