میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے اور آرام کا دن ہے۔ آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے تو پولنگ شروع ہو چکی ہوگی اور انتخابات کے دن کا سورج طلوع ہو چکا ہوگا۔
اس لیے میرے اور آپ کے درمیان اس ایک دن کے فاصلے کی وجہ سے جو میں لکھوں گا وہ آپ کو پرانا لگے گا۔ اس کے ساتھ جب میں لکھ رہا ہوں تو انتخابی ضابطہ کار کے تحت انتخابی مہم ختم ہو چکی ہے اور جب آپ پڑھ رہے ہوں سمجھ کرگے تو پھر سے ووٹ مانگنے اور ووٹ ڈالنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہوگا۔ اس لیے آج صورتحال پر لکھنا مشکل ہے۔
میں نے سوچا آ ج غیر سیاسی کالم لکھا جائے۔ لیکن یہ بھی حقیقت اس پورے سیاسی ماحول میں کون غیر سیاسی کالم لکھتا ہے اور کون پڑھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ماحول ہر طرف سیاسی ہے اور میں غیر سیاسی کالم لکھنا شروع کردوں۔ لوگ ووٹ ڈال رہے ہوں اور میں ان سے غیر سیاسی باتیں کرنا شروع کر دوں۔
لوگ اگلی حکومت کس کی ہوگی جاننا چاہتے ہوں میں غیر سیاسی باتیں کرنا شروع کر دوں۔ لوگ اپنے امیدوار کے لیے پریشان ہوں میں غیر سیاسی باتیں شروع کر دوں۔ اس لیے مجھے غیر سیاسی کالم لکھنے کا آئیڈیا بھی کوئی خاص پسند نہیں آیا۔ بلکہ مجھے لگا کہ یہ کافی بے وقت کی راگنی جیسا آئیڈیا ہے۔
لیکن، پھر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ سب لوگ تو سیاست میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ملک میں بارہ کروڑ ووٹر سب تو ووٹ نہیں ڈالتے۔ سب کو تو ملک کے سیاسی ماحول سے دلچسپی نہیں۔ پچاس فیصد ووٹنگ بھی بہت ووٹنگ سمجھی جاتی ہے۔ ماضی کے انتخابات میں بھی ووٹنگ کی شرح پچاس فیصد ہی رہی ہے۔
اس لیے آدھے ووٹرز کو اب بھی اس ساری صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ آج کا دن ایک چھٹی کا دن سمجھ کر گزار رہے ہوں گے۔ فیملیوں نے اس چھٹی کو منانے کا خصوصی بندوبست بھی کیا ہوگا۔ لوگ اکٹھے ہو رہے ہوں گے۔ گھر میں چھٹی کا سماں ہوگا۔ اسکول، کالج، دفاتر، بینک سب بند ہیں۔ اس لیے سب گھر پر ہیں۔ لوگ اس کو ایک غیر سیاسی چھٹی کے طور پر بھی منا رہے ہونگے۔
ووٹ ڈالنے کی اہمیت پر بہت بات ہو گئی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ووٹ نہ ڈالنا کوئی جرم نہیں۔ اس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ یہ کوئی ایسا فرض نہیں جو ادا نہیں کیا جائے گا تو کوئی جرم ہو جائے گا۔ا س لیے جو ووٹ نہیں ڈالنا چاہتا یہ اس کی مرضی ہے۔ ہم اس کو پابند نہیں کر سکتے کہ وہ ووٹ ڈالے۔ لوگ گھروں میں ڈرامے دیکھ رہے ہوں گے۔ خواتین اپنے کاموں میں مصروف ہوں گی۔ اچھے کھانے پک رہے ہوں گے۔
اس لیے ایسا بھی نہیں ہے کہ سب ہی ووٹ ڈال رہے ہونگے۔ لوگ چھٹی بھی منا رہے ہونگے۔ ہم جو لوگ چھٹی منا رہے ہونگے۔ ان کے لیے کچھ لکھ سکتے ہیں۔ لیکن پھر خیال آیا کہ جو لوگ چھٹی منا رہے ہیں وہ تو حال مست مال مست لوگ ہیں۔ ان کے لیے تو آگ لگے بستی میں وہ مست ہیں اپنی مستی میں، اپنی زندگی میں مگن ہیں۔ انھیں اس ساری صورتحال سے کوئی غرض نہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ ان انتخابات سے ان کی زندگی میں کچھ بدلنے والا ہے۔
ان میں امیر لوگ بھی شامل ہیں اور غریب لوگ بھی شامل ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ امیر ووٹ نہیں ڈالتے اور سب غریب ڈالتے ہیں اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سب غریب ووٹ ڈالتے ہیں اور امیر نہیں ڈالتے۔ ایسے لوگ دونوں طرف موجود ہیں جو ووٹ ڈالنے میں یقین نہیں رکھتے۔ انھیں کوئی سروکار نہیں کہ کیا ہورہا ہے۔ بلکہ جو لوگ بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں وہ انھیں بیوقوف سمجھتے ہیں۔ اس لیے جہاں کچھ لوگ انتخابات میں بہت مصروف ہوں گے وہاں ان کی بھی کمی نہیں جو ساری صورتحال سے لا تعلق بھی ہوں گے۔
ایک عمومی رائے یہی ہے کہ انتخابی مہم بھی پہلے جیسے نہیں تھی۔ میں نے بہت لوگوں سے پوچھا ہے کہ اس بار انتخابی مہم میں کیا کمی تھی۔ کہتے ہیں گرما گرمی نہیں تھی۔ میں نے کہا آپ سیدھا کہیں گالم گلوچ نہیں تھی۔ کسی کی پگڑی نہیں اچھالی گئی۔ پھر کہتے ہیں ہاں وہ گالم گلوچ نہیں تھی جو گزشتہ انتخابات میں تھی۔
ایک دوسرے کو اس طرح گالی نہیں نکالی گئی جیسے گزشتہ انتخابات میں نکالی گئی۔ میں پوچھتا ہوں یہ اچھی بات رہی یا غلط ہوا تو کچھ خاموش ہو جاتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں اچھا تو ہوا ہے لیکن مزہ نہیں آیا۔ شاید لوگوں کی دلچسپی گرما گرمی سے بڑھتی ہے۔ لوگ گالم گلوچ سے متوجہ ہو جاتے ہیں۔ گالم گلوچ گھروں تک پہنچ جاتی ہے۔ گلی محلوں کی بحث میں بھی گالم گلوچ پہنچ جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی گرما گرمی اور سیاسی گالم گلوچ اوپر سے نیچے آتی ہے۔ اگر اوپر ماحول ٹھیک ہو تو پورے ملک میں ماحول ٹھیک ہو جاتا ہے۔
لوگ اپنے اپنے لیڈر کی پیروی کرتے ہیں۔ گالم گلوچ میں بھی پیروی کرتے ہیں۔ اس لیے اس انتخابی مہم میں گالم گلوچ بہت کم تھی بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔اگر بلاول نے ماحول کو گرم کرنے کے لیے کچھ حد تک کوشش کی بھی تو انھیں جواب نہیں دیا گیا۔جس سے ماحول گرم نہیں ہو سکا۔ اس لہجے میں جواب نہ دینا بھی ایک حکمت عملی نظر آئی۔ اب گالم گلوچ اس لیے کم تھی کہ گالم گلوچ کی ماہر جماعت کھیل سے آٹ تھی۔
اس کا ماہر لیڈر بھی کھیل سے آؤٹ تھا، گالم گلوچ کی ماہر ٹیم بھی کھیل سے آؤٹ تھی۔ وہ سب بھاگ چکے ہیں۔ وہ جن سے کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ وہ اب خود اپنی جان بچانے کے چکر میں بھاگ رہے ہیں۔ اس لیے وہ بھی گالم گلوچ کا ماحول نہیں بنا سکے۔ وہ جو کہتے تھے کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے وہ آجکل خود پناہ مانگتے پھر رہے ہیں۔
وہ آجکل اپنے ماضی کا کفارہ ادا کرنے کے چکر میں پھنس چکے ہیں۔ اس لیے اس انتخابات میں سب کی عزتیں بھی محفوظ رہی ہیں۔ شاید گالم گلوچ کے لیے انھیں جو آشیر باد حاصل تھا وہ بھی نہیں تھی۔ اور وہ لوگ اندر سے کتنے ڈرپوک ہیں وہ بھی کھل کر سب کے سامنے آگیا ہے۔
انتخابات کا مرحلہ گزر گیا ہے۔ اب نتائج کی باری ہے۔میں نے جان بوجھ کر نتائج کے بارے میں کچھ نہیں لکھا کیونکہ پھر کہتے میں اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ حالانکہ مجھے ایسی کو ئی خوش فہمی نہیں کہ میری بات کوئی خاص وزن رکھتی ہے، لیکن پھر بھی احتیاط لازمی ہے۔ اس لیے ایک غیر سیاسی کالم حاضر ہے۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس