اسٹیبلشمنٹ سے جیت کا واحد رستہ : تحریر انصار عباسی


عمومی طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ آج سلیکشن ڈے ہے، الیکشن کا تماشہ تو صرف ایک رسم کے طور پر رچایا جا رہا ہے ۔ یہ بھی تاثر عام ہے کہ ن لیگ کو حکومت دینے کے ارادے ہیں لیکن یہ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ کیا ن لیگ قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لے بھی پائے گی کہ نہیں۔ سرپرائیز کی بھی بات کی جا رہی ہے اور یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ تحریک انصا ف کے ووٹر سپورٹر غصے میں ہیں اور وہ بڑی تعداد میں نکل کر سلیکشن کے پراسس کو الیکشن میں بدل کر تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آزاد اراکین اسمبلی کی بڑی تعداد کو کامیابی دلواکر اس سلیکشن کو الیکشن میں بدل دیں گے۔ لیکن ایسا ہوا تو پھر کہا جا رہا ہے کہ آزاد آزاد نہیں رہیں گے اور اُنہیں قابو کرلیا جائے گا اور تحریک انصاف کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہے گا۔ بحرحال آج کا دن بہت اہم ہے اور آج رات تک الیکشن ہے یا سلیکشن اس کا فیصلہ سامنے آجائے گا۔ کوئی شک نہیں کہ اب جس قسم کی جمہوریت ہم دیکھنے جا رہے ہیں وہ پہلے سے زیادہ ہائبرڈ اور کنٹرولڈ ہوگی۔ بنگلہ دیش ماڈل کی بھی بات ہورہی ہے۔ ایک بات طے ہے کہ سیاستدانوں اور سول حکومت نے بہت سپیس کھو دی ہے جس کی واپسی کیسے ممکن ہوسکتی ہے اُس پر میں بات کرنا چاہوں گا۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بغیر کچھ کیے یہ سپیس سول حکومت اور سیاستدانوں کو دے دے گی تو بھول جائیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ کوئی اگر یہ سوچتا ہے کہ عمران خان کی طرح فوج سے ہی ٹکر لے کر اور 9 مئی جیسے واقعات سے اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے دور کیا جاسکتا ہے تو ہم نے دیکھا کہ اس سے تو ملک، سیاست کے نقصان کے ساتھ سب سے زیادہ نقصان اپنا ہی ہوتا ہے اور اس صورتحال کا عمران خان اور تحریک انصاف کو سامنا ہے۔ مسئلہ لڑائی سے حل نہیں ہوگا۔ اگر اسٹیبلشمنٹ سے جیتنا ہے تو پھر سیاستدانوں کو دائرہ کا سفر ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جب حکومت ملے، جیسے بھی ملے، تو پھر کام، کام اور کام پر ہی زور دینا پڑے گا۔ پرفارمنس بہترین ہوگی، طرز حکمرانی اچھا ہوگا، عوام دیکھے گی، محسوس کرے گی اور سمجھے گی کہ حکمراں اُن کی زندگیوں کو بہتر بنانے اور سرکاری محکموں کو سروس ڈیلوری کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں تو پھر سولین سپریمیسی کا رستہ ہموار ہوگا، اسٹیبلشمنٹ کے لیے سپیس کم ہوتی جائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی شارٹ کٹ موجود نہیں۔ عمران خان بے شک ایک پروجیکٹ تھے، وہ سلیکٹڈ تھے۔ اگر اُن کی حکومت نے بہترین کارکردگی دکھائی ہوتی، گڈ گورننس کی مثال قائم کی ہوتی، سرکاری اداروں کو سروس ڈیلوری کے لیے فعال کیا ہوتا تو آج عمران خان یہ کچھ نہ دیکھ رہے ہوتے اور نہ ہی جمہوریت مزید کنٹرولڈ ہوتی۔ نواز شریف بھی ایک پروجیکٹ کے طور پر ہی سامنے آرہے ہیں، وزیراعظم وہ بنتے ہیں یا شہباز شریف یا کوئی اور اس کا فیصلہ بھی جلد ہو جائے گا۔ لیکن اگر ن لیگ کا وزیراعظم بنتا ہے اور کوئی سرپرائز نہیں ملتا تو پھر چاہے نواز شریف ہوں یا شہباز اُن کا سارا زور پرفامنس، پرفامنس، پر فامنس پر ہی ہونا چاہئے۔ اگر ایک طرف دن رات لگاکر معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے تو دوسری طرف ایک ایک سرکاری محکے کو عوام دوست بنانے کے لیے سول سروس کو میرٹ اور غیر سیاسی انداز میں چلانا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ چند ایک کاموں پر تو توجہ دی جائے لیکن باقی ذمہ داریوں سے بے فکر ہو جائیں۔ آئین پاکستان کے مطابق عوام سے متعلق حکومت کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہیں اور ان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کریں گے تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید سپیس ملے گی۔ اگر کارکردگی بہترین ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کے لیے سپیس نہیں ملے گی۔ اگر سیاستدان بادشاہوں کی طرح حکومت کریں گے ،نہ طرز حکمرانی کو ٹھیک کریں گے نہ ہی سرکاری اداروں کو عوامی خدمت کے لیے فعال بنائیں گے، معیشت کا بھی ستیاناس کریں گے تو پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے سیاسی معاملات میں مداخلت کا رستہ آسان ہو جائے گا۔

بشکریہ روزنامہ جنگ