نئی بساط، نئے مہرے : تحریر سہیل وڑائچ


نئے الیکشن کے ساتھ ہی نئی بساط بچھنے والی ہے اور نئے مہرے سامنے آنے والے ہیں، معاشی ایجنڈا پہلے سے تیار ہے۔ سرکار کے زیر انتظام تمام بیمار اداروں اور کار پوریشنز کو پرائیویٹائز کر دیا جائے گا، ن لیگ نجکاری کے اس ماڈل پر اتفاق کرتی ہے، پیپلز پارٹی کو وفاق کی مخلوط حکومت میں اس لئے شامل نہیں کیا جا رہا کہ پیپلز پارٹی نجکاری کی مخالف ہے اور اس کا معاشی ماڈل اور ویژن مختلف ہے۔

نئی حکومت کے آنے سے پہلے ہی طے کر لیا گیا ہے کہ چاربڑے شعبے ملک کو ترقی کی اگلی منازل تک پہنچائیں گے۔ زراعت، معدنیات آئی ٹی اور توانائی کے شعبے میں اربوں ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کرلی گئی ہے۔ بنگلہ دیش ماڈل کے تحت نئے وزیر اعظم کو مقتدرہ اور عدلیہ کی مکمل حمایت ہو گی تاکہ وہ اپنی پوری توجہ معیشت پر مرکوز کرسکے۔ یہ بھی طے ہے کہ اگر نواز شریف وزیراعظم بنے تو وہ سال کے دوران معاشی سمت اور وژن کو لیڈ کرکے زمامِ اقتدار اپنے بھائی شہباز شریف کو دے دینگے۔ مقتدرہ اور ن لیگ میں ماضی کی طرح کسی تنازعے کو روکنے کیلئے طے کیا گیا ہے کہ شہباز شریف روزانہ کی بنیاد پر نوازشریف اور مقتدرہ سے رابطہ کار کے فرائض انجام دینگے اور ہر ممکن کوشش کرینگے کہ مقتدرہ اور منتخب حکومت کے درمیان کوئی دراڑ نہ پڑے۔

فرض کریں کہ سرکار جو چاہ رہی ہے ویسے ہی ہو جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وفاق میں پیپلزپارٹی بڑی اپوزیشن پارٹی بن کر ابھرے گی، بلاول بھٹو قومی اسمبلی میں اپنی پارٹی کے لیڈر ہونگے۔ دوسری طرف اسی قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے عمرانی وفاداروں کا بھی ایک گروپ ہوگا، اپوزیشن میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی ساتھ ساتھ بیٹھیں گے اور دونوں کو مل کر متحدہ اپوزیشن کا لیڈر منتخب کرنا پڑے گا ممکنہ طور پر پیپلز پارٹی کی نشستیں ستم زدہ تحریک انصاف سے زیادہ ہونگی چنانچہ بلاول بھٹو متحدہ اپوزیشن کے لیڈر ہونگے، جس کا مطلب ہے تحریک انصاف کو نہ چاہتے ہوئے بھی پیپلزپارٹی کے ساتھ غیر رسمی اتحاد کرکے بلاول بھٹو کو اپنا لیڈر ماننا پڑے گا۔ دوسری طرف بلاول بھٹو تحریک انصاف کے ساتھ نرم سلوک کی جو بات کر رہے ہیں شائد ان کے مدنظر بھی مستقبل کی سیاست ہے جس میں دونوں متحارب گروپوں کو ن لیگ کے خلاف اکٹھی سیاست کرنا پڑے گی۔

اگر بنگلہ دیش ماڈل واقعی آگیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نئی معاشی پالیسیوں کی مخالفت کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور دوسرے بہت سے اداروں کی نجکاری سے حکومتیں دو وجہ سے ڈر گئی تھیں۔ایک یہ کہ لوگ بیروگار ہونگے اور دوسری یہ کہ مسلسل احتجاجی مظاہرے کریں گے۔ موجودہ نظام کے آنے کے بعد سے، یہ طے کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر ہوں، کلرک ہوں یا مزدور، انہیں بلا جواز مظاہرے نہیں کرنے دیئے جائیںگے۔ مقتدرہ میں یہ واضح سوچ ہے کہ معاشی راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ریاست فرض سمجھ کر دور کرے گی۔ مقتدرہ میں ماضی میں یہ سوچ پائی جاتی تھی کہ حکومتوں کو کمزور رکھا جائے لیکن اس بار مقتدرہ یہ چاہتی ہے کہ مضبوط حکومت ہو تاکہ وہ بڑے فیصلے کرسکے چنانچہ مقتدرہ کی خواہش ہے کہ نواز شریف سادہ اکثریت حاصل کرکے آسانی سے حکومت بنالے اور اسے اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں کی مدد نہ لینی پڑے۔ سیاسی حلقوں میں اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ اب جب سارے گیند نواز شریف کی ٹوکری میں ڈالے جا رہے ہیں تو مقتدرہ کے دوسرے لاڈلے جہانگیر ترین اور علیم خان کو کیا ملے گا؟دونوں تجربہ کار ہیں اور دونوں ہی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صوبہ ہویا ملک، اس کو بہت بہتر طور پر چلا سکتے ہیں لیکن مقتدرہ فی الحال انہیں وزارتِ عظمیٰ یا وزارتِ اعلیٰ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ البتہ ترین اور علیم خان کو وزارت یا گورنرشپ کے ذریعے اکاموڈیٹ ضرور کیا جائے گا۔

بنگلہ دیش جیسا نظام معاشی ترقی کیلئے تو اچھا ثابت ہوسکتا ہے مگر پاکستان کی ہمہ رنگ سیاست کیلئے زہر ِقاتل ہوگا۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے خالدہ ضیا کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کرکے رکھا نہ عدلیہ نے ریلیف دیا نہ مقتدرہ بولی، یکطرفہ انتخابات ہوئے اور حسینہ واجد جیت گئیں۔ پاکستان بنگلہ دیش کی طرف جسدِ واحد نہیں یہاں چار قومیں، کئی مذاہب اور مختلف مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں چنانچہ قدرتی طور پر یہاں ہر دور میں اپوزیشن رہی ہے کبھی بلوچستان میں شورش اٹھتی ہے تو ماضی میں پختون پاکستان سے شکوہ کناں رہتے تھے، ایک دور میں سندھ احساس محرومی کا شکار تھا تو آج کل پنجاب میں مایوسی ہے۔ ہماری طرح کی بکھری ہوئی قوم کو دباؤ یا ڈنڈے سے اکٹھا رکھنے یا اپنے فیصلے منوانے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ بگڑ جاتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم او رپختونخواہ کے نام کا فیصلہ صلح صفائی اور افہام وتفہیم سے ہوا وگرنہ پختونستان 50 سال تک ایک بڑا مسئلہ رہا۔ بلوچستان میں نواب اکبر بگتی کو ڈنڈے سے ڈیل کیا گیا، اس وقت سے وہاں حالات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ اس خطے میں کبھی انقلاب نہیں آیا لوگ تکلیفیں بھی سہ لیتے ہیںمگر ڈنڈے کا تادیر خوف قبول نہیں کرتے، انہوں نے انگریزوں کی حکمرانی حتیٰ کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کا راج بھی خوشدلی سے قبول کیا مگر ظلم وناانصافی کا راستہ اختیار کیا جائے تو اسکے خلاف کئی دُلا بھٹی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔

میری ناقص رائے ہے کہ نئے تجربے نہ کئے جائیں ،پاکستان کا آئین بنگلہ دیش، انڈیا بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک سے بہتر ہے۔ پاکستان پہلا اسلامی ملک ہے جس نے جمہوریت اور اسلام کے اصولوں کو مدنظر رکھ کر آئین کی تشکیل کی۔ پاکستان کی مقتدرہ ہو یا عدلیہ یا پھر بڑے عہدوں پر قائم حکمران سب اسی آئین پاکستان پرحلف اٹھاتے ہیں۔ طے یہ کیا جائے کہ آج سے آئینِ پاکستان کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی جائے گی۔ فوجی ہوں یا سویلین، طالب علم ہوں یا نوکری پیشہ سب کو پابند کیا جائے کہ وہ آئین پاکستان کو پڑھیں، ہر کوئی اپنے حقوق کو پہچانے اور فرائض کو کماحقہ بجالائے۔ جو ملک اور قومیں اپنے قومی اتفاق رائے کو بڑھاتی ہیں اور اس کو مدنظر رکھ کر چلتی ہیں وہی ترقی پاتی ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناح اور آئین پاکستان وہ دو چیزیں ہیں جن پر پوری قوم کا اتفاق ہے قائداعظم کو ماڈل بنا کر ہر ایک شہری کو برابر کے حقوق دیئے جائیں اور آئین کو سامنے رکھ کر تمام فیصلے کئے جائیں۔

ہم ماضی میں کئی ناکام تجربے کر چکے ہیں اب مقتدرہ کے پاس مزید ناکامیوں کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے آئین پاکستان کے تحت مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے دیا جائے، اگر مقتدرہ نے اپنا کردار اس قدر بڑھا دیااور کل کو پاکستان ڈیفالٹ ہوگیا یا کسی اور بحران کا شکار ہو گیاتو موردالزام مقتدرہ ٹھہرے گی ۔بہتر ہے کہ حکمرانی کا کام اہل سیاست کو کرنے دیا جائے اور مقتدرہ پس منظر میں رہ کر ساری دنیا کی طرح انکی مدد و حمایت کرے۔ صدیوں کے تجربات سے دنیا نے یہی سیکھا ہے ہمیں بھی اسی پر عمل کرنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ