جماعت اسلامی کا معاشی ایجنڈا
پاکستان کے سب سے بڑے معاشی چیلنجز میں بھاری قرضے، آمدن سے زیادہ اخراجات، غیر مساوی ٹیکسوں کا نظام، برآمدات میں کمی اور تجارتی خسارہ، توانائی کے شعبہ کی تنظیمِ نوکی ضرورت، انسانی سرمایہ کا ضیاع اور کمزور سماجی اشاریے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اِن چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک معاشی ایجنڈا تیار کیا ہے جو درج ذیل ہے:
(i) قرضوں کا بوجھ: گزشتہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی شرح نمو 0.29فیصد رہی۔ رواں مالی سال کے کے آغاز پر حکومت نے معاشی شرح نمو کے لیے 3.5 فیصد کا ہدف مقرر کیا تاہم عالمی مالیاتی اداروں کے مطابق پاکستان کی معاشی شرح نمو 2فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔ پاکستان پر اندرونی و بیرونی قرضوں کا کُل بوجھ 78 ہزار ارب روپے (277.05 ارب ڈالر )ہے۔ پاکستان پر موجود قرضوں کا مجموعی بوجھ جی ڈی پی کے مجموعی حجم (84 ہزار ارب روپے/298 ارب ڈالر) کے 92 فیصد سے زیادہ بنتا ہے۔ جبکہ ملک کا مجموعی گردشی قرضہ 5725 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ قرضوں کے بے پناہ بوجھ، تجارتی خسارے اور بجٹ خسارے کی وجہ سے ملک میں بننے والی ہر نئی حکومت کو ادائیگیوں میں عدم توازن کی وجہ سے دیوالیہ پن کا سامنا ہوتاہے۔ ہر حکومت اس سے بچنے کے لیے معاشی نظام کی اصلاح اور ادارہ جاتی کمزوریوں کو دور کرنے کی بجائے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر انحصار کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 1948ء کے بعد ملک میں بننے والی تمام حکومتیں آئی ایم ایف کے 23 قرضہ پروگرامات کا حصہ رہی ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام اپنے ساتھ بیرونی قرضوں، ٹیکسز اور مہنگائی کا طوفان لے کر آتے ہیں۔ پاکستان اب تک آئی ایم ایف سے 23 پروگرامات کے تحت 25 ارب ڈالر سے زئد قرضہ وصول کر چکا ہے۔
اندرونی قرضوں کا بوجھ 42 ہزار ارب روپے (149 ارب ڈالر) ہے۔
بیرونی قرضوں کا بوجھ 36 ہزار ارب روپے (128.91 ارب ڈالر) ہے۔
گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 3022 ارب روپے ہے
بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2703 ارب روپے ہے۔
ہر سال پاکستان کو ورکرز ‘رمیٹنس کی مد میں 30 ارب ڈالر (8370 ارب روپے) کا زرِ مبادلہ موصول ہوتا ہے۔
گزشتہ 3 سال میں مُلک کو بیرون مُلک مقیم پاکستانیوں سے 88 ارب ڈالر (24.5 ہزار ارب روپے)سے زیادہ زرِ مبادلہ موصول ہوا۔
مالی سال 23-2022ء کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری محض 1.32ارب ڈالر تک محدود رہی جس میں چین سے 37.48 کروڑ ڈالر، جاپان سے 16.84کروڑ ڈالر، سوئٹزرلینڈ سے 14 کروڑ ڈالر، متحدہ عرب امارات 12.9کروڑ ڈالر اور ہانگ کانگ سے 9.45 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری شامل ہے۔
جماعت اسلامی قرضوں کا بوجھ اور دیگر معاشی مسائل کیسے حل کرے گی؟
سُودی نظام معیشت کے خلاف جماعت اسلامی کی آئینی درخواست پر سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت میں طویل بحث ہو چکی ہے۔ معیشت سےسُود کے خاتمے اور اسلامی معیشت کے اجراء کا نقشہ کار اور طریقہ کار وفاقی شرعی عدالت کے حالیہ فیصلہ میں تفصیلاًموجود ہے۔ اسٹیٹ بنک،وفاقی وزارت خزانہ اور حکومت پاکستان کو واضح حکم مل چکا ہے۔ جماعت اسلامی اقتدار میں آکر معیشت سے سُود کے مکمل خاتمے کے لئے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کو نافذ کرےگی۔
سرکاری اداروں کی نجکاری کے بجائے اس کی انتظامیہ قابلیت اور میرٹ پر لگائے گی ۔
عالمی بنک ،عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اوراندرونی و بیرونی قرضوں سے نجات کے لیے جامع حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
تمام اندرونی و بیرونی قرضوں کو بتدریج ختم کرنے کے لیے خود انحصاری پر سختی سے عملدرآمد کرے گی۔
بیرونی و مقامی قرضوں پر سُود سے نجات کے لیے متعلقہ حلقوں سے مؤثر مذکرات کرے گی۔
علمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے شدید ترین متاثرہ ممالک کا مؤثر فورم تشکیل دے کر عالمی عدالت سے رجوع کر کے مناسب معاوضہ وصول کرے گی۔
مہنگی گاڑیوں کاسمیٹکس اور غیرضروری تعیشاتی اشیاء کی درآمد بند کرکے قیمتی زرمبادلہ بچائے گی۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو ترقیاتی منصوبوں میں حصہ دار بنانے کے لیے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جائے گی۔
زر مبادلہ میں ادائیگی کی شرط پرسمندر پارپاکستانیوں کو سرکاری قیمتی کمرشل اراضی پُر کشش قیمت پر خریدنے کی پیش کش کرے گی۔
ملازمت کی بجائے ذاتی کاروبار کھڑا کرنے کی تربیت دے کر’’چھوٹا کاروبار معاشی بہار‘‘ مہم شروع کرے گی۔
سیاحت کے فروغ کے لیے سیاحتی مقامات پر ہوٹل انڈسٹری کو ٹیکس مراعات دے گی۔
اشیائے خورد و نوش اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام لانے کے لیے ناجائز منافع خور مافیا ز اور کارٹیلزکا خاتمہ کرے گی۔
قیمتوں پر نظر رکھنے کے لیے مرد و خواتین صارفین اورمقامی علمائے کرام پر مشتمل ’’پرائس کنٹرول کمیٹیاں‘‘ تشکیل دے گی۔
بنیادی اشیائے خوردو نوش اور اشیائے ضروریہ پر مناسب سبسڈی دے گی تاکہ غریب اور متوسط طبقے کو ریلیف ملے۔
(ii) آمدن سے زیادہ اخراجات : گزشتہ مالی سال 23-2022ء کے دوران پاکستان کی ٹیکس آمدن 7470 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں صرف 5637.9 ارب روپے رہی۔ رواں مالی سال 24-2023ء میں حکومت نے ٹیکس آمدن کے لیے 9200 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا۔ جبکہ غیر ٹیکس آمدن سمیت مجموعی طور پر 12 ہزار ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ پاکستان میں ماضی کی کوئی حکومت بھی اپنے بجٹ میں مقرر کردہ آمدن کے اہداف حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکی۔ اگر حکومت اپنا یہ ہدف حاصل کر بھی لیتی ہے تو این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کا حصہ دینے کے بعد وفاقی حکومت کی خالص آمدن محض 6887 ارب روپے ہوگی اور 7572 ارب روپے (جی ڈی پی کا 6.54 فیصد)کے خسارے کا سامنا ہوگا جو اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورا کیا جائے گا۔ اندرونی و بیرونی قرضوں پر سُود کی ادائیگی کے لیے اس سال حکومت نے 7303 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہےجس کا مطلب ہے کہ بجٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے حکومت جو اندرونی و بیرونی قرضہ حاصل کرے گی وہ قرضوں پر سُود کی ادائیگی کی نذر ہوجائے گا۔
جماعت اسلامی آمدن اور اخراجات میں توازن قائم کرنے کے لیے کیا کرے گی؟
حکومتی تعیشات اور وی آئی پی پروٹوکول کلچر ختم کیا جائے گا اور سادہ طرز حکمرانی متعارف کروایا جائے گا۔
دولت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے گااورمختلف طبقوں کے مابین غیر معمولی معاشی تفاوت کم کیا جائے گا۔
غربت کےخاتمےکے لیے 10 کروڑ عوام سے زکوٰۃ و عشر اکٹھا کیا جائے گاجس سے ہر غریب گھرانے کی اندازہً اڑھائی لاکھ روپے سالانہ مدد کی جا سکے گی۔
وفاقی، صوبائی اور دفاعی اداروں کے غیر ضروری اور غیر ترقیاتی اداروں کے اخراجات کو بتدریج 30 فیصد تک منجمد کر کے سرمائے کی بچت یقینی بنائے گی۔
سرکاری اداروں میں اسراف کا خاتمہ کر کے سادگی وقناعت کی روش اختیار کرے گی۔
اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور سرکاری افسران کو حاصل لگژری مراعات کا خاتمہ کرے گی۔
سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور ما لدار ترین اشرافیہ کو حاصل ٹیکس چھوٹ ختم کرے گی۔
سرکاری ملازمین کی پنشن سے سرمایہ کاری کرکے سرکاری خزانہ کا بوجھ کم کرے گی۔
(iii) غیر مساوی ٹیکس نظام: عالمی بینک کے اعداد و شمار کے مطابق کسی معیشت کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی سالانہ ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 15 فیصد سے زیادہ ہو۔ عالمی بینک کے مطابق گزشتہ 10 سال میں پاکستان کی ریونیو آمدن اوسطاً جی ڈی پی کا 12.8 فیصد رہی جو جنوبی ایشیا کی 19.2 فیصد کی اوسط سے کافی کم ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی ریونیو آمدن بڑھنے کی بجائے کمی کی جانب گامزن ہے۔ گزشتہ مالی سال کے دوران ملک میں روزمرہ استعمال کی عام مصنوعات پر 18 فیصد جنرل سیلز ٹیکس اور درجنوں اقسام کے دیگر بالواسطہ ٹیکسز عائد کرنے کے باوجود حکومت کی مجموعی ٹیکس آمدن جی ڈی پی کے 10فیصد تک محدود رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک بھر میں ٹیکس اکٹھا کرنے کا نظام مساویانہ نہیں ہے۔ گزشتہ تمام حکومتوں کی قلیل مدتی معاشی سوچ کی وجہ سے مساویانہ ٹیکس کا نظام کبھی بھی نافذ نہ کیا جاسکا۔ حکومت ملک میں تمام مال دار حلقوں سے ٹیکس وصول نہیں کرتی۔ کئی شعبہ جات کو مکمل طور پر ٹیکس چھوٹ دے دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال حکومت اپنے سالانہ بجٹ میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے حوالے سے اپنے اہداف مکمل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ 10 اکتوبر 2023ء کو عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 2 بڑے شعبوں ’’ریئل اسٹیٹ‘‘ اور ’’زراعت‘‘ سے وابستہ لوگوں کی زیادہ تر آمدن غیر ٹیکس شدہ ہے۔ حکومت کو رئیل اسٹیٹ سے 2100 ارب روپےاور زراعت سے 1000 ارب روپےریونیو حاصل کرنا چاہیے ۔اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2023ء کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو/ ایف بی آرنے 2239 ارب روپے کی ٹیکس چھوٹ دی۔ 7 دسمبر 2023ء کو روزنامہ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں ٹیکس کٹھا کرنے والے سرکاری ادارے ’’فیڈرل بورڈ آف ریونیو/ ایف بی آر‘‘ کے 25 ہزار ملازمین میں سے گریڈ 17 سے اوپر کے 300 افسران سمیت 10 ہزار سے زائد ملازمین عادی نان فائلر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی 13 اپریل 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کارپوریٹ سیکٹر کا مراعات یافتہ طبقہ ٹیکس چھوٹ، سستے خام مال، زیادہ پیداواری قیمتوں اور خدمات تک ترجیحی رسائیوں کی صورت میں سالانہ 4.7 ارب ڈالر (تقریباً 1300 ارب روپے) کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اِسی طرح ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ زمین، سرمایہ، انفراسٹرکچر او رٹیکس کی چھوٹ کی مد میں1.7 ارب ڈالر (482 ارب روپے)کی مراعات لیتی ہے۔ ٹیکس سال 2023ء میں 24 کروڑ کی آبادی میں محض 53 لاکھ افراد نے اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔
جماعت اسلامی ٹیکس اور محصولات کے نظام کی اصلاح کے لیے کیا کرے گی؟
وفاق اور صوبوں میں ٹیکس اصلاحات متعارف کروا کر جنرل سیلز ٹیکس کو 5 فیصد سے کم کرے گی۔
ٹیکس ادائیگی کے سسٹم کو آسان سہل بنانے کے لیے لیے ون ونڈو بزنس پراجیکٹ قائم کرے گی۔
اندرون و بیرون ملک سے ’’ترسیلاتِ زر پر بنک فیس‘‘ کم کرے گی۔
سرمایہ داروں ، جاگیرداروں ، صنعت کاروں اور مالدار ترین اشرافیہ سے اُن کی آمدن کے تناسب سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرے گی۔
معیشت کو دستاویزی بنانے اور ریونیو ریکارڈ کوکمپیوٹرائزڈ ڈیٹا بیس میں منتقل کر کے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ جبکہ ٹیکسوں کی شرح میں کمی کرے گی۔
بلاواسطہ (Direct) اور بالواسطہ (Indirect)ٹیکسوں کا منصفانہ تناسب قائم کرے گی۔
سالانہ معاشی شرح نمو کو آبادی میں سالانہ اضافے سے کم از کم دوگنا کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کی جائے گی۔
زرعی ٹیکس کا بتدریج نفاذ اور ای آبیانہ اورای مالیہ سکیموں کا اِجرا یقینی بنائے گی۔
(iv) برآمدات میں کمی اور تجارتی خسارہ:گزشتہ 5 سال سے ملک کو اوسطاً 28 ارب ڈالر سے زیادہ (جی ڈی پی کا 8 فیصد)کے سالانہ تجارتی خسارے کا سامنا ہے کیونکہ ہر سال اوسطاً 26 ارب ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں درآمدات کا بوجھ 54 ارب ڈالر سے زیادہ ہوتا ہے۔ گزشتہ 5سال میں ملک کو 150 ارب ڈالر (280 روپے فی ڈالر کے حساب سے 42 ہزار ارب روپے) کے تجارتی خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ رقم پاکستان کے مجموعی قرضے کا 53.8 فیصد، اندرونی قرضے کا 100 فیصد اور بیرونی قرضے کا 116.6 فیصد بنتی ہے۔
تجارتی خسارے کے خاتمے کے لیے جماعت اسلامی کیاکرے گی؟
برآمدات میں اضافے کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ غیر ضروری درآمدات کا خاتمہ کرے گی۔
درآمد کیے جانے والے خام مال کو ملک کے اندر ہی بنانے والی انڈسٹری کو 10 سال کے لیے خصوصی ٹیکس مراعات دی جائیں گی۔
ایگروبیسڈ انڈسٹری ، کاٹیج انڈسٹری اور سمال ومیڈیم انڈسٹریز کو فروغ دینے کے لیے مراعات کا خصوصی پیکج تیار کرے گی۔
مخصوص فصلوں اور صنعتی پیداواری علاقوں میں دس سال کے لیے ٹیکس فری انڈسٹریل زونز قائم کرے گی جہاں برآمدات کے لیےویلیوایڈڈ پروڈکٹس تیار ہوں گی۔
ہر قسم کی زرعی اجناس کی درآمد کا خاتمہ اور پورے زرعی شعبے کو برآمدی شعبے میں تبدیل کرنے کے لیے مؤثر حکمت عملی بنائے گی۔
بڑی فصلوں خصوصاً کپاس، گندم، چاول اور گنے کی کاشت میں اضافے اور ان سے برآمدی مصنوعات بنانے کے لیے مؤثر حکمتِ عملی بنائے گی۔
برآمدی مقاصد کے لیےآئی ٹی، میٹ ایکسپورٹ اور زرعی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس سیکٹر کو انڈسٹری کا درجہ دے گی۔
ہر بزنس کو 25 فیصد ایکسپورٹ کرنے کا قانونی طور پر پابند کرنے کے ساتھ ساتھ متعلقہ سہولتیں فراہم کرنے کا میکانزم تشکیل دے گی۔
ایکسپورٹرز کو خصوصی قومی اعزازات سے نوازنے کی پالیسی اپنائے گی۔
سفارتکاروں کی ترقی کا انحصار ایکسپورٹ مارکیٹنگ مین اضافے کی بنیاد پر ہوگا۔
(v) توانائی کے شعبہ کی تنظیمِ نو کی ضرورت : جنوری 2023ء میں ادا کیے گئے بِلوں میں صارفین پر ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کے نام پر 8.56 روپے فی یونٹ کا اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ بجلی کے صارفین کے لیے سیلز ٹیکس سمیت بجلی کا فی یونٹ ٹیرف 51 روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ جولائی 2023ء میں حکومت نے بجلی کے بنیادی یونٹ کی قیمت میں 7.50 روپے فی یونٹ کا اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ گردشی قرضے میں کمی کے نام پر صارفین پر 3.23 روپے فی یونٹ کے حساب سے مستقل سرچارج عائد کر رکھا ہے ۔ اس کے باوجود بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2600 ارب روپے سے متجاوز ہے حالآنکہ اس وقت ملک میں بجلی کی 76 فیصد پیداوار سستے مقامی ایندھن سے کی جارہی ہے۔ بجلی کے شعبے میں لوٹ مار کی بڑی وجہ آئی پی پیز کی اجارہ داری ہے جو سستا اور مقامی ایندھن مہیا ہونے کے باوجود مہنگے درآمدی ایندھن سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔ ملک میں موجود توانائی کے اس بحران اور لُوٹ مار سے عوام کو بچانے کا واحد حل توانائی کے شعبے کی تنظیمِ نو ہے۔
توانائی کے مسئلے کے حل کے لیے جماعت اسلامی کیا کرے گی؟
بجلی پیدا کرنے والی بین الاقوامی کمپنیوں (IPPs) کے ساتھ مہنگے معاہدوں پر نظرثانی کرے گی۔
بہترین مالی نظم و ضبط سے گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کرے گی۔
سرکاری ، کاروباری اور خوشی کی تقریبات دِن کی روشنی میں کرنے کی پالیسی اختیار کرے گی۔
بجلی اورگیس کے رائج الوقت ظالمانہ سلیب ریٹ ختم کرے گی۔
غریب خاندانوں کے لیے 300 سے 350یونٹ تک بجلی مفت کردی جائے گی۔
لوڈشیڈنگ اور لائن لاسز سمیت بجلی کی ترسیل وتقسیم کے نظام میں موجود خامیوں کو دور کرے گی۔
بجلی کی پیداوار کے لیے درآمدی ایندھن کی بجائے مقامی وسائل اختیار کرنے کی حکمت عملی اپنائے گی۔
بھاشا اور اکھوڑی ڈیم سمیت تمام ضروری چھوٹے بڑے ڈیموں کی تعمیرپر کام کی رفتار کو تیز کرے گی۔
ہائیڈرو پاور ،شمسی توانائی کے پینل اور ونڈ ٹربائن کی تیاری میں خود کفالت حاصل کے لیےصنعت کاروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دے گی۔
پاک ایران گیس پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام جلد مکمل کرے گی۔
عالمی دباؤ نظر انداز کرکےتیل ، گیس اور معدنیات کے نئے ذخائر تلاش کرے گی۔
بجلی اور گیس کے بلوں میں کمی لانے کے لیےغیر منطقی ٹیکسوں کو ختم کرے گی ۔
بجلی اور گیس کی چوری روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے گی ۔
IPPs سے زائد از بل وصولیات واپس لے گی۔
(vi) انسانی سرمایہ کا ضیاع: پاکستان لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان کی کام کرنے کی عمر (18 سے 59 سال )کی حامل آبادی 15.98 کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔ اس میں سے 60 فیصد سے زائد آبادی 35 سال سے کم عمر ہے۔ سروے کے مطابق کام کرنے کی عمر کے 7.17 کروڑ افراد (45 فیصد سے کم) کو عملی طور پر لیبر فورس میں شامل کیا جاتا ہے تاہم اس میں سے بھی 45.1 لاکھ افراد بے روز گار ہیں جن میں 11 لاکھ افراد بی اے یا اس سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ سروے کے مطابق ملک میں کام کرنے کی عمر کے 8.8 کروڑ افراد (55 فیصد سے زیادہ)کو لیبر فورس میں شامل نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ نہ کوئی کام کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی کام کی تلاش کے لیے کوئی کوشش کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے مجموعی طور پر پاکستان کی کام کرنے کی عمر کی 9.26 کروڑ آبادی (57.9 فیصد )سے کوئی کام نہیں لیا جارہا۔
قیمتی انسانی سرمائے کا ضیاع روکنے کے لیے جماعت اسلامی کیا کرے گی؟
کارخانوں میں اضافہ کرکے روزگار کے موقع پیدا کرے گی۔
بے روزگاری ختم کرنے کے لیے نئے کارخانے لگانےوالوں کومراعات دیں گے۔
ذاتی کاروبار شروع کرنے کے لئے نوجوان کو غیر سودی قرضے اور تکنیکی مدد فراہم کریں گے۔
چھوٹے صنعتی یونٹ اورکاٹیج انڈسٹری کی حوصلہ افزائی کے لیے بلاسُود قرضے اورسہولیات فراہم کرے گی۔
نوجوانوں کو غیر سُودی قرضے اور آباد کرنے کے لیےسرکاری زمین دے گی اور زرعی سبزانقلاب لائے گی ۔
تعلیم یافتہ بے روزگارافراد کو مخصوص مدت کے لیے ’’بے روزگاری الاؤنس‘‘ دیے گی۔
تعلیمی اداروں میں بنیادی سطح پر ہی انٹرپرنیور شِپ (Entrepreneurship)کی تعلیم دی جائے گی۔
برسرروزگار خواتین(Working Women) کو محفوظ پیشہ ورانہ ماحول کی فراہمی کے لیے مؤثر اقدامات کرے گی۔
گھریلو صنعتوں کے فروغ کی حوصلہ افزائی کے لیے مؤثر قانون سازی اور اقدامات کرے گی۔
(vii) کمزور سماجی اشاریے:
غربت: پاکستان کی 37.2فیصد آبادی سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ پاکستان کی یومیہ فی کس آمدن 1224 روپے ہے۔
صنفی تقسیم کے 146 ممالک کے عالمی انڈیکس 2023ء میں پاکستان کا 142واں نمبر ہے۔
ناخواندگی: پاکستان کی 40 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
سکول سے باہر بچے: پاکستان میں سکول جانے کی عمر کے 2.8 کروڑ بچے سکول سے باہر ہیں۔
پاکستان کے ناکارہ نظامِ تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ عالمی بینک کی 9 جنوری 2024ءکی ایک رپورٹ کے مطابق مُلک میں 10 سال کی عمر کے 78 فیصد بچے اپنی عمر کے حساب سے پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
بھوک اور ناکافی خوراک کی وجہ سے پاکستان میں 7 فیصد بچے اپنی 5ویں سالگرہ سے پہلے مر جاتے ہیں۔
ناکافی نشو نما:5 سال سے کم عمر کے 40 فیصد بچے خوراک کی کمی کی وجہ سے ناکافی نشونما کا شکار ہیں۔
بے گھر آبادی: 2 کروڑ سے زائد آبادی بے گھر ہے۔
سماجی اصلاحات کے لیے جماعت اسلامی کیا کرے گی؟
زکوٰۃ و عشر کے نظام کے فروغ کے ذریعے 10 کروڑ عوام سے زکوٰۃ اکٹھی کر کے اس سے ہر غریب گھرانے کو اڑھائی لاکھ روپے سالانہ امداد کے ذریعے معاشی طور پر خود کفیل کرنے کی حکمتِ عملی تیار کرے گی۔
غریبوں کو اشیاء ضروریہ پر سبسڈی دے گی۔
مختلف نظام ہائے تعلیم اورطبقاتی نظامِ تعلیم کا خاتمہ کر کے پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم نافذ کرے گی۔
فنی تعلیم ، شہری شعور،روڈ سیفٹی، حفظانِ صحت اور کردار سازی کے موضوعات کونصاب تعلیم میں شامل کرے گی۔
شرح خواندگی کو سو فیصد کرنے کے لیے میٹرک تک تعلیم مفت اورلازمی ہو گی۔
تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرکے سکول سے باہر 2.8کروڑ بچوں اور بچیوں کو تعلیمی اداروں میں داخل کروا کر زیورِ تعلیم سے آراستہ کرے گی۔
بجٹ میں تعلیم کے لیےجی ڈی پی کا کم از کم 5 فیصد مختص کرے گی اور اس میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔
کم آمدن والے افراد کو سستی زمین خریدنے اورمکانات کی تعمیر کے لیے آسان اقساط پربلا سود قرضے فراہم کرے گی۔
اسلامی شریعت کے مطابق خواتین کو والد اور شوہر کی جائیداد سےوراثت اور ملکیت کے حقوق دلوانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات کرے گی۔
ماؤں اور بہنوں کو وراثت میں حصہ نہ دینے والے اُمیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے اور بیرون ملک سفرپر پابندی عائد کرے گی۔
بچیوں اوربچوں کے اغوا اور جنسی زیادتی کے مجرموں کو سر عام سزائے موت دینے کے لیے قانون سازی اوراس پر فوری عمل درآمد شروع کیا جائے گا۔
ہر بچے کی خوراک، لباس، چھت، صحت، تعلیم اور تحفظ کا بندوبست ریاست کی ذمہ داری ہوگی۔
پارلیمنٹ میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فراہمی کے لیے باقاعدہ قانون سازی کرے گی اوراس سےبچوں کوآگاہ کیا جائے گا۔
بچوں کی صحت، تعلیم اور تربیت کا شعور پیدا کرنے کی قومی مہم چلائے گی۔
Load/Hide Comments