کل ’’مائنس‘‘ پاکستان تحریک انصاف ،ملک میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں مگر حیران کن طور پر جس تیزی سے سابق وزیراعظم عمران خان کو ایک کے بعد ایک سزا دی جارہی ہے اس نے انتہائی سنجیدہ نوعیت کے سوالات کھڑے کردیئے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہونے جارہاہے۔سائفر میں 10 سال، توشہ خانہ میں عمر قید یعنی 14سال اور عدت کیس میں 7سال صرف وہی نہیں ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو بھی توشہ خانہ اور عدت کے مقدمہ میں ساتھ سزا۔ اپیل کا حق بہرحال ان کے پاس موجود ہے۔ ابھی القادر ٹرسٹ اور 9مئی کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس غیر معمولی پس منظر میں کس حد تک پی ٹی آئی کے نامزد کردہ ’’آزاد‘‘ امیدوار الیکشن جیت سکیں گے اس کا دارو مدار اس لاپتہ ووٹر پر ہے کتنے فیصد وہ کل پولنگ اسٹیشن تک پہنچ کر ووٹ دینگے یہی اصل سیاسی امتحان ہے انکا۔
کل مقابلہ تیر، شیر اور آزاد شہریوں کے درمیان ہے۔ کیا تیر سے شیر کا شکار ہوسکتا ہے یا شیر سب کو ’’ہڑپ‘‘ کرنے کیلئے تیار ہے اور اس وقت تو ان کے ’’محافظوں‘‘ نے ’’شیر‘‘ کے شکار پر پابندی لگادی ہے۔ لہٰذا آنے والے معاملات بظاہر ’’شیر‘‘ اور ’’محافظوں‘‘ میں طے ہونے ہیں۔ ایک تلخ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے اس وقت نظر یہی آرہا ہے کہ شیر، تیر اور گمشدہ بلے، کا مقابلہ ہے۔ کل کے بعد ایک نئی سیاسی کشمکش کا آغاز ہوگا اور وہ ہوگا آئندہ ’سنگھاسن‘ پر کون بیٹھے گا اس وقت ایک تو ریس سے ہی باہر ہے یعنی عمران خان اور اگر اس کے ’’آزاد‘‘ امیدواروں نے کوئی غیرمعمولی کامیابی حاصل کرلی جو موجودہ حالات میں مشکل نظرآتی ہے تو انتخابات کے بعد کا سیاسی کھیل انتہائی پیچیدہ ہوجائے گا۔ پہلے شیر اور تیر کا جائزہ لے لیتے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مضبوط امیدوار وزارتِ عظمیٰ کیلئے میاں نواز شریف ہیں جو لاہور اور مانسہرہ سے لڑرہے ہیں دوسری طرف پاکستان پیپلزپارٹی کے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں جو لاڑکانہ اور لاہور سے لڑرہے ہیں اور وہی ان کے وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ 172 کا’’میجک نمبر‘‘ کس کے پاس ہوگا اور کیسے ہوگا وہی ’’کرسی‘‘ پر بٹھا دیا جائے گا۔ پی ٹی آئی کی بحیثیت جماعت بنا ’’بلا‘‘ الیکشن میں غیر حاضری کا بہرحال فائدہ مسلم (ن) کو جارہا ہے اور اگر کوئی بڑا ’’سرپرائز‘‘ نہ ہوا تو وہی پنجاب کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرے گی اور اسی لئے میاں صاحب نے نہ کوئی جلسہ سندھ میں کیا نہ ایک دو جلسوں کے سوا کسی اور صوبہ میں ۔اہم سوال یہ ہے کہ کیا مسلم لیگ اس بڑے صوبہ سے 100 سے زائد نشستیں جیت سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو فرنٹ سیٹ پر وہی ہونگے چاہے گاڑی کا ڈرائیور ان کا محافظ ہو۔
اسی طرح پی پی پی آصف علی زرداری، بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو (جن کوبوجوہ امیدوار نہیں بنایا گیا) زیادہ متحرک سندھ میں ہیں گوکہ بلاول نے لاہور کی نشست پر خاصی محنت کی ہے۔ کیا پی پی پی سندھ میں چالیس سے زائد سیٹیں لے پائے گی بشمول شہری سندھ کے؟ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اصل کھیل ’’آزاد‘‘ اور دیگر جماعتوں کے ہاتھ ہوگا وہ کس کے ساتھ جاتے ہیں، ایسے میں ’’کس میں کتنا ہے دم‘‘ والا سلسلہ شروع ہوگا۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اگر 10سے 12 سیٹیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے کراچی، حیدرآباد، میرپور خاص اور سکھر میں تو زیادہ امکان اسکا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ حکومت میں شامل ہو۔ اس طرح جے یو آئی کا بھی زیادہ جھکاؤ ن لیگ کی طرف ہے جبکہ اگر جماعت اسلامی کو کچھ سیٹیں پاکستان بھر سے حاصل ہوتی ہیں تو وہ غالباً کسی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی۔ البتہ کراچی میں لگتا ہے ’’قدرت ‘‘کچھ مہربان ہے جماعت یا حافظ نعیم پر، پچھلے دو دن کی بارش نے ان کی انتخابی مہم کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ اب اگر پھر بھی وہ کامیاب نہ ہو پائیں تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ کیا بد قسمت شہر ہے ذرابارش تیز ہوئی تو کیا کے ایم سی، کیا ڈی ایچ اے جہاں پچھلے ڈیڑھ سال سے اربوں روپے کا پروجیکٹ چل رہا ہے ’’نکاسی آب‘‘ کا نتیجہ صفر۔
پنجاب اور سندھ کے بعد آتے ہیں سابق وزیراعظم کے مضبوط ’’قلعہ‘‘ خیبر پختونخوا کی طرف جہاں پی ٹی آئی میں تنظیمی سطح پر خاصی تقسیم نظر آتی ہے ایک طرف سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک گروپ تو دوسری طرف پارٹی کے اندر اب بھی تنظیمی کشمکش تحریک انصاف کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود کہ یہاں سے شاید ’’آزاد‘‘ امیدوار زیادہ جیت سکتے ہیں اب جیتنے کے بعد ان کا ’’ضمیر‘‘ انہیں کہاں لے جاتا ہے اس کیلئے تھوڑا انتظار۔
بلوچستان کی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہے۔ جس انداز میں بلوچ یکجہتی مارچ کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور دیگر اداروں نے ’’مس ہینڈل‘‘ کیا، وہ حیران کن ہے۔ ہم ایک انتہائی مشکل صورتحال سے گزر رہے ہیں ایسے الیکشن میں ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہنے کا امکان ہے ۔ حیران کن طور پر پی پی پی نے ماضی کے مقابلے میں زیادہ امیدوار کھڑے کئے ہیں اور زرداری صاحب کے ’’چیس بورڈ‘‘ پر پہلے نمبر پر سندھ اور دوسرے پر بلوچستان ہے۔ بظاہر اس وقت الیکشن 2024مائنس پی ٹی آئی، مائنس بلا اور مائنس بانی چیئرمین کے بعد کچھ ایسے نتائج پیش کررہا ہے۔ نمبر1، مسلم لیگ(ن) نمبر 2، پی پی پی،نمبر 3آزاد امیدوار، نمبر 4، متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) نمبر5 دیگر جماعتیں ۔ 8 فروری کے بعد کی سیاسی کشمکش میں ’’شریف برادران‘‘ زیادہ بہتر پوزیشن میں ہونگے مرکز اور پنجاب میں حکومتیں بنانےکیلئے جبکہ آصف زرداری صاحب ’’آزاد‘‘ اور دیگر جماعتوں بشمول مسلم لیگ(ق)، بلوچستان نیشنل پارٹی اور دیگر کے ساتھ مل کر ’’شریفوں‘‘ کیلئے مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ ایک اور فیکٹر جو شاید اس بار بھی پنجاب اور کراچی میں اہم ہو وہ تحریک لبیک پاکستان ہے۔ سیٹیں جیتنے کے حوالے سے انہیں اب تک خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی مگر ہر نشست پر وہ پانچ ہزار سے لے کر پچیس تیس ہزار تک ووٹ لے جانےکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کراچی میں ان کا ووٹ ایم کیو ایم (پاکستان) کے لئے مشکلات پیدا کرسکتا ہے ۔ 2018میں انہوں نے پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو نقصان پہنچایا اس بار دیکھتے ہیں کہ کس کا نقصان زیادہ ہوتا ہے۔رہ گئی بات پی ٹی آئی کے اندر سے نکلنے والے جہانگیر خان ترین کی استحکام پاکستان پارٹی کی تو جو لوگ اپنی نشستیں جیت سکے ان کا الحاق مسلم لیگ(ن) سے ہونے کا امکان ہے۔
اس ممکنہ انتخابی ’’چیس بورڈ‘‘ میں اصل ’’مہرے‘‘ وہ ہوں گے جن کا فیصلہ بہرحال ملک کے ’’قومی مفاد‘‘ میں ہوگااوریہ مفاد قبولیت کی بنیاد پر ہوتا ہے اسی لئے مجھے ہمیشہ الیکشن نہ جانے کیوں سلیکشن ہی نظر آتا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ