سوشل میڈیا کے حقائق اور زمینی سیاسی حقائق ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں تو دیہی اور شہری پاکستان کی سیاسی حرکیات بھی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ۔پاکستان میں حکومتیں گرتی شہروں سے ہیں لیکن بنتی دیہات سے ہیں ۔مثلاً لاہورکی سیاست نواز شریف اور عمران خان کے گرد گھومتی ہے لیکن پورے بلوچستان میں ایک حلقہ بھی ایسا نہیں ، جہاں الیکشن میں ان دونوں کے ناموں پر سیاست ہورہی ہو۔ اس لئے سوشل میڈیا یا بڑے شہروں کی صورت حال کو دیکھ کر الیکشن کے بارے میں کوئی پیشین گوئی کرنا خود کو غلط فہمی کا شکار بنانے کے مترادف ہے۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں لوگ مختلف بنیادوں پر ووٹ ڈالتے ہیں جبکہ بڑے شہروں میں بھی ووٹ دینے کیلئے ایک شہری کا پیمانہ دوسرے سے مختلف ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی ممتاز ماہرشماریات ہیں۔ سرویز کے حوالے سے ان کا ادارہ ایک معتبر ادارہ سمجھا جاتا ہے ۔ وہ اپنی زندگی میں تمام انتخابات کا نہ صرف نظارہ کرچکے ہیں بلکہ اس سے پہلے اور اسکے بعد شماریات کی بنیاد پر ان کا تجزیہ بھی کرتے رہے۔ حالیہ دنوں میں گزشتہ تمام انتخابات کے شماریاتی تجزیے پر مبنی ان کی ایک کتاب شائع ہوئی ہے جن میں شماریات کی بنیاد پر انہوں نے پاکستانی ووٹر کے رجحانات کو بڑی اچھی طرح واضح کیا ۔
1993سے لے کر 2018تک کے تمام انتخابات کے سروے کے مجموعی نتائج کے مطابق پاکستان میں 21فی صد لوگ ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 19فی صد ترقیاتی کام کی بنیاد پر ، 16 فی صد جماعتی وفاداری کی بنیاد پر ، 13فی صد قابلیت کو دیکھ کر ، 13فی صد دیانت اور مذہبی رجحانات کو دیکھ کر ،8 فی صد برادری کی بنیاد پر ، 2فی صد کسی اور کو ہرانے کے جذبے کے ساتھ جبکہ 4فی صد دیگر وجوہات کی بنیاد پر ووٹ ڈالتے ہیں ۔ یہ اوسط انہوں نے 1993سے لے کر اب تک ہونے والے انتخابات کی نکالی ہے ۔ 1993کے انتخابات کے دوران اعجاز شفیع گیلانی کے ادارے کے سروے کی بنیاد پر 17فی صد نے ذاتی سرپرستی کی وجہ سے ، 13فی صد نے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ، 22 فی صد نے جماعتی وابستگی کی وجہ سے ، 13 فی صد نے قابلیت کو دیکھ کر، 17فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان کی وجہ سے ، 6فی صد نے برادری کی وجہ سے ،2فی صد نے کسی اور کو ہرانے کے جذبے کے ساتھ اور 11فیصد نےکسی اور وجہ سے ووٹ کا استعمال کیا۔1997کے عام انتخابات میں 39 فی صد نے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 16فی صد نے ترقیاتی کاموں کی ، 9فی صد نے جماعتی وفاداری، 14 فی صد نے قابلیت، 8فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان، 3فی صد نے برادری، ایک فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 11فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔ 2002کے عام انتخابات میں 17فی صد نے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 10فی صد نے ترقیاتی کاموں کی ، 12 فی صد نے جماعتی وفاداری، 9فی صد نے قابلیت، 23فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان، 12 فی صد نے برادری،2 فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 5فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔ 2008کے عام انتخابات میں 17 فی صد نے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 21 فی صد نے ترقیاتی کاموں ، 25فی صد نے جماعتی وفاداری، 13فی صد نے قابلیت، 11فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان، 8فی صد نے برادری، 2فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 2فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔
2013کے عام انتخابات میں 12 فی صد نے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 26 فی صد نے ترقیاتی کاموں ،20 فی صد نے جماعتی وفاداری، 15فی صد نے قابلیت، 12فی صدنےدیانت اور مذہبی رجحان، 12فی صد نے برادری، 2فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 2فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔
2018کے عام انتخابات میں 29فی صد نے ذاتی سرپرستی کی بنیاد پر ، 31فی صد نے ترقیاتی کاموں کی ، 10 فی صد نے جماعتی وفاداری، 16فی صد نے قابلیت،10فی صد نے دیانت اور مذہبی رجحان، 5فی صد نے برادری، 2فی صد نے کسی اور کو ہرانے جبکہ 2فی صد نے دیگر وجوہات کی بنیاد پر کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف ووٹ کا استعمال کیا۔
ان سرویز اور اس کے تجزیے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کسی بھی انتخاب میں دیانتداری کی بنیاد پر ووٹ ڈالنا ہمارے ووٹر کی ترجیح نہیں رہی لیکن ہر کوئی حکمرانوں کی بددیانتی کا رونا رو رہا ہوتا ہے ۔ تمام انتخابات میں ووٹ ڈالتے وقت ووٹر کی پہلی ترجیح ذاتی سرپرستی ہی ہوا کرتا ہے ۔ دوسرے نمبر پر وہ ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر ووٹ ڈالتا ہے اور تیسرے نمبر پر جماعتی وابستگی آجاتی ہے ۔ قابلیت ان کی چوتھی ترجیح ہے اور دیانت یا مذہبی رجحان ان کی پانچویں ترجیح ہے ۔ ووٹ ڈالتے وقت قابلیت ہمارے ووٹر کی چوتھی جبکہ دیانتداری پانچویں ترجیح ہے لیکن پھر حکمرانوں کی نااہلی کا رونا روتے اور کرپشن پر واویلا کرتے ہیں ۔ ہمیں اگر اہل حکمراں چاہئیں تو اہلیت رکھنے والوں کو ووٹ دینا ہوگا اور اگر دیانتدار حکمراںچاہئیں تو دیانتدار امیدواروں کو ووٹ ڈالنا ہوگا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ووٹ ڈالتے وقت تو ہماری ترجیح ذاتی سرپرستی ، ترقیاتی کام، جماعتی وفاداری اور برادری ازم ہو لیکن حکمراں ہمیں اہل اور دیانتدار ملیں ۔ اگر ہمیں اہل اور دیانتدار حکمراں چاہئیں تو پھر دیگر تمام عوامل کو پس پشت ڈال کر دیانتداری اور اہلیت کی بنیاد پر ووٹ ڈالنے ہوں گے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ