عمران خان کا عروج سے زوال تحریر : محمد اصغر

عمران خان نے 1996 میں سماجی انصاف کے لیے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) بنائی۔ 1997ء کے انتخابات میں تحریک انصاف قومی اسمبلی کی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی جبکہ 2002 کے انتخابات میں عمران خان صرف اپنی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کے 27 حلقوں میں کامیابی ملی جبکہ 2018 کے انتخابات میں واحد اکثریتی جماعت بن کر اُبھری۔اُن کی جیت کا اعلان آئی ایس پی آر کے ڈی جی آصف غفور کے ’’ وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ‘‘ٹویٹ کے ذریعے کیا جس کے بعد عمران خان 17 اگست 2018 کو پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم بنے۔ وفاق اور دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مخطوط حکومت بنائی ۔
عمران خان نے خود کو پرہیزگار ، اصلاح کار اور محتسب کے طور پر پیش کیا۔ پاکستان کو ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ کی طرز پر ایک اسلامی فلاحی ریاست کا خواب دکھایا ۔ عوام سے ٹیکس نظام اور بیوروکریسی میں اصلاحات، 50 لاکھ گھروں، ایک کروڑ ملازمتوں اور سب کے لیے انصاف کے پُرجوش وعدے کیے۔ اُن کے دور اقتدار میں غیر ملکی ترسیلات اور برآمدات میں اضافہ دیکھا گیا۔
سابق وزیر اعظم کے دور اقتدار میں احساس، سماجی بہبود کا پروگرام، صحت کارڈ ، ڈیجیٹل راست بنکنگ کا آغاز اور نیا پاکستان سرٹیفکیٹس مثبت اقدامات تھے۔ مگر شومئی قسمت اُن کے دور میں ہرشعبہ حکومت میں طرزِ حکمرانی (گورننس) کمزور ہوگئی ۔مہنگائی بڑھ گئی۔ روپیہ گر گیا ۔ ملک آئی ایم ایف کے قرضوں کے جال میں پھنس گیا۔ اُنہوں نے عوامی ردعمل، غصے اور تنقید کو ہوا میں اُڑا دیا اور معیشت کو نہ سنبھال سکے۔اُن میں حکومتی اُمور چلانے، کارٹیلز اور مافیاز پر قابو پانے اور بیوروکریسی سے کام لینے کے لئے سوجھ بوجھ کی بہت کمی تھی۔ اُنہوں نے احتساب کا اتنا خوف پیدا کیا کہ ہر سطح پر بیوروکریسی نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ سیاسی مخالفین اور جماعتوں کے ساتھ غیر منصفانہ، غیرلچکدار اور غیر مفاہمانہ رویہ اپنایا۔ اُن کے وزراء نے فاش غلطیاں کی جب سٹیبلشمنٹ کے ساتھ اُن کے اختلافات طشت ازبام ہوگئے۔
عمران خان نے ملک کو درپیش سنگین مسائل سے نمٹنے کے بجائےمتعدد محاذ کھول لئے۔ معاشی اور سیاسی مسائل حل نہ کر سکے اور طرزِ حکمرانی (گورننس) کے اُمور چند من پسند بیوروکریٹس کے رحم و کرم پر چھوڑ دیئے۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پی ایم آفس میں وہ اہم قومی امور پر روزانہ ایک درجن سےزیادہ اجلاسوں کی صدارت کرتے تھے لیکن اُن کی ہر نشت 15 منٹ سے زیادہ نہ چلتی تھی۔ وہ اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو خوب رگڑتے اور ذلیل کرتے۔ وہ اپنے مخلص وزراء اور مشیروں کو خاطر میں نہ لاتے اُن کی بات نہ سنتے۔ جواباً وزراء اور مشیروں نے خاموش رہنا شروع کر دیا اور جو کچھ عمران خان کہتے اُس سے اتفاق کرنا شروع کر دیا۔ کچھ لوگ عمران خان کی اس اداکو خود پسند ضدی اور نرگسیت قرار دیتےہیں ۔بعدازاں اُن کے ناقدین میں اتحادی بھی شامل ہو گئے ۔اُن میں کچھ نے بعد میں ازخود دُوری اختیار کر لی یا اُن کو دُور کر دیا گیا۔عمران خان نے بعض معاملات میں بیوروکریسی کے ذریعے سیاسی جوڑ توڑ کی بھی کوشش کی۔ عوام کی بھلائی کے لیے نمائشی اقدامات اور جھوٹے وعدے کیے۔ نیو بلیو ایریا ہاؤسنگ اسکیم کو وہ عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے۔اُن کے راوی ریور فرنٹ ترقی کے منصوبے پر ماہرینِ ماحولیات نے شدید اعتراضات کئے۔ کم آمدنی والے خاندانوں کے لئے کم لاگت مکانات فراہم کرنے کا ایک پُرجوش منصوبہ نیا پاکستان ہاؤسنگ پراجیکٹ تنازعات کا شکار ہوگیا۔اُن کے دور میں نجی خریداروں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مبینہ طور پر پریمیم نرخوں پر ری برانڈڈ رہائشی یونٹ فروخت کیے گئے۔اُن پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے پارلیمان کی منظوری کے بغیر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور اس طرح کی دیگر تنظیموں کے ارکان کی باعزت واپسی اور آبادکاری کی اجازت دے کر عسکریت پسندی کو دوبارہ زندہ کیا۔
پارلیمنٹ میں تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ لینے کے بجائے عمران خان نے کھلے عام اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف سخت مخالفانہ رویہ اپنایا وہ اپنے مخالفین کو نازیبا ناموں سے پکارکر جوابی کاروائی پر اُکساتے رہے۔ جس کی نیتجہ یہ نکلا کہ پی ٹی آئی دورانِ اقتدار اپنے طور پر پارلیمنٹ میں قانون سازی نہ کرواسکی ۔ اُسےقانون سازی کے لئے ایجنسیوں کا سہار لینا پڑا جس کا اعتراف اُنہوں نے اقتدار سے برطرفی کے بعد کیا۔ اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان پر ریاستی اداروں کو بدنام کرنے اور عوام خصوصاً نوجوانوں میں نفرت کو فروغ دینے کا الزام بھی لگایا گیا۔عمران خان نے امریکی ایماء پر سائفر کا سہارا لے کر فوج اور آئی ایس آئی پر اُن کے خلاف سازش کا سنگین الزام لگایا جس سے سٹیبلشمنٹ اور اُن کے درمیان وسیع خلیج حائل ہو گئی۔ جو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اُن کی اقتدار سے بے دخلی پر منتج ہوئی۔
تحریک انصاف اور عمران خان کا زوال اس وقت شروع ہوا جب تحریک انصاف نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفے دےدیئے۔جب پی ڈی ایم حکومت قبل از وقت انتخابات کرانے سے گریزاں نظر آئی تو اُنہوں نے اپنے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے عوامی جلسوں کے ذریعے سیاسی مہم شروع کی اور جنرل قمرجاوید باجوہ اور جنرل فیصل نصیر کو آڑے ہاتھوں لئے۔ اُنہوں نےوفاقی حکومت کو قبل از وقت انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے دو صوبوں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ کر اپنے ہاتھ پیر خود ہی کاٹ لئے۔اُن کی زبردست احتجاجی مہم کو عوامی سطح پر مقبولیت حاصل ہوئی مگر پے در پے غلطیاں کرکے مفاہمت کے تمام دروازے بند کردئیے اور پُرتشدد مزاحمت پر اُتر آئے ۔سابق وزیر اعظم توشہ خانہ کیس میں گرفتار ہوئے تو اُن کے حامیوں نے 9 مئی 2023ء کو پرتشدد مظاہرے کیےجس کے بعد ان کی پارٹی کے رہنماؤں کو جیل میں بند کردیا گیا اور یوں 9 مئی 2023ء کا سانحہ اُن کی مزاحمتی سیاست کا نکتہ عروج اور تحریک انصاف کے زوال کا نکتہ آغاز ثابت ہوا۔
عمران خان کرکٹ اور سیاست میں خود سری کے قائل رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قید میں جانے کے بعد اُن کے لئے پارٹی عہدے داروں کو ہدایات جاری کرنا مشکل بنا دیا گیا حتیٰ کہ جیل میں ملاقاتوں کے دوران نوٹس لینے پر پابندی کی وجہ سے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کی فہرست بھی اُن کے معاونین کو زبانی یاد کرنا پڑی۔ اُن کو اپنے پیغامات سوشل میڈیا کے ذریعے پہنچانے کے لیے جیل میں سمارٹ فون دستیاب نہیں ہے۔ آج تحریک انصاف کی پہلے اور دوسرے درجے کی پارٹی قیادت کہیں نظر نہیں آتی، وہ یا تو جیل میں ہے یا روپوش ہے یا پھر سیاسی وفاداریاں بدل چکی ہےاور عمران خان خود 2024 کے عام انتخابات جیل کی کال کوٹھری میں گزاریں گے۔ توشہ خانہ کیس، سائفر کیس اور عدت کیس میں سزایافتہ ہونے کے بعد اُن کے حامی اُمید کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف پولنگ کے آزاد اُمیدوار کسی بھی انتخابی نشان پر لڑکر انتخابات جیت جائیں گے۔مگر شاید وہ یہ بھول چکے ہیں کہ انٹراپارٹی الیکشن نہ کرانے کی پاداش میں انتخابی نشان ، خواتین اور اقلیتی نشستوں سے محروم ہو چکے ہیں اور کسی صورت وفاق میں حکومت نہ بنا سکیں گے۔
جو کچھ بھٹو، جونیجو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو اور یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ماضی میں ہوا وہ آج عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اُن کی سب سے بڑی خطا یہ ہے کہ وہ شاخ نازک پر آشیانہ بناتے ہوئے یہ بھول گئے تھے کہ ’’ وتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ‘‘۔