کالم کے اصل موضوع کی طرف آنے سے قبل اپنے دیرینہ قارئین کی خدمت میں دست بستہ عرض کرنا ہے کہ منگل کی صبح اٹھ کر نیا کالم لکھنے کے بجائے میں سامان سفر باندھے اسلام آباد سے چند دنوں کے لئے لاہور روانہ ہوچکا ہوں گا۔ 8فروری کے یوم انتخاب کے لئے ٹی وی چینل کی خصوصی نشریات میری توجہ کا مرکز رہیں گی اور ان میں شرکت کے لئے ہمہ وقت پاکستان کے تمام شہروں میں نمودار ہوئی فضا کے بارے میں معلومات کے حصول کے بعد تبصرہ آرائی کرنا ہوگی۔ امید ہے کہ آئندہ کالم پیر کی صبح اسلام آباد لوٹ کر لکھوں گا۔ اس دوران آپ سے دوری کی خلش محسوس ہوتی رہے گی اور اس امر کی بابت شرمندگی کا احساس بھی کہ طویل عرصے کے بعد آپ سے تقریبا ایک ہفتہ تک رابطے میں نہیں رہوں گا۔
آج کے کالم کا موضوع 8فروری کے انتخاب کے علاوہ کچھ ہو نہیں سکتا۔ جو انتخاب ہونا ہیں ان میں شر کت سے یقینا ہمارے ملک کی ایک مقبول جماعت کو ریاستی ا داروں نے ہر حربہ استعمال کرتے ہوئے روکنے کی کوشش کی۔تحریک انصاف کے مخالفین کو یہ حقیقت یاد دلائی جائے تو وہ 2018 کا انتخاب یاد دلاتے ہیں جس سے قبل ایک طویل عدالتی عمل کے ذریعے ان دنوں کی مقبول جماعت کے سربراہ اور تین بار وطن عزیز کے وزیر اعظم رہے نواز شریف کو انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے نااہل ٹھہرانے کے بعد بدعنوانی کے الزامات کے تحت جیل بھجوادیا گیا تھا۔ نواز شریف کو جیل بھجوادینے کے باوجود ان کے نام سے منسوب جماعت کو لیکن اس کے انتخابی نشان سمیت میدان میں موجود رہنے دیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کو یہ سہولت میسر نہیں۔اس کے بانی کو ریکارڈ بناتی سبک رفتاری کے ساتھ اڈیالہ جیل میں چلائے مقدمات کے اختتام پر کئی سالوں تک پھیلی سزائیں سنادی گئی ہیں۔ ان پر بھاری بھر کم جرمانے بھی عائد ہوئے ہیں۔اس جماعت کے بانی کی نااہلی کے بعد باقی بچی جماعت کے سربراہ اس کا انتخابی نشان بچانے میں ناکام رہے۔میدان میں اب تحریک انصاف کے نہیں اس کے حمایت یافتہ امیدوار اترے ہیں۔ تکنیکی اعتبار سے وہ آزاد ہیں اور لازمی نہیں کہ منتخب ہوجانے کے بعد وہ تحریک انصاف ہی کے وفادار رہیں۔ ملکی تاریخ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم یہ سوچنے کو مجبور ہیں کہ رکن اسمبلی کا حلف اٹھالینے کے بعد تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان وسیع تر قومی مفاد میں اس جماعت میں شامل ہوجائیں گے جو سادہ اکثریت کے ساتھ نمودار ہوگی۔
ہم صحافیوں کی کثیر تعداد عوامی رابطوں کے بعد یہ محسوس کررہی ہے کہ تحریک انصاف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے حامیوں سے مسلسل رابطے میں ہے۔ اس جماعت کے بانی اور دیگر کئی سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ریاست کے ہاتھوں ہوئے سلوک نے ہمدردی کا ووٹ بھی متاثر کن تعداد میں بڑھادیا ہے۔تحریک انصاف کے حامی خاموشی مگر ثابت قدمی سے 8فروری کے منتظر ہیں۔ وہ ازخود گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشن پہنچ جائیں گے اور نظر بظاہر دیگر سیاسی جماعتوں کے لگائے کیمپوں سے ووٹ کی پرچی کے حصول کے بعد پولنگ بوتھ تک پہنچ جانے کے بعد بیلٹ پیپر پر موجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر لگانے کے بعد گھر واپس آجائیں گے۔ عمران خان کا وفادار شما رہوتا کھمبا بھی کامیاب ہوجائے گا۔
1989 سے بطور رپورٹر میں انتخابی حرکیات کا طالب علمانہ لگن سے مسلسل مشاہدہ کررہا ہوں۔مجھے شبہ ہے کہ کھمبے کے بارے میں جو خوش کن خواب بنے اور بتائے جارہے ہیں وہ حقیقت میں تبدیل نہ ہوپائیں گے۔ یہ لکھنے کے بعد اعتراف اگرچہ یہ بھی کرنا ہے کہ ڈھلتی عمر کا صحافی ہوں۔ اس توانائی اور ضد کی شدت کا غالبا اندازہ لگانے کے قابل نہیں جوسوشل میڈیا کے عادی افراد کو متحرک بناتی ہے۔
یہ اعتراف کرنے کے باوجود مجھے رپورٹ کرنا ہوگا کہ اسلام آباد کے 30سے زیادہ رہائشیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔وہ تحریک انصا ف کے شیدائی ہیں اور اس جماعت کو ان دنوں شدید زیادتی کا نشانہ بنا ہوا بھی تصور کرتے ہیں۔ وہ گزشتہ دودہائیوں سے ہر ا نتخاب میں حصہ بھی لیتے رہے ہیں۔ان کی اکثریت مجھے نہایت دکھ سے یہ بتاتی رہی کہ اب کی بار وہ ووٹ ڈالنے کو آمادہ نہیں۔چند افراد پر مشتمل جو انتہائی مختصر گروہ میں نے انتخابی نتائج کا اندازہ لگانے کے لئے چنا ہے ان میں سے پچاس فی صد افراد کو گزرے ہفتے کی شام تک یہ خبر ہی نہیں تھی کہ ان کے حلقے میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کا نام کیا ہے اور اسے کونسا انتخابی نشان الاٹ ہوا ہے۔اس کے علاوہ اہم بات یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹروں کو اعتماد نہیں کہ وہ جس شخص کو عمران خان کی محبت میں گھروں سے ووٹ ڈالنے نکلیں گے وہ رکن اسمبلی کا حلف اٹھالینے کے بعد تحریک انصاف کا وفادار رہے گا یا نہیں۔ 30سے زائد افراد پر مشتمل چنے گروہ کو ملک بھر میں چھائے موڈ کا حقیقی نمائندہ تصور کیا نہیں جاسکتا۔ اس کے باوجود دن میں دو سے تین بار مجھ سے گفتگو کرتے ہوئے وہ جن خدشات کا اظہار کرتے ہیں ملک بھر میں پھیلے مناسب حد تک تحریک انصاف کے حامیوں کے دل ودماغ میں موجود خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ان سے گفتگو لہذا مجھے یہ سوچنے کو ا کسارہی ہے کہ 8فروری کے دن غالبا تحریک انصاف کے ممکنہ ووٹروں کی اکثریت اپنے گھروں ہی میں بیٹھی رہے گی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ ایسا واقعہ 1997 کے انتخاب کے دوران ہوا تھا۔
نسبتا کم ٹرن آؤٹ کے باوجود مسلم لیگ (نون) 1997 کی طرح ہیوی مینڈیٹ لیتی بھی نظر نہیں آرہی۔ مختلف حلقوں میں جاکر بہت لگن اور محنت سے عوام کی رائے جاننے میں مصروف کئی رپورٹروں سے جو رابطے ہوئے ہیں یہ سوچنے کو مائل کررہے ہیں کہ مسلم لیگ (نون) کواپنے تئیں سادہ اکثریت کے حصول میں بھی بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 8فروری کے بعد اسے دیگر سیاسی جما عتوں اور آزاد اراکین اسمبلی کے ساتھ مخلوط حکومت بنانا ہوگی۔ پنجاب کے علاوہ دیگر تین صوبوں میں بھی وہ اپنے تئیں حکومت نہیں بناپائے گی۔ پاکستان ان دنوں کئی بحرانوں کا سامنا کررہا ہے۔ ان سے نبردآزما ہونے کے لئے ہمیں بھرپور عوامی حمایت سے قائم ہوئی حکومت درکار ہے جو وقتی طورپر عوام میں غیر مقبول مگر دیرپا تناظر میں معاشی اور سیاسی استحکام یقینی بنانے کیلئے سخت گیر اصلاحی اقدامات ا ٹھاسکے۔ مخلوط حکومت ممکنہ طورپر اس ضمن میں مطلوبہ جی داری دکھانہیں پائے گی۔ایک بڑی جماعت کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی وجہ سے تلخیوں اور معاشرتی تقسیم میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ ایسے میں 8فروری کا دن گزرنے کے بعد معاملات کو مستحکم ہوتا دیکھنے میں دشواری محسوس کررہا ہوں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت