کچھ دن پہلے ایک کانفرنس میں گفتگو کے دو تین سیشننز میں شرکت اور اہم علمی شخصیات کے ساتھ مکالمے کے بعد میں تھوڑی دیر سکون سے بیٹھنے اور کچھ ہلکا پھلکا کھانے کے لئے شہر کی ایک نیک نام عمارت کے پرسکون گوشے میں جا بیٹھی۔ وجہ یہ بھی تھی کہ دو گھنٹے کے بعد مجھے ایک اور اہم تقریب میں شرکت کرنا تھی اس لئے گھر جانا ممکن نہ تھا۔
میں نے بیٹھتے ہی محسوس کیا کہ ساتھ والی میز پر ایک معتبر شناسا شخصیت موجود ہیں۔ سلام کرنے گئی تو وہاں موجود اعلی عہدوں سے ریٹائرڈ بہت سینئر افراد جن سے ایک دو بار رسمی سلام دعا ہو چکی تھی نے کچھ دیر وہاں بیٹھنے پر اصرار کیا۔ حالاں کہ اس وقت میرا بات کرنے کا قطعی موڈ نہیں تھا مگر احتراما بیٹھ گئی۔ میں نے سوچا وہ مجھ سے کوئی ادبی بات یا تصوف کے حوالے سے کوئی سوال کریں گے مگر بیٹھتے ہی ایک صاحب نے حکم نامہ جاری کیا کہ ہمارے یہ دوست آپ کی آرٹ اور کلچر کے حوالے سے خدمات اور تحریروں کا تذکرہ و تعریف کرتے رہتے ہیں مگر ہم آپ کو تب مانیں گے جب آپ ہمیں بتائیں گی کہ آپ کس کو ووٹ کر رہی ہیں۔ میرے جواب دینے سے پہلے ہی دوسرے معزز فرد نے کہا کہ اگر آپ نون لیگ کو ووٹ کر رہی ہیں تو پھر ہم آپ کو نہیں مانتے۔ میرے فش اینڈ چپس آچکے تھے میں اپنی میز کی طرف جانے لگی تو انھوں نے پھر حکم صادر کیا کہ نہیں پہلے جواب تو دیں۔ میں نے سینئر لوگوں سے تلخ بات کرنے کی بجائے ہنسی مذاق میں سوال کو اڑانا چاہا اور کہا کہ ابھی میں دیکھوں گی میرے حلقے میں کون کھڑا ہے پھر فیصلہ کروں گی۔مگر وہ سب بہت جارحانہ موڈ میں تھے اور کہنے لگے میڈم پلیز ن لیگ کو ووٹ نہ دینا۔ویسے توآپ کے پاس موقع ہے آپ کوتاریخ کی درست سمت کھڑا ہونا چاہیے۔حق، سچ اور انصاف کا ساتھ دینا چاہیے۔ آپ دیکھیں نا 76 سال بعد آپ کو ایسا رہنما میسر آیا ہے جو بے داغ اور ایماندار ہے۔باقی سب تو چور ہیں لیکن اگر آپ اس کا ساتھ نہیں دے سکتیں توووٹ ضائع کردینا، مگر ن لیگ کو ووٹ نہ دینا اور نہ ہی پی پی پی کو۔یہ دونوں ایک جیسی جماعتیں ہیں۔
میں نے کہا ہاں دونوں وفاقی جمہوری جماعتیں ہیں ان میں کئی خامیاں ہو سکتی ہیں جو جمہوری تسلسل برقرار رہنے سے کم ہوتی جائیں گی۔ میری بات جاری تھی کہ ایک صاحب بول اٹھے،دیکھا نا آپ نے اپنی سوچ کا اظہار کر دیا میں پہلے ہی سوچتا تھا آپ ن لیگ کو ووٹ دیں گی۔میڈم غلط کام نہ کریں۔یہ آپ کو سوٹ نہیں کرتا۔مجھے اندازہ ہوا کہ ان سے نظریاتی سیاست پر بحث کرنا بے کار ہے۔ اس طرح کے سوالوں کی بوچھاڑ کے دوران میں حیرانی سے ان کی صورتیں دیکھتی اور ان کی اذیت کا اندازہ لگاتی رہی کیونکہ نفرت کی آگ میں جلنا کوئی آسان کام تو نہیں۔ یہ تووہ سزا ہے جو انسان اپنے ہاتھوں اپنے لئے لکھتا اور جھیلتا ہے۔ میں اٹھنے لگی تو پھر کہنے لگے میڈم ہم سے وعدہ کرکے جائیں آپ ن لیگ کو ووٹ نہیں دیں گی۔ میں رسما بھی مسکرا نہ سکی کہ میری برداشت سے زیادہ مجھے زِچ کیا جا چکا تھا۔میں سوچتی رہی کہ دنیا کی عظیم یونیورسٹیوں سے تعلیم یافتہ لوگوں کے رویوں میں اتنی شدت پسندی، منفیت، بغض اور نفرت کیسے در آئی۔ علم کی وسعت کا سبق پڑھنے والوں کی سوچ پر خود کو عقل کل سمجھنے کا جنون کیسے قابض ہو گیا۔
میری جھولی میں فلاسفی، سیاسیات اور لٹریچر میں ایم اے اور فلسفے میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری، تصوف، شاعری، ادب اور کلچر پر کئی کتابیں، کالم اور مضامین ہیں۔دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں لیکچر کا اعزاز حاصل ہے۔ میں نے ہمیشہ لوگوں کی سوچ پر دستک دے کر اپنی بات کی۔ کبھی کسی کو ڈکٹیٹ کیا نہ مجبور کہ وہ ضرور میرے نظریات کی تابع داری کرے۔ میرے اپنے سیاسی نظریات ہیں جن پر عمل درآمد کا مجھے پورا حق ہے۔جمہوریت جمہور کی رائے کے احترام پر مبنی ہوتی ہے۔ قدرت کا ایک اپنا نظام بھی ہے، وہ کچھ لوگوں کو ہمیں سبق سکھانے اور کچھ کو ہمیں ساتھ لے کر چلنے کے لئے ہمارا رہنما مقرر کرتی ہے۔ ترقی کے موٹر وے پر جو ملک کے لئے بھلا وہ ہماری دعاوں میں شامل۔میں جب بھی گزشتہ تمام ادوار کا موازنہ کرتی ہوں۔دو وفاقی جماعتیں ملک کی بقا اور لوگوں کے احساسات کی آئینہ داری کرتی محسوس ہوتی ہیں۔ کئی بار خدمت کا موقع ملنا منفی نہیں مثبت عمل ہے ۔ تجربہ ایک بڑی نعمت ہے ۔مسلم لیگ ن نے حالات و واقعات سے بہت کچھ سیکھا اور خود کو مسلسل مثبت تبدیلی کے سفر پر رواں رکھا ہے۔یہی سوچ ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے اس ملک کو ایک مہربان، دلیر اور کمٹڈ عورت کی سربراہی کی ضرورت ہے جو ہمارے مجروح تشخص کو باوقار کر سکے۔ یقینا مریم نواز امید اور کامیابی کی علامت بن چکی ہیں۔ پاکستان زندہ باد
بشکریہ روزنامہ جنگ