عمران خان کو جس انداز میں ایک کے بعد ایک کیس میں گزشتہ دنوں میں سزائیں سنائی گئیں اس نے انصاف کے نظام پر ایک بار پھر سوال کھڑے کر دیے۔ ایسا نہیں کہ ان مقدمات میں جان نہیں تھی۔ سوال اس بات پر اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا انصاف کے تقاضے پورے کیے گئے ۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان اور دوسرے ملزمان ان مقدمات کو لٹکانے کے لیے مختلف حیلے بہانے کرتے رہے لیکن اس کے باوجود متعلقہ عدالتوں نے ایک کے بعد ایک، تین مقدمات میں چار پانچ دنوں کے اندر اندر فیصلے دیے جن میں ملزمان کو سخت سزائیں سنائی گئیں۔
اس سے تاثر یہ ملا کہ جیسے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ ان تین مقدمات میں فیصلے ہر حال میں انتخابات سے پہلے آنے چاہئیں۔ ابھی تک عمران خان کے ساتھ بشری بی بی اور شاہ محمود قریشی ملزمان سے سزا یافتہ مجرم بن چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کیسوں کو جلدی میں نمٹانے کی وجہ سے ان مقدمات کے فیصلوں میں ایسی کمیاں، کسریں رہ گئی ہیں جس کا فائدہ مجرموں کو اپیل کے مو قع پر ہو سکتا ہے۔
آگے کیا ہوگا، کب ہوگا اس کا تو فیصلہ وقت ہی کرے گا لیکن ان سزاوں کی بنیاد پر عمران خان کے لیے جیل میں کم از کم ایک ڈیڑھ سال گزارنا لازم نظر آتا ہے۔ کب ان فیصلوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں سنی جاتی ہیں، یہ آنے والے دنوں، ہفتوں اور چند مہینوں میں کم از کم نظر نہیں آتا۔
ابھی تو عمران خان کے لیے اور بہت مشکلات ہیں۔ اگر ایک طرف عمران خان کے 190ملین پاونڈ یا القادر ٹرسٹ کا مقدمہ احتساب عدالت کے سامنے ہے اور نیب ایک نیا مقدمہ بھی تیار کر رہی ہے تو سب سے زیادہ عمران خان کو جس کا خطرہ ہے وہ ان کے خلاف 9 مئی کے مقدمات ہیں۔
9 مئی کے صرف ایک مقدمہ میں عمران خان اور شیخ رشید کے خلاف تحریک انصاف کو خیرباد کہنے والے صداقت عباسی، واثق قیوم اور عمر تنویز بٹ عدہ معاف گواہ بن چکے اور یہ بیان دے چکے کہ 9مئی کی پلاننگ عمران خان، شیخ رشید وغیرہ نے کی۔
9 مئی کے عمران خان کے خلاف کئی مقدمات ہیں اور اب دوسرے مقدمات میں یہ سامنے آنا شروع ہوگا کہ بانی تحریک انصاف کے خلاف اور کون کون وعدہ معاف گواہ بن رہا ہے۔ 9 مئی کے مقدمات کو ریاست بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے اور اس کی کوشش ہے کہ ان واقعات میں شامل افراد کو نشان عبرت بنایا جائے۔
اطلاعات ہیں کہ 9مئی کے حوالے سے فوجی عدالتوں میں 103ملزمان کے خلاف مقدمات تقریبا مکمل ہو چکے ہیں اور ان میں نوے فیصد پر جرائم ثابت ہو چکے ہیں۔ ان مقدمات کے فیصلے ابھی نہیں سنائے جا رہے کیوں کہ سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 9 مئی کے مقدمات جاری رکھنے کا تو حکم دیا لیکن ان مقدمات پر فیصلے سنانے کو عدالت عظمی نے فوجی عدالتوں کے متعلق کیس میں اپنے فیصلے کے ساتھ جوڑا۔
یعنی جیسے ہی سپریم کورٹ اجازت دے گی، فوجی عدالتوں کے فیصلے جاری کر دیے جائیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ فوج اور پولیس کے پاس عمران خان کے خلاف 9 مئی کے حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ہونے کے حوالے سے ثبوت موجودہ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ 9 مئی کے حملوں کے حوالے سے پہلے مرحلہ کے مقدمات کے فیصلوں کے بعد مبینہ ماسٹر مائنڈ کے گرد گھیرہ تنگ کیا جائے گا۔
ایسے میں عمران خان کی طرف سے ڈیل کی آفر کی بات سمجھ میں نہیں آرہی۔ ویسے تو خان صاحب کسی ایک بات پر ٹھہرتے نہیں۔ چند دن پہلے تک ان کا کہنا تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتے ہیں پر ان سے اسٹیبلشمنٹ بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ لیکن اب انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان سے Indirect رابطہ کرکے تین سال تک خاموش رہنے کی ڈیل کے بدلے رعایتیں دینے کی بات کی تھی۔
فوج کے ترجمان کی طرف سے عمران خان کے اس دعوی کے متعلق ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا۔ اگر عمران خان نے سچ کہا اور اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے کوئی ڈیل کرنا چاہتی ہے تو پھر 9 مئی کے معاملہ پر فوج کے بیانیہ اور اس کے موقف کا کیا بنے گا؟
مجھے ذاتی طور پر عمران خان کی مشکلات کم ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہیں۔ عمران خان نے اپنے آپ پر بہت ظلم کیے، کاش وہ ایسا نہ کرتے۔ اب آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے آپ کو ان مشکلات سے نکالنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں؟
بشکریہ روزنامہ جنگ