اب صرف 3دن درمیان میں ہیں۔
فیصلہ کن گھڑی سر پر کھڑی ہے۔ سوال صرف میری اور آپ کی بقا کا نہیں۔ 25کروڑ جیتے جاگتے پاکستانیوں کے دوام کا ہے۔ اس پر سب متفق ہیں کہ اس ریاست کو ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔ اس ریاست کے بالغ ووٹرز کے ہاتھ میں اب اس کی تقدیر ہے۔ 8فروری کو انہیں یہ اکثریتی رائے دینا ہے کہ وہ کس سرجن کا انتخاب کررہے ہیں۔ جو ریاست کو آپریشن تھیٹر میں لے جائے۔ اس کے لیے سرجن جو دستیاب ہیں۔ ان کے سابقہ آپریشنوں پر نظر ڈالنا ہوگی کہ پہلے جو مریض ان کے نشتر کی زد میں لائے گئے ان میں سے کتنے بچ سکے اور کتنے صحت مند ہوسکے۔ آپریشن کے لیے جو وقت درکار تھا۔ کیا وہ اس سرجن کو ملا۔ آپریشن تھیٹر میں کیا سارے انتظامات تھے۔ بجلی ہمہ وقت میسر رہی۔ اسپتال کی انتظامیہ نے اپنی ذمہ داریاں پوری طرح نبھائیں۔ ڈاکٹروں کی ٹیم نے اپنے اپنے حصّے کا کام کیا۔ بروقت آلات فراہم کیے گئے۔ آپریشن اگر کہیں دور دراز واشنگٹن سے نیٹ پر بھی دیکھا جارہا تھا۔ تو وہاں سے درست اور بروقت مشورے ملے۔ بیمار کی بعد از آپریشن دیکھ بھال صحیح ہوئی۔ سرجن نے بعد از آپریشن بیمار کو دیکھا یا اسے جونیئرز کے سپرد کردیا۔ اور اسپتال کی انتظامیہ پر اندھا دُھند اعتماد کیا۔ مریض کو سرجری کے بعد جن نرسوں کی دیکھ بھال میں دیا گیا کیا وہ تربیت یافتہ تھیں۔ مریض کو جو دوائیاں مکمل صحت یابی کے لیے دی گئیں ان کی میعاد تو پوری نہیں ہوچکی تھی۔ سارے نکتوں کا ایک نکتہ کہ اس سرجن کا کیا کوئی اپنا ڈاکٹرائن ہے۔
آج اتوار ہے اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں بہوؤں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے اور ایک دوسرے سے بہت سے خیالات اور سوالات پر بات کرنے کا دن۔ اور نماز عصر کے بعد اپنے ہمسایوں ،محلے داروں سے حالات حاضرہ پر ایک دوسرے کے قیمتی تاثرات جاننے کا دن۔ یہ اتوار بہت اہم ہے۔ کیونکہ اگلا اتوار 8 فروری کے بعد آئے گا۔ جب تیر کمان سے نکل چکا ہوگا جب شیر اپنا شکار کرچکا ہوگا یا خود شکار ہوچکا ہوگا۔ اور دوسرے سینکڑوں نشان ٹھپّے کھاچکے ہوں گے۔
یہ تو پوری قوم کو، ہمارے پڑوسیوں کو، عالمی کھیل کے بازی گروں کو یقین ہوچکا ہے کہ پاکستانی ووٹرز میں اس وقت عمرانی شعور غضب کا ہے۔ گلیوں سڑکوں پر بھی اور اس سے کہیں زیادہ اسکرین پر اس شعور کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ اکثریت کا ضمیر جاگ چکا ہے۔
ابھی درمیان میں تین دن اور تین راتیں ہیں۔ کئی گھنٹے، کئی سو منٹ، کئی ہزار سیکنڈ۔ سرجن کے انتخاب سے پہلے آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ بیمار کو کیا کیا عارضے لاحق ہیں اور ان کا آغاز کب سے ہوا۔
1۔ سب سے دیرینہ عارضہ کئی ہزار ارب روپے کے قرضے ہیں۔ جو ہر صورت میں ادا کرنے ہیں۔ اس کے لیے کونسا نشتر استعمال ہوگا۔2۔ مغربی اور مشرقی سرحدیں غیر محفوظ ہوگئی ہیں۔ 3۔ آئی ایم ایف کا شکنجہ بھی مریض کو اعصابی تناؤ میں مبتلا رکھتا ہے۔4۔ دہشت گردی پوری طرح قابو میں نہیں ہے۔ جہاں خودکش بمبار تیار ہوتے ہیں۔ وہاں DeRadicalisation نہیں ہوسکی۔5۔ بجلی کی فراہمی مکمل نہیں ہے۔ مہنگی بھی ہوتی جارہی ہے۔6۔ گیس کی فراہمی اور پیداوار ضرورت سے بہت کم ہے۔7۔ بے روزگاری میں مسلسل اضافہ۔8۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی تعداد 10 کروڑ کے قریب ہوگئی۔9۔ فی ایکڑ زرعی پیداوار بہت کم۔10۔ صنعتی پیداوار رُکی ہوئی ہے۔ ایکسپورٹس بہت کم ہوگئی ہیں۔11۔ 60 فیصد آبادی نوجوان ہے لیکن اس کی توانائیاں ملک کے کام میں لانے کی اسکیمیں نہیں بن سکی ہیں، وہ انتہائی مایوس ہیں۔12۔ تعلیم ایک تجارت بن چکی ہے۔ وہ معاشرے کی ذہانت میں اضافہ نہیں کررہی ہے۔13۔ جرائم کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔14۔ کرپشن چپراسی سے لے کر اعلیٰ ترین عہدے تک معمول بن چکی ہے۔15۔ پولیس جاگیرداروں، سرمایہ داروں، اداروں کی غلام ہے۔ 16۔ اعلیٰ اور ذیلی عدالتیں، انصاف سستا دے رہی ہیں نہ وقت پر۔17۔ بازار میں صارف لٹ رہے ہیں۔18۔ مکانات کے کرائے آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔19۔ نوکریاں نیلام ہوتی ہیں۔20۔ شہروں۔ قصبوں، دیہات میں آرام دہ ٹرانسپورٹ موجود نہیں ۔21۔ غریب کی سب سے پسندیدہ اور سہولت والی سواری ریلوے ناقابل اعتبار اورتکلیف دہ ہوچکی ہے۔ 22۔ عوام علاج کے لیے دربدر ہورہے ہیں، سرکاری اسپتالوں میں بد نظمی ہے، پرائیویٹ اسپتالوں میں سب کچھ نیلام کرنا پڑتا ہے۔23۔ وسائل اللہ تعالیٰ نے بے شُمار دیے ہیں مگر ہم انہیں اپنے استعمال میں نہیں لارہے۔ ریکوڈک ایک واضح مثال ہے۔ یہ کسی کی ترجیح نہیں ہے۔24۔ فرقہ پرستی اپنے عروج پر ہے۔ 25۔اقتصادی محرومیوں نے لسانی اور نسلی تعصبات کو ہوا دی ہے۔ 26۔ میرٹ کو مافیاؤں، با اثر خاندانوں نے بڑے عہدوں پر متمکن افسروں نے پاکستان بدر کردیا ہے۔27۔ سرکاری ملازمت ہو یا پرائیویٹ، اب محفوظ نہیں ہے، کبھی بھی بلا وجہ نکال دیا جاتا ہے۔28۔ دریاؤں کے میٹھے پانی کے لیے بڑے ڈیم لسانی تعصبات کی بنا پر نہیں بننے دیئے،پانی کا انتظام نا منصفانہ ہے۔ 29 ۔ زیادہ کمانے والے ٹیکس نہیں دیتے سارا ٹیکس تنخواہ داروں سے لیا جاتا ہے۔ 30۔ اخلاقی طور پر ہم پستیوں میں گر چکے ہیں۔ 31۔ اخبار، ٹیلی وژن چینل عوام کے جاننے کا حق ادا نہیں کررہے، آزاد نہیں ہیں۔32۔ سوشل میڈیا پر اطلاعات کے سیلاب ہیں بہت کچھ جھوٹ بھی ہے۔33۔پاکستانی پاسپورٹ اپنی قدر کھوچکا ہے۔34۔پاکستانی کرنسی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں بہت گر چکی ہے۔
اپنی ناقص معلومات کی روشنی میں یہ چند چیلنج میں نے شُمار کیے ہیں۔ جو آنے والی یا لائی جانے والی حکومت کے لیے پہاڑ جیسے ہوں گے۔ سب سے کٹھن ذمہ داری ہوگی ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنا۔ گزشتہ 38سال میں اور خاص طور پر پی ڈے ایم کے 16ماہ۔ پھر نگراں حکومت کے چند مہینوں میں یہ بھروسہ پارہ پارہ ہوچکا ہے۔ 8 فروری کی منتخب حکومت کے پاس کیا اس کا کوئی فوری اور طویل المیعاد منصوبہ ہوگا۔ کیونکہ اس اعتماد کے بعد ہی قدم آگے بڑھ سکیں گے۔ میدان میں موجود قیادتیں اپنا اعتبار بھی کھوچکی ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ان گزشتہ 38برسوں میں ریاست اور حکومت الگ الگ نہیں رہے ہیں، اقتدار میں برابر کی شریک رہی ہیں۔ ملک جن بیماریوں میں مبتلا ہوتا رہا ہے۔ ذمہ داری دونوں کی ہے۔
اعتماد کی بحالی کا راستہ صرف ایک ہی ہے۔ 8فروری کو ووٹرز کو اپنا ووٹ بلا روک ٹوک ڈالنے کی آزادی میسر ہو۔ جس سرجن کو اپنے لیے مسیحا سمجھیں ۔ اسے منتخب کرنے دیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ