آج کل تو صبح جلسہ، شام جلسہ، دوپہر جلسہ، 50ہزار کرسیاں، لوگ معلوم نہیں کتنے۔ یہ تو الیکشن سے پہلے فصل لگائی جارہی ہے۔ ہر جلسے پہ کتنے لوگ آئے۔ کیا کہہ کر لائے، بلائے گئے اور کیا وعدے کئے گئے، کتنے خرچے کے بعد آئے اور کس کے سر پر خرچہ منڈھا گیا۔ یہ تو جیتنے یا ہارنے والے، بعد میں کبھی کوسنے دیکر اور کبھی لڈو بانٹتے ہوئے بتائیں گے۔ ابھی تو یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ سرمایہ کس وعدے اور کس منشور کے تحت خرچ کیا گیا ہے۔ 76سال کی طرح منشور، وہی پرانا۔ سب کو لاکھوں نوکریاں، لاکھوں گھر، کروڑوں قرضے اور آپ کا خادم… میں فلاں، میںفلاں ابن فلاں۔ کئی نسلوں کا ساتھ ہے۔ آپ مجھے ووٹ دے کر پرانا ساتھ نبھائیں گے۔ پانی نہیں ہے، بارش نہیں۔ آپ نے سوچا! کیا مذاق!
اب چاہے ریڈیو لگائیں، چاہے ٹی وی دیکھیں یا اخبار اٹھالیں وہی چندا ماما دور کے، بڑے پکائیں بور کے، آپ کھائیں تھالی میں ، ہم کودیں پیالی میں‘‘۔ یہی آغازِ و انجام محبت ہونا ہے کہ ساری قوم پیالی میں اور آپ تھالی میں۔ یہ کوئی نئی، انوکھی، عجوبہ بات نہیں۔ اور پھر ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کوبرا کہتے ہیں۔ میں کالم کی کیسی گڑ بڑ ابتدا کررہی ہوں۔ دراصل جیسے منشور، ویسا ہی موضوعاتی تجزیہ۔ آپ لاکھوں کروڑوں کی بات اور وعدے آخری دفعہ۔ آپ نے کرکٹر کے دھرنوں، نعروں، ہیلی کاپٹر کے دوروں اور پیرنی کے حکم کے مطابق آنے جانے کا پروگرام بنانے، لوگوں سے میل ملاقات کرنے اور مذہب کو بدنام کرنے کیلئے اس قدر اور اتنی بار دہرایا کہ شکرہے جماعت اسلامی سے لیکر مولانا فضل الرحمان تک نفاذِ شریعت کی بات دھرا نہیں رہے۔ ان کے سامنے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا سلوک غزہ میں نظر آرہا ہے۔ ان سب کو غریب اور بے کس مزدوروں کا ایران میں قتل دکھائی دے رہا ہے۔ اور ڈیڑھ ارب مسلمان آبادیوں کی گمراہ خاموشی اور فلسطینیوں کے ساتھ ظلم پہ چار مہینوں سے خاموشی گواہ ہے کہ ’’تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو‘‘۔ اُدھر سعودی ، حجاب کے پردے اٹھاتے اٹھاتے اب تو میخانے تک پہنچ گئے۔
جتنی جماعتوں کے منشور آئے ہیں۔ ان میں کہیں یہ ذکر نہیں کہ ہر شہر اور پورے ملک میں پھیلی کچی آبادیوں اور بستیوں کے لوگوں کے ساتھ کیا اس طرح ظلم کیا جائے گا جیسے بلدیہ کے ٹرک آکر سبزی اور پھلوں کے ٹوکروں کو اٹھاکے لیجاتے ہیں۔ جیسے گزشتہ چند سال سے بنے بنائے ہوٹل اور شادی ہال کے علاوہ لوگوں کے غربت اور قرضوں میں بنائے گھر یہ کہہ کو توڑے گئے کہ نقشے کے مطابق نہیں تھے۔ کراچی سے لے کر لاہور اور پشاور تک کتنی کچی آبادیاں ہیں۔ جہاں نہ پینے کا پانی نہ بجلی نہ گیس، نہ گلیاں نہ سڑک نہ اسکول اور نہ ہیلتھ یونٹ ہے۔ ویسے تو شہروں کے ہیلتھ یونٹس سے لیکر بڑے اسپتالوں کے برآمدوں اور فرشوں پر پڑے مریضوں اور ریلوے اسٹیشن پہ بے گھر سوئے ہوئے سینکڑوں غربا کے منظر ایک جیسے ہیں۔
مودی صاحب نے ایک اور بدعت شروع کردی ہے۔ رام مندر کیا بنایا ایکڑوں پہ، کہہ دیا کہ ہندوستان تو ہے ہی ہندوؤں کا۔ دوسرے مذہب والوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ کچھ ایسا ہی سلوک ہم سندھ میں گیارہ گیارہ سال کی ہندو لڑکیوں کو جبراًمسلمان کرکے مسلمان نوجوانوں سے بیاہ رہے ہیں۔ بہت سال سے بہت شور ہے۔ مگر حکمرانوں نے ایسی بدعتوں کو ختم کرنے کی جانب توجہ نہیں دی ۔ بس ظاہراً ہولی دیوالی میں حکمران شریک ہوکر فوٹو اتروا کر مذہبی برداشت ظاہر کرتے ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کے علاوہ سکھوں کو بھی قتل کیا جارہا ہے۔ وہاں مسیحی برادری کو نہ حقوق ملتے ہیں۔ نہ دلت آبادی کے انسانی حقوق کی پاسداری کی جاتی ہے۔ ہمارے کسی منشور میں بزرگ آبادی کی جانب کوئی توجہ نہیں۔ ہمارے ملک میں خواجہ سرا لوگوں کی معاشرے میں باقاعدہ شمولیت، تعلیم اور نوکریوں کیلئےکسی پارٹی نے اپنے منشور میں کچھ نہیں لکھا۔ ہماری آبادی، خیر سے پانچ سال میں دگنی ہو جاتی ہے۔ اس کو کنٹرول کرنے اور ان ڈھائی کروڑ بچوں کی تعلیمی سہولت، ان کیلئے یونیفارم وظیفوں اور اسکولوں کیلئے فنڈز کی کوئی بات نہیں کی گئی، ابھی تک نوجوان مایوس ہیں۔ ان کیلئےکچھ بتائیں۔
ہمارے سارے سیاست دان، بڑ بولے ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ مجال ہے کہ اتوار بازار یا لنڈے بازار میں۔ کبھی کسی سیاسی رہنما نے چکر لگا کے دیکھا ہو ۔ اب تو 5کلو آٹا، ایک ہزار روپے کا ہوگیا ہے آئی ایم ایف سے لے کر دنیا کے سارے ادارے بار بار سرکاری اخراجات کم کرنے پہ زور دے رہے ہیں۔ ہمارا زور ا ب ریٹائرڈ لوگوں کی پنشن بند کرانے پہ ہے۔ یہ لوگ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن پہ ایک حرف نہیں بولتے۔
کہنے کو یہ چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں جن کو بلدیاتی سطح پر حل کیا جاسکتا ہے۔ مگر ہم بلدیاتی اداروں کو نہ مستحکم کرتے ہیں نہ منشور میں ان کی اہمیت پر کوئی بات کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک اچھا واقعہ ہونے کو ہے۔ اس دفعہ ہر ضلع، ہر صوبے میں خواتین الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ مگر شمالی وزیرستان سے لے کر تسبیح پکڑے لوگ، عورتوں کو الیکشن میں حصہ دار نہ بننے بلکہ ووٹ نہ دینے کیلئےنعرے مار رہے ہیں۔
بی ۔ آئی ۔ ایس پی کو بڑھانے کی بات، نوجوان بلاول تک کر رہا ہے۔ آپ سوچئے کہ ہم پوری غریب آبادی کو جھولی پھیلاؤ آبادی کیوں بنا رہے ہیں۔ ان کو وظیفہ خوار نہیں۔ تعلیم اور ہنر یافتہ بنانے کیلئے وہ رقم خرچ کیجئے۔ شادیوں کے اخراجات پہ پابندی لگایئے۔ مدرسوں میں بھی باقاعدہ اسکولوں والا نصاب، شہری حقوق و فرائض کے علاوہ، ہر اسکول میں لڑکیوں کیلئے باتھ روم بنوانے کا ایجنڈا، اولین رکھیں۔چھوٹے کاشتکاروں، جن میں عورتیں بھی شامل ہیں۔ ان کو زمینی ملکیتی حقوق محض کاغذوں میں نہیں، ان کو پٹواریوں سے نجات د لو ا ئیں ۔ پاکستان کو بہت لوٹ لیا۔ اب کچھ کام کرکے دکھاؤ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ