اسلام آباد(صباح نیوز)چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 189کے تحت ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے۔ججز لاء میکرز اور حکومت بن گئے ہیں، کوئی ادارہ اپنا کام کرہی نہیں رہا۔ ہر چیز پر بحث کریں گے لیکن غلطی تسلیم نہیں کریں گے، دھونس چلائیں بس۔ جب ایک رٹ پر ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا توپھر ایک ہی کاز آف ایکشن پر دوبارہ ہائی کورٹ میں کیسے رٹ دائر کرسکتے ہیں، ایک رٹ کے اوپر کیسے دوبارہ رٹ ہوسکتی ہے۔ جبکہ عدالت نے محکمہ سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں 2006میں بھرتی ہونے والے میل موبلائزرز کی 2009سے ریگولر کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اورجسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پنجاب حکومت کی جانب سے سیکرٹری پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ، لاہور اوردیگر کے توسط سے شہزاداحمد اوردیگرکے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت حکومت پنجاب کی جانب سے بیرسٹر محمد ممتاز علی پیش ہوئے جبکہ مدعا علیحان کی جانب سے سید رفاقت حسین شاہ اور جنید جبار خان بطور وکیل پیش ہوئے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ مدعا علیحان کو ہم نے ستمبر2016سے ریگولرائز کردیا ہوا ہے تاہم یہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں 2009کی ریگولرائزیشن پالیسی کے تحت 2009سے ریگولرائز کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاپولیشن ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کا 2003سے2008کا پراجیکٹ تھا جس میں 2006میں مدعا علیحان میل موبلائزر بھرتی ہوئے اور فیملی پلاننگ کے حوالہ سے کام کرتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر نئی پوسٹیں تخلیق کرنے کے بعد انہیں2016میں مستقل کیا گیا
چیف جسٹس نے مدعا لیحان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے سوال کا جواب دیں پھر ہم بات سنیں گے، مسئلہ یہ ہورہا ہے کہ آج کل قانون کی بات کوئی وکیل نہیں کرتا، کوئی کتاب اٹھالیں قانون کی بات ہمیں بتادیں، دکھڑے نہ سنائیں، کوئی قانون اورکتاب کا حوالہ دے دیں۔ چیف جسٹس نے غلط بیانی پر سید رفاقت حسین شاہ کو 500روپے جرمانہ کردیا۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو چاہے کھڑے ہوکر بحث کرنا شروع کردیتا ہے، صرف دووکیل روسٹرم پر کھڑے ہوںگے، اس سے زیادہ وکیل روسٹرم پر کھڑے نہیں ہوں گے۔ چیف جسٹس نے تیسرے وکیل کو جاکرکرسی بیٹھنے کی ہدایت کردی۔ چیف جسٹس نے سید رفاقت حسین شاہ کو مزید غلط بیانی پر 500روپے اورجرمانہ عائد کرتے ہوئے کہا کہ غلط بیانی برداشت نہیں کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے کہا 1500روپے جرمانہ، غلط بیانی کرتے رہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وکیل فیکچوئل غلطیاںنہ کریں، 2000روپے جرمانہ، سید رفاقت حسین شاہ کو ہلکا جرمانہ لگارہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ رقم پاکستان بارکونسل کو جمع کروائی جائے گی، یہ رقم وکیل اپنی جیب سے اداکریں گے نہ کہ اپنے مئوکلین سے لیں گے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان کو 19ستمبر2016کو ریگولرائز کیا گیا جبکہ ریگولرائزیشن پالیسی 14اکتوبر2009کی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہائی کورٹ کا آرڈر سپریم کورٹ کے لئے ماننا ضروری ہے، آئین کے آرٹیکل 189کے تحت ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کے فیصلوں کی پابند ہے۔چیف جسٹس نے مدعاعلیہ کے وکیل سے استفار کیا کہ آپ کو تنخواہ کون دیتا ہے، عوام دیتے ہیں۔ چیف جسٹس سید رفاقت حسین شاہ کو ہدایت کی 2000جرمانہ پاکستان بارکونسل کو جمع کرواکررسید لائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہر چیز پر بحث کریں گے لیکن غلطی تسلیم نہیں کریں گے، دھونس چلائیں بس۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی جج نے 2004کی پالیسی کا تذکرہ بھی نہیں کیا، ججز لاء میکرز اور حکومت بن گئے ہیں، کوئی ادارہ اپنا کام کرہی نہیں رہا۔ چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی آئین کاآرٹیکل 189پڑھیں، ابھی ہم کلاس کروارہے ہیں۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ ہم معاملاکو بیک ڈیٹ میں نہیں لے جاسکتے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 2007میں تعیناتی ہوئی اور خوشی سے قبول کی اور2017میں جاکرچیلنج کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب ایک رٹ پر ہائی کورٹ سے ریلیف مل گیا توپھر ایک ہی کاز آف ایکشن پر دوبارہ ہائی کورٹ میں کیسے رٹ دائر کرسکتے ہیں، ایک رٹ کے اوپر کیسے دوبارہ رٹ ہوسکتی ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہنا تھا کہ سول سروس میں آنے کے بعد آئین کے آرٹیکل 212(3)کے تحت سروسز ٹربیونل میں جاسکتے ہیں اور کسی اورعدالت میں نہیں جاسکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مدعا علیحان ہائی کورٹ کے حکم پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کاروائی کرسکتے تھے۔ چیف جسٹس نے حکم لکھواتے ہوئے کہا کہ مدعا علیحان نے تعیناتی کی تاریخ سے ریگولرائزیشن مانگی جو کہ ہائی کورٹ نے نہیں دی۔ عدالت نے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر درخواست سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے مدعا علیحان کی جانب سے 2009کی پالیسی کی تاریخ سے ریگولرائز کرنے کی استدعا مسترد کردی۔