عثمان گل عمران خان کے وکلا کے پینل میں شامل ہیں یہ سائفر توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈز کے کیسز میں بشری بی بی اور عمران خان کی وکالت کرتے ہیں 29 جنوری پیر کو جج ابوالحسنات ذوالقرنین سائفر کیس کی سماعت کے لیے اڈیالہ جیل آئے یہ عدالت کی طرف جا رہے تھے تو عثمان گل نے ان پر ایک نازیبا فقرہ کس دیا جج صاحب نے مڑ کر ان کی طرف دیکھا سر جھکایا اور عدالت میں چلے گئے۔
عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان پر جرح ہونی تھی جج صاحب نے اعظم خان کو روسٹرم پر بلایا اور سرکاری وکیل کو شاہ محمود قریشی کی طرف سے جرح کا حکم دے دیا شاہ محمود قریشی کھڑے ہوئے اور انھوں نے شور شروع کر دیا قریشی صاحب اور عمران خان کے وکلا بھی کھڑے ہو گئے جج صاحب سیدھے ہوئے اور انھوں نے عثمان گل کی طرف دیکھ کر کہا آپ نے باہر جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا تھا۔
میں آپ لوگوں کی عزت کرتا تھا میں نے آپ کو رعایت بھی بہت دی لیکن اب نہیں اب فیصلہ صرف پروسیجر کے مطابق ہو گا اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب نے کارروائی شروع کر دی عمران خان توشہ خانہ کیس میں جج محمد بشیر کی عدالت میں تھے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے فورا وائرلیس کرائی اور عمران خان کو عدالت میں طلب کر لیا عمران خان نے جواب دیا میرے وکلا آئیں گے تو میں آں گا۔
جج صاحب نے جیل کے عملے کو سختی سے کہا آپ عمران خان کو فورا پیش کریں اور جیل اسٹاف پانچ منٹ میں عمران خان کو عدالت میں لے آیا جج نے کارروائی شروع کی اور 12 گھنٹے کی مسلسل سماعت کے بعد تمام گواہ بھگتا دیے رات کے ساڑھے دس بجے دونوں ملزموں کے 342 کے سوال نامے تیار کرائے اور عدالت اگلے دن (30 جنوری) کے لیے برخاست کر دی۔
30 جنوری کو صبح ساڑھے دس بجے سماعت شروع ہوئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے جج صاحب نے دونوں کو روسٹرم پر بلایا اور انھیں 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کا حکم دے دیا عمران خان نے ہنس کر کہا جج صاحب یہ کیا ہوتا ہے؟ جج نے سختی سے جواب دیا خان صاحب آپ یہ ڈرامہ بند کریں میں نے آپ کو جتنی رعایت دینی تھی دے دی لیکن آپ نے اس کا ناجائز فائدہ اٹھایا آپ جائیں سامنے بیٹھیں اور جواب لکھیں عمران خان نے کہا مجھے میرے وکلا چاہئیں جج صاحب نے سرکاری وکیل کی طرف اشارہ کر کے کہا آپ کا وکیل موجود ہے۔
آپ اس کی مدد لیں اور بیان لکھیں عمران خان اور شاہ محمود نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور دونوں بیٹھ کر بیان لکھنے لگے جج صاحب تھوڑی دیر انھیں دیکھتے رہے اور اس کے بعد انھیں مخاطب کر کے کہا خان صاحب آپ روسٹرم پر آ جائیں اور اسٹینو کو براہ راست بیان لکھوا دیں عمران خان آئے اور انھوں نے سائفر پر اپنا موقف لکھوانا شروع کر دیا وہ ایک گھنٹہ مسلسل بولتے رہے اور اسٹینو ٹائپ کرتا رہا شاہ محمود قریشی اس دوران اپنا بیان لکھتے رہے۔
عمران خان کا بیان مکمل ہوا تو جج نے ان سے آخری سوال کیا خان صاحب سائفر کہاں ہے؟ خان صاحب کا جواب تھا میں نہیں جانتا وزیراعظم آفس کی سیکیورٹی میری ذمے داری نہیں تھی یہ سنتے ہی جج صاحب نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو دس دس سال قید بامشقت سزا سنائی اور اس کے ساتھ ہی کرسی سے اٹھ کر باہر کی طرف روانہ ہو گئے جب کہ شاہ محمود قریشی چلاتے رہ گئے جج صاحب میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا مگر جج صاحب ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کمرے سے نکل گئے۔
30 جنوری کوعمران خان کی توشہ خانہ کیس میں بھی سماعت تھی جج محمد بشیر عدالت پہنچ گئے بشری بی بی بھی عدالت میں موجود تھیں جج نے دونوں کو روسٹرم پر طلب کیا اور انھیں 342 کا سوال نامہ تھما دیا بشری بی بی کے سوال نامے میں 25 جب کہ عمران خان کے 27 سوال تھے جج نے دونوں کو جواب کے لیے 15 منٹ دیے لیکن دونوں نے وکلا کے بغیر جواب لکھنے سے انکار کر دیا وکیل شہباز کھوسہ نے وکالت کی درخواست دی لیکن جج نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کر دی آپ لوگ کل اپنا حق جرح کھو چکے ہیں پندرہ منٹ بعد مزید 15 منٹ دیے گئے۔
اس کے بعد مزید 15 منٹ یہ وقت 6 بار دیا گیا لیکن بشری بی بی اور عمران خان نے جواب تحریر نہ کیا جج چھٹی بار عدالت میں آئے اور انھوں نے سختی سے کہا آپ دونوں کو بہرحال جواب لکھنا پڑیں گے آپ یہ کام جتنی آسانی سے کر لیں گے آپ کے لیے اتنا اچھا ہو گا ورنہ آپ اپنا یہ حق بھی کھو بیٹھیں گے عمران خان اور بشری بی بی نے شہباز کھوسہ کی طرف دیکھا انھوں نے سر ہلا کر ہاں کر دی اور اس کے بعد دونوں نے جواب لکھنا شروع کر دیے۔
شہباز کھوسہ علی ظفر گوہر خان سلیمان صفدر اور عمیر نیازی ان کی مدد کرنے لگے بشری بی بی کا جواب پہلے تیار ہو گیا اسٹینو نے 342 کا بیان ٹائپ کیا بشری بی بی سے اس پر دستخط لیے اور اس کے ساتھ ہی جج صاحب اپنی کرسی سے اٹھ گئے ان کی طبیعت خراب ہو گئی اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ انھیں جیل کے اسپتال میں لے گیا ان کا بلڈ پریشر شوٹ کر گیا تھا عمران خان کا بیان ابھی جمع نہیں ہوا تھا خان صاحب اپنی کاپی اٹھا کر عدالت میں کھڑے تھے۔
اس دوران ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ واپس آیا اور اس نے اعلان کیا سماعت کل صبح نو بجے تک ملتوی ہوگئی ہے تاہم جج صاحب کا حکم ہے کل صبح نو بجے دونوں ملزم عدالت میں پیش ہوں گے اور خان صاحب کا 342 کا بیان مکمل ہوگا 30 جنوری کو جیل میں لیڈی پولیس کی اضافی نفری موجود تھی اس سے محسوس ہو رہا تھا توشہ خانہ کیس کا فیصلہ بھی آج ہی ہو جائے گا جس کے بعد بشری بی بی کوگرفتار کر لیا جائے گا۔
گوہر خان کو اس صورت حال کا اندازہ تھا چناں چہ انھوں نے بشری بی بی کو جیل سے باہر لے جانے کی کوشش کی مگر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آفتاب باجوہ نے انھیں روک دیا ان کا کہنا تھا بی بی جج صاحب کی اجازت کے بغیر باہر نہیں جا سکتیں اس جواب سے بھی صورت حال کا اندازہ ہو گیا توشہ خانہ کیس کے دوران دو اور واقعات بھی پیش آئے عمران خان نے اپنے وکلا سے کہا تحفے مجھے ملے تھے۔
ان میں بشری بی بی کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اگر جج بی بی کو چھوڑ دے تو میں اپنا جرم ماننے کے لیے تیار ہوں لیکن وکلا نے انھیں روک دیا ان کا کہنا تھا جج اس کے باوجود بشری بی بی کو بری نہیں کرے گا لہذا آپ کے اعتراف کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا دوسرا جب جج صاحب بیمار ہو گئے تو کمرہ عدالت میں موجود لوگ بشری بی بی کی طرف دیکھنے لگے انھیں بشری بی بی کی روحانی طاقتوں کا یقین ہو گیا عمران خان کی فیملی میں یہ بات دو ماہ سے گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر فیصلے سے پہلے ہی موکلات کے اثرات کا شکار ہو جائیں گے۔
جج اس کیس کے دوران چھ مرتبہ بیمار ہوئے اور انھوں نے 20جنوری کو بیماری کی وجہ سے ریٹائرمنٹ تک چھٹی کی درخواست بھی دے دی تھی جس سے موکلات کا تاثر مزید گہرا ہو گیا عدالتی حلقوں میں یہ افواہ بھی گردش کر رہی تھی جج محمد بشیر عمران خان اور بشری بی بی کو سزا نہیں دینا چاہتے یہ اس کیس سے بچنا اور نکلنا چاہتے ہیں عین فیصلے کے وقت جج صاحب کی بیماری نے اس تاثر کو بھی گہرا کر دیا بہرحال قصہ مختصر 30 جنوری کو سماعت ملتوی ہو گئیکل 31 جنوری کو کیس کی آخری سماعت تھی جج محمد بشیر عملے سمیت 9 بجے عدالت پہنچ گئے لیکن بشری بی بی اور عمران خان عدالت میں نہیں تھے وکلا بھی نہیں آئے تھے۔
جج صاحب نے عمران خان کو طلب کیا مگر خان نے سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا جج نے جیل کے عملے کو حکم دیا اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عمران خان کو زبردستی لے کر عدالت میں پیش ہو گئے جج نے پوچھا آپ کا 342 کا جواب کہاں ہے؟ خان نے جواب دیا وہ میرے سیل میں ہے۔
آپ مجھے موقع دیں میں لے آتا ہوں جج نے اجازت دے دی عمران خان گئے اور پھر سیل سے نکلنے سے انکار کر دیا جج نے انھیں بلایا جیل کے عملے نے بھی کوشش کی مگر وہ نہیں آئے جس کے بعد عدالتی اہلکار نے کوریڈور میں طلبی کی آواز لگائی اور اس کے بعد جج محمد بشیر نے عمران خان اور بشری بی بی کو سزا سنا دی اور یوں دو مقدموں کی کارروائی مکمل ہو گئی۔
عمران خان کو سزا ہونی تھی اور یہ ہو گئی لیکن اس سزا نے یہ ثابت کر دیا ملک میں ہر الیکشن سے قبل کسی نہ کسی سویلین وزیراعظم کو سزا ضرور ہو گی کوئی نہ کوئی نظام کے گھاٹ پر ضرور چڑھے گا یہ سلسلہ 1958 میں حسین شہید سہروردی سے شروع ہوا تھا اور آج تک جاری ہے 2018 میں نواز شریف اپنی صاحب زادی کے ساتھ جیل میں تھے اور عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھے تھے۔
2024 میں عمران خان بشری بی بی کے ساتھ جیل میں ہیں اور نواز شریف ون پیج سے لطف اٹھا رہے ہیںاب ایشو یہ ہے 2024 کے بعد 2028 بھی آئے گا اور اس وقت بھی اڈیالہ جیل جج ابوالحسنات ذوالقرنین اور جج قدرت اللہ موجود ہوں گے لیکن سوال یہ ہے اس وقت جیل میں کون ہوگا؟ اس سوال میں ملک کا مقدر چھپا ہے اور میرا خیال ہے اس بار اس مجرم کا فیصلہ آصف علی زرداری نواز شریف اور عمران خان تینوں مل کر کریں گے اور ان تینوں کو ایک وکیل اکٹھا بٹھائے گا اور وہ وکیل کون ہے آپ ذرا ذہن پر زور دے کر سوچیں آپ کو 2028کا سیناریو سمجھ آ جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس