سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس دس سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ اسی طرح توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان اور بشری بیگم کو چودہ چودہ سال قید کی سزا سنا دی گئی ہے۔ دونوں مقدمات میں سزاؤں سے الیکشن کا ماحول کافی حد تک بدل گیا ہے۔ دونوں فیصلے ایسے ہیں جن کی امید کی جا رہی تھی۔
یہ کوئی ایسا فیصلے نہیں جس پر کسی کو بھی کوئی حیرانی ہوئی ہو۔ سب کو ایسے فیصلوں کی توقع تھی۔ جہاں تک سائفر کیس کا تعلق ہے تحریک انصاف ایک مہم چلا رہی تھی کہ انھیں پھانسی کے فیصلے کی توقع ہے۔ پھر عمر قید کی بھی بہت بات کی گئی ۔
چودہ سال کی قید کی بہت بازگشت سنی گئی۔تاہم پھر دس سال قید کا فیصلہ سامنے آگیا۔ اس طرح کہا جا سکتا ہے جیسے فیصلے کی توقع کی جا رہی تھی۔ سزا اس کی نسبت کم ہوئی ہے۔ لیکن دس سال قید بھی کافی ہوتی ہے۔
سائفر کیس دراصل پاکستان کی خفیہ دستاویز کو ظاہر کرنے کا معاملہ ہے۔ بطور وزیر اعظم اور بطور وزیر آپ نے حلف لیا ہوتا ہے کہ بطور حکمران پاکستان کی کوئی خفیہ دستاویز اور راز آپ کے علم میں آئے گا تو آپ اسے کسی پر بھی ظاہر نہیں کریں گے۔ حلف دراصل قومی راز کو راز رکھنے کا ہی ہوتا ہے۔
سائفر ایک خفیہ دستاویز تھی۔ جب ایک دستاویز لکھی خفیہ زبان میں گئی تھی تو اس کے خفیہ ہونے پر تو کوئی دو رائے نہیں ہے۔ اس لیے سائفر کو عوام میں پبلک کرنا ہی جرم تھا۔ اسی طرح پھر اس کا گم ہونا بھی جرم ہے۔ لہذا میری رائے میں یہ پہلے دن سے ہی ایک مکمل کیس تھا۔ جس میں سز ا یقینی تھی۔
پاکستان میں وزرائے اعظم کے ساتھ بہت بہت زیادتی ہوئی ہے۔ انھیں ایک نہیں کئی کئی بار غیر آئینی طریقوں سے نکالا گیا ہے۔ پھانسی بھی لگائی گئی ہے۔قید بھی دی گئی ہے۔ لیکن کسی نے بھی کوئی سرکاری راز افشا نہیں کیا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی کے پاس کوئی راز نہیں تھا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں انھیں اس معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ تھا۔
عمران خان نے اپنے سیاسی مقصد کے لیے ایک سرکاری خفیہ دستاویز کا استعمال کیا۔ لہذا اس میں سزا تو بنتی تھی۔ اس کے علاوہ اس دستاویز کا غلط استعمال اپنی جگہ ہے۔ غلط اور صحیح استعمال کی بات تو بعد کی ہے۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ استعمال کرنا ہی جرم ہے۔ حلف کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے دوستوں کو سمجھنا ہوگا کہ عمران خان کو سائفر میں نہیں بلکہ ایک سرکاری خفیہ دستاویز کو گم کرنے اور پبلک کرنے پر سزا ہوئی ہے۔ انھیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر سزا ہوئی ہے۔
جہان تک عمران خان کی اس منطق کا سوال ہے کہ مجھے جنرل باجوہ نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ اگر سائفر کو پبلک کیا تو آپ کو بارہ سال سزا ہو جائے گی تو میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ جنرل باجوہ نے ایسا کہا تو اس میں غلط کیا ہے۔ انھوں نے عمران خان کو یہی سمجھایا کہ وہ ایک جرم کر رہے ہیں اور اس جرم کی سزا بارہ سال قید ہے۔
یہ تو ایسے ہی ہے کہ کوئی قتل کرنے جا رہا ہو تو اسے کہا جائے کہ اگر قتل کرو گے تو پھانسی ہو جائے گی وہ قتل کر دے پھر اسے پھانسی ہو جائے تو وہ اس شخص پر الزام لگائے کہ اس نے تو مجھے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ مجھے پھانسی ہو جائے گی۔
اسے بھی پکڑا جائے۔ اس لیے جب وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر رہے تھے تو انھیں یہ بتانا کہ یہ جرم ہے اور اس کی سزا ہے کوئی جرم نہیں بلکہ عمران خان سے بھلائی ہی تھی۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ بھلائی کا زمانہ نہیں ہے۔ اور پھر عمران خان کے ساتھ جس نے بھی بھلائی کی ہے اس کے ساتھ انھوں نے اچھا سلوک نہیں کیا ہے۔
اب تحریک انصاف کی جانب سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ٹرائل میں قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔اس لیے یہ سزائیں ہائی کورٹ سے ختم ہوجائیں گی۔ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ میری رائے میں یہ سزائیں ہائیکورٹ کیا سپریم کورٹ سے بھی قائم رہیں گے۔ ان سزاں میں کوئی بھی قانونی سقم نہیں ہے۔
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے وکلا خود عدالت سے دو دن غائب ہوئے جس کے بعد اسٹیٹ ڈیفنس کونسل تعینات کر کے کارروائی کو آگے بڑھایا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی اور ان کی وکلا ٹیم کا خیال تھا کہ جب وکیل غائب ہونگے تو کارروائی کو یک طرفہ آگے بڑھایا جائے گا۔ ان کا حق جرح ختم کر دیا جائے گا۔ وہ بعد میں کہیں گے ان کا حق ختم کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے توشہ خانہ کیس میں ایسا ہی کیا گیا تھا۔
لیکن اس بار جج صاحب نے ایسا نہیں کیا ہے۔ انھوں نے نہ تو حق دفاع ختم کیا ہے اور نہ ہی کوئی یک طرفہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ اس لیے عمران خان کے وکلا کے لیے ٹرائل سے غیر حاضری کا ہائی کورٹ میں دفاع کرنا مشکل ہو جائے گا۔ توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان کے وکلا آخری دن غیر حاضر رہے۔
انھوں نے جان بوجھ کر 342کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا۔ملزم کی پہلی ذمے داری عدالت سے تعاون کرنا ہے۔ لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ملزم نے دوران ٹرائل عدالت سے تعاون نہیں کیا تو پھر اعلی عدلیہ سے بھی ریلیف ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس تناظر میں مجھے نہیں لگتا کہ یہ سزائیں آگے ختم ہونگی۔
ان سزاں کے بعد عمران خان نہ صرف اس الیکشن بلکہ اگلے الیکشن کے لیے بھی نا اہل ہو گئے ہیں۔ توشہ خانہ میں سزا بھی چودہ سال ہے اور نا اہلی مدت بھی دس سال ہے۔ میری رائے میں عمران خان کے سیاسی مستبقل کا نواز شریف سے تقابلی جائزہ درست نہیں۔ نواز شریف کی قانونی اور حکمت عملی بھی عمران خان سے بہتر تھی۔
ان کے پاس ایک بہتر سیاسی اور قانونی ٹیم تھی۔ عمران خان کی قانونی ٹیم نے بھی سب کو مایوس کیا ہے۔ بلکہ آخری دنوں میں تو وہ خود بھی اپنی قانونی ٹیم سے مایوس تھے۔ انھوں نے لطیف کھوسہ کو الگ کیا۔ جہاں تک سیاسی ٹیم کی بات ہے تو وہ ہے ہی نہیں۔ ان کے سارے سیاسی رفقا ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ اس لیے تقابلی جائزہ درست نہیں ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ آٹھ فروری کے بعد یہ موجودہ لوگ بھی عمران خان سے دور ہو جائیں گے۔ وکلا کی ٹیم بھی بھاگ جائے گی، اور جو دو چار سیاسی لوگ رہ گئے ہیں وہ بھی بھاگ جائیں گے۔ ایک لمبی سیاسی تنہائی عمران خان کے لیے نظر آرہی ہے۔ ان کے لیے الیکشن کے بعد لوگوں کو اپنے گرد جمع رکھنا عملی طور پر نا ممکن ہو جائے گا۔ الیکشن سے پہلے ان سزاں نے انھیں ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ